تحریک طالبان سے محسود گروپ کی علیحدگی کے بعد مذاکرات تعطل کا شکار
حکومتی حلقوں میں اس صورت حال پرمشاورت جاری ہے کہ اگر گروپ بندی ہوگی تو الگ الگ دھڑوں سے مذاکرات کیسے کیے جائیں
کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں اختلافات اور محسود گروپ کی ٹی ٹی پی سے علیحدگی کے اعلان کے بعد مذاکراتی عمل کے رابطوں میں تعطل پیدا ہوگیا ہے۔
اختلافات اور نئے گروپ کے قیام کا اعلان سامنے آنے کے بعد وفاق کی سطح پر طالبان قیادت سے مذاکرات کرنے والے حلقوں نے ایکسپریس کو بتایا کہ حکومت طالبان شوریٰ سے اس شرط پر مذاکرات کررہی تھی کہ تمام ذیلی گروپس طالبان شوریٰ کے فیصلوں کے پابند ہیں تاہم کالعدم تحریک طالبان کے دھڑوں میں اختلافات سامنے آنے کے بعد اب مذاکراتی عمل کے حوالے سے صورت حال تبدیل ہوجائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی حلقوں میں اس صورت حال پر مشاورت کی جارہی ہے، اگر گروپ بندی ہوگی تو الگ الگ دھڑوں سے مذاکرات کیسے کیے جاسکتے ہیں؟
ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کے اندرونی اختلافات کے باعث مذاکراتی عمل خصوصاً دوسری براہ راست ملاقات کے لیے وقت اور مقام کا تعین نہیں ہوسکا۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ محسود گروپ بھی مذاکراتی عمل کے لیے اپنی پالیسی کا جلد تعین کرسکتا ہے اور اطلاعات ہیں کہ مذکورہ گروپ حکومت سے ساتھ مذاکرات کرے۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میںدوسری براہ راست ملاقات کا ہونا مشکل نظر آرہا ہے تاہم اگر کوئی گروپ آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے امن کے لیے مذاکرات کرے گا تو حکومت امن پالیسی کے تحت مذاکرات کرے گی۔
اختلافات اور نئے گروپ کے قیام کا اعلان سامنے آنے کے بعد وفاق کی سطح پر طالبان قیادت سے مذاکرات کرنے والے حلقوں نے ایکسپریس کو بتایا کہ حکومت طالبان شوریٰ سے اس شرط پر مذاکرات کررہی تھی کہ تمام ذیلی گروپس طالبان شوریٰ کے فیصلوں کے پابند ہیں تاہم کالعدم تحریک طالبان کے دھڑوں میں اختلافات سامنے آنے کے بعد اب مذاکراتی عمل کے حوالے سے صورت حال تبدیل ہوجائے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی حلقوں میں اس صورت حال پر مشاورت کی جارہی ہے، اگر گروپ بندی ہوگی تو الگ الگ دھڑوں سے مذاکرات کیسے کیے جاسکتے ہیں؟
ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کے اندرونی اختلافات کے باعث مذاکراتی عمل خصوصاً دوسری براہ راست ملاقات کے لیے وقت اور مقام کا تعین نہیں ہوسکا۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ محسود گروپ بھی مذاکراتی عمل کے لیے اپنی پالیسی کا جلد تعین کرسکتا ہے اور اطلاعات ہیں کہ مذکورہ گروپ حکومت سے ساتھ مذاکرات کرے۔ حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میںدوسری براہ راست ملاقات کا ہونا مشکل نظر آرہا ہے تاہم اگر کوئی گروپ آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے امن کے لیے مذاکرات کرے گا تو حکومت امن پالیسی کے تحت مذاکرات کرے گی۔