پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی اور مشکلات
2023 کی مردم شماری سے یہ انکشاف ہوا کہ پاکستان کی آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ سے بھی تجاوز کر چکی ہے اور یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ جس قدر آبادی بڑھتی ہے اس سے زیادہ رفتار سے مسائل بھی بڑھتے ہیں۔
2018 کی مردم شماری جب ہوئی تو پاکستان کی کل آبادی 20 کروڑ 76 لاکھ 80 ہزار تھی۔ لیکن 2022 میں ایک اندازے کے مطابق یہ آبادی 22 کروڈ سے تجاوز کرگئی تھی۔ آبادی کی شرح افزائش 2.40 فی صد تھی۔ آبادی میں مردوں کی تعداد دس کروڑ 63 لاکھ اور عورتوں کی کل تعداد 10کروڑ 13 لاکھ تھی۔ دیہی آبادی 13 کروڑ 20 لاکھ اور شہری آبادی سات کروڑ 56 لاکھ افراد پر مشتمل تھی۔ جب کہ اب اس شرح میں اضافہ ہوچکا ہے۔
پاکستان میں ایک مربع کلو میٹر میں 260.88 افراد بستے ہیں۔ جبکہ کے پی کے میں یہ شرح 409 افراد، فاٹا میں 183.93، پنجاب میں 535,63، سندھ میں 339.6 اور بلوچستان میں 35.53 افراد ہے۔ ملک کے اندر 18سال سے زیادہ عمر کے افراد کی شرح 53.40 فیصد اور 65 سال سے زائد عمر کی شرح 3.71 فیصد ہے۔ خیبرپختونخوا کی آبادی تین کروڑ سے کچھ زائد، فاٹا کی آبادی 49 لاکھ 90 ہزار افراد، پنجاب کی آبادی 10کروڑ 99 لاکھ، سندھ 4 کروڑ 78 لاکھ 50 ہزار، بلوچستان ایک کروڑ 23 لاکھ ہے۔
ملک میں شرح خواندگی 58.92 فیصد ہے۔ خیبرپختونخوا کی شرح خواندگی 54.02 فیصد، فاٹا 36.08 فیصد، پنجاب64.01 فیصد، سندھ 45.29 فیصد، بلوچستان 24.83 فیصد اور اسلام آباد میں یہ شرح 72.38 فیصد ہے۔ ماں کی زبان کے اعتبار سے اردو بولنے والوں کی تعداد 7.08 فیصد، پنجابی 38.78 فیصد، سندھی 14.57 فیصد، پشتو 18.24 فیصد اور بلوچی 3.02 فیصد کی زبان ہے۔ کراچی سب سے زیادہ آبادی والا شہر شمار کیا گیا ہے۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے ہنگم اور بے قابو آبادی ملکی وسائل بالخصوص محدود قدرتی وسائل پر سخت دباؤ ڈال رہی ہے۔ یہ صورت حال مستقبل قریب میں بحران کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ اس سلسلے میں پانی کے ذخائر پر بڑھتا ہوا بوجھ ملک کو جلد ایک پریشان کن صورت حال سے دوچار کرسکتا ہے۔
1981 تک ہمارے ہاں پانی وافر مقدار میں مہیا تھا اور فی کس دستیابی 2.123 مکعب میٹر تھی۔ 2017 میں پانی کی فی کس دستیابی انتہائی کمی کا شکار ہوکر 861 مکعب میٹر فی کس کی سطح پر آگئی۔ اگر آبادی کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے بند نہ باندھا گیا تو بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ پانی کی فی کس دستیابی میں کمی کا یہ مسئلہ عنقریب مزید سنگین صورت اختیار کرسکتا ہے۔ صرف پانی ہی نہیں پڑھتی ہوئی آبادی سے اور بھی کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔
بڑھتی ہوئی آبادی سے زرعی اراضی اور اس کے استعمال پر اثرات بھی توجہ طلب ہیں۔ زرعی اراضی کی دستیابی جو کہ 60 اور 70 کی دہائی میں کثرت سے تھی، اس میں بھی خطرناک حد تک کمی آئی ہے۔ اس وجہ سے لوگ زراعت کا کام چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ شہری پھیلاؤ میں اضافہ زرعی اراضی کو مزید دباؤ کا شکار بنا رہا ہے۔ زرعی اراضی کا غیر زرعی مقاصد کےلیے استعمال تیزی سے پھیلتا جارہا ہے جو کہ ملک کو ایک اور بڑے بحران کی طرف لے جا رہا ہے۔
پاکستان کےلیے خود اپنی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کے اثرات گندم کی قلت کے علاوہ پھلوں اور دالوں سمیت ضروری اشیائے خورونوش کی درآمد کی شکل میں پہلے ہی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں کیونکہ زرعی اراضی کو غیر زرعی مقاصد بالخصوص رئیل اسٹیٹ کےلیے استعمال کیا جارہا ہے اور زیر کاشت زمینوں کو رہائشی اسکیموں میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ اس رجحان سے ملک کو ایک مستقل زرعی بحران سے دوچار ہونے کا خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ یورپی ممالک نے اپنی آبادی کو قابو میں رکھا اور آج وہاں وسائل کی تقسیم اور مسائل کا حل ہم سے کہیں بہتر نظر آتا ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی مسائل کو بڑھائے گی، اسی سوچ کے تحت 1973 سے اقوام متحدہ نے آبادی کے کنٹرول کو ایک عالمی پالیسی بنایا ہوا ہے۔ آبادی میں تیز رفتار اضافے کی شرح چونکہ ترقی پذیر ملکوں میں زیادہ رہی ہے، اس لیے ترقی پذیر ممالک سے آبادی کنٹرول کرنے کی یقین دہانیاں لی جاتی ہیں اور قرض و ترقیاتی فنڈز کےلیے تخفیف آبادی کے اہداف کو بطور شرط منوایا جاتا ہے۔ اس لیے آج ماہرین کہہ رہے ہیں کہ ہمارے بڑھتے ہوئے مسائل کی بڑی وجہ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے۔ اگر آج اس مسئلے پر قابو نہ پایا گیا تو یہ ایک سنگین صورت اختیار کرجائے گا۔
آج ہر کوئی مہنگائی کی بات کرتا ہے، لیکن یہ نہیں سوچتا کہ اس سے کس طرح نکلا جاسکتا ہے۔ اگر بچوں کی اچھی پرورش نہیں کرسکتے تو اتنے بچے پیدا کیوں کرتے ہیں؟ آج دیکھیں تو سگنلز پر بچے بھیک مانگتے نظر آرہے ہوتے ہیں۔ گھروں میں، ورکشاپوں پر بچے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ کوڑا چنتے، جوتے پالش کرتے، پھول بیچتے یہاں تک کے گاڑیوں کی سروس کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے، لیکن یہ حقیقت ہے جسے ہم چاہ کر بھی جھٹلا نہیں سکتے۔ اگر اتنے ہی اعلیٰ خاندان کے ہیں، کاروبار اچھا چل رہا ہو تو سمجھ آتا ہے کہ بچے ہیں اچھی پرورش کر سکتے ہیں۔ لیکن بھیک مانگ کر لوگوں کے گھروں میں کام کرکے گزارا کرنے والوں کے اتنے بچے؟ یہ سب کےلیے ایک سوالیہ نشان ہے۔ اور اس کا جواب ہر باشعور انسان کو جاننے کا حق ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔