قسم کھانے والے لوگ

حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھائی، گویا اس نے کفر و شرک کیا۔‘‘

حضور اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھائی، گویا اس نے کفر و شرک کیا۔‘‘ فوٹو : فائل

قرآن کریم (سورہ المائدہ) و احادیث شریفہ کی روشنی میں قسم کھانے سے متعلق چند ضروری و اہم مسائل پیش خدمت ہیں:

اﷲ تعالیٰ کے نام یا اس کی صفات کے علاوہ کسی بھی چیز کی قسم کھانا جائز نہیں ہے، مثلاً تیری قسم یا تیرے سر کی قسم۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:

''جو شخص قسم کھانا ہی چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ صرف اﷲ تعالیٰ کے نام ہی کی قسم کھائے، ورنہ چپ رہے۔'' (بخاری و مسلم)

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جس شخص نے اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھائی، گویا اس نے کفر و شرک کیا۔'' (ترمذی، ابوداود)

لہذا ہمیں حتی الامکان قسم کھانے سے بچنا چاہیے، اگر ہمیں قسم کھانی ہی پڑے تو صرف اﷲ تعالیٰ کی قسم کھائیں۔

آئندہ زمانے میں کسی جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھانے کو یمین منعقدہ کہا جاتا ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس کے توڑنے کی صورت میں کفارہ واجب ہوتا ہے۔ مثلاً کسی شخص نے قسم کھائی کہ میں فلاں کام نہیں کروں گا، پھر وہ کام کرلے تو اس پر قسم کا کفارہ واجب ہے۔

قسم کا کفارہ یہ ہے: دس مسکینوں کو متوسط درجہ کا کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو بہ قدر ستر پوشی کپڑا دینا یا ایک غلام آزاد کرانا۔ اگر ان مذکورہ تین کفاروں میں سے کسی ایک کے ادا کرنے پر قدرت نہ ہو تو قسم توڑنے والے کو تین دن کے مسلسل روزہ رکھنے ہوں گے۔

ہاں! اگر کسی شخص نے ناجائز امر مثلاً نماز نہ پڑھنے کی قسم کھائی تو اس کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، لہذا اس کو نماز پڑھنی ہی ہوگی البتہ کوئی کفارہ اس کے ذمہ نہیں ہوگا۔ کسی گزشتہ واقعہ کو اپنے نزدیک سچا سمجھ کر قسم کھائے اور حقیقت میں وہ غلط ہو، مثلاً کسی کے ذریعہ سے یہ معلوم ہوا کہ فلاں شخص آگیا ہے۔

اس پر اعتماد کرکے اس نے قسم کھالی، پھر معلوم ہوا کہ وہ نہیں آیا ہے۔ اسی طرح بلا قصد زبان سے قسم کے الفاظ نکل جائیں جیسے قسم خدا کی۔ اس طرح کی قسم کھانے کو یمین لغو کہا جاتا ہے۔ ایسی قسم کھانا بڑا گناہ تو نہیں ہے، البتہ آداب گفت گو کے خلاف ہے لہذا اس طرح کی قسم کھانے سے بھی حتی الامکان بچنا چاہیے۔

جھوٹی قسم کھانا بہت بڑا گناہ ہے:

حضور اکرم ﷺ نے شرک، والدین کی نافرمانی اور کسی کا ناحق قتل کرنے کی طرح جھوٹی قسم کھانے کو بھی بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے۔

(صحیح بخاری) مثلاً کسی شخص نے کوئی کام کرلیا ہے اور وہ جانتا ہے کہ میں نے یہ کام کیا ہے، اور پھر جان بوجھ کر قسم کھالے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا۔


اس طرح کی جھوٹی قسم کھانا بہت بڑا گناہ ہے اور دنیا و آخرت میں وبال کا سبب ہے۔ ایسے شخص کے لیے اﷲ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرنا لازم ہے۔ اگر یہ جھوٹی قسم قرآن کریم پر ہاتھ رکھ کر کھائی جائے تو اس کا گناہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔

جھوٹی قسم انسان کو گناہ اور وبال میں غرق کردینے والی ہے اس لیے اس قسم کو یمین غموس کہا جاتا ہے۔ یمین کے معنی قسم اور غموس کے معنی ڈبو دینے والے کے ہیں، یعنی وہ قسم جو انسان کو ہلاک کرنے والی ہے۔

جمہور علماء کے نزدیک جھوٹی قسم کھانے پر کوئی کفارہ تو نہیں ہے، لیکن گناہ کبیرہ ہونے کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ سے معافی اور توبہ و استغفار ضروری ہے۔ البتہ حضرت امام شافعی ؒ نے فرمایا ہے کہ جھوٹی قسم پر توبہ و استغفار کے ساتھ کفارہ بھی لازم ہے۔

اگر کسی شخص نے جھوٹی قسم کھالی، پھر وہ اﷲ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرتا ہے اور اﷲ کے سامنے اپنے کیے ہوئے گناہ پر نادم بھی ہے اور آئندہ نہ کرنے کا عزم بھی کرتا ہے تو اس کی آخرت میں کوئی پکڑ نہیں ہوگی ان شاء اﷲ۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ اگر بندہ سچے دل سے توبہ کرے تو اﷲ تعالیٰ دنیا میں بڑے بڑے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے یہاں تک کہ شرک جو سب سے بڑا گناہ ہے وہ بھی شرک سے کامل اجتناب کرنے، اس پر شرمندہ ہونے اور دنیا میں نادم ہوکر معافی مانگنے پر معاف کردیا جاتا ہے۔

سورۃ الزمر میں فرمان الٰہی ہے، مفہوم: ''کہہ دو کہ ا ے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کررکھی ہے (یعنی گناہ کر رکھے ہیں) اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ یقین جانو اﷲ سارے کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔ یقیناً وہ بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔''

اسی طرح سورۃ النساء میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، مفہوم: ''بے شک! اﷲ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کم تر ہر بات کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے۔''

آخرت میں اﷲ تعالیٰ گناہوں کو معاف کرے گا یا نہیں، یہ ہمیں معلوم نہیں، لہٰذا ہمیں دنیا میں رہ کر تمام گناہوں سے بچنا چاہیے کہ نامعلوم کون سا گناہ ہمیں جہنم میں لے جانے کا سبب بن جائے۔

جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھانا یقیناً گناہ کبیرہ ہے، لیکن اگر کوئی شخص صرف اور صرف دو فریق کو جھگڑوں سے محفوظ رکھنے کے لیے جھوٹی قسم کھاتا ہے اور پھر اﷲ سے معافی بھی مانگتا ہے تو اس کی آخرت میں پکڑ نہیں ہوگی، ان شاء اﷲ۔

خلاصۂ کلام:

ہمیں حتی الامکان قسم کھانے سے بچنا چاہیے، اگر ہمیں قسم کھانی ہی پڑے تو صرف اﷲ تعالیٰ کے نام کی قسم کھائیں۔ اﷲ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھانا جائز نہیں ہے۔ جھوٹی قسم کھانا بہت بڑا گناہ ہے، حضور اکرم ﷺ نے چار بڑے گناہوں میں شمار کیا ہے۔

آئندہ زمانے میں کسی جائز کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم کھانے کے توڑنے کی صورت میں کفارہ واجب ہوتا ہے، یعنی دس مسکینوں کو متوسط درجہ کا کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو بہ قدر ستر پوشی کپڑا دینا یا ایک غلام آزاد کرانا۔ اگر ان مذکورہ تین کفاروں میں سے کسی ایک کے ادا کرنے پر قدرت نہ ہو تو قسم توڑنے والے کو تین دن کے مسلسل روزہ رکھنے ہوں گے۔
Load Next Story