ماحولیاتی مسائل کا حل تلاش کیا جائے

اسموگ اور فضائی آلودگی شہریوں کی صحت کے لیے دوسرا سب سے بڑا خطرہ ہے

اسموگ اور فضائی آلودگی شہریوں کی صحت کے لیے دوسرا سب سے بڑا خطرہ ہے (فوٹو: فائل)

میڈیا رپورٹس کے مطابق اسموگ کے تدارک سے متعلق ٹھوس اقدامات اور ماحولیاتی پالیسی پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے پنجاب میں بسنے والے شہریوں کی اوسط عمر کم از کم سات برس کم ہوسکتی ہے۔

اسموگ اور فضائی آلودگی شہریوں کی صحت کے لیے دوسرا سب سے بڑا خطرہ ہے۔ لاہور سمیت مختلف شہروں میں ایئر کوالٹی انڈکس 400 کی حد بھی عبورکر گیا۔ اسموگ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے، جن میں پھیپھڑوں کی خرابی اور کینسر قابل ذکر ہیں۔

اسموگ کا بڑھتا ہوا رجحان انتہائی خطرناک صورت اختیار کرچکا ہے، لاہور، قصور، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، فیصل آباد، گجرانوالہ، راولپنڈی، ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ میں پارٹیکیولیٹ میٹر کے ساتھ ساتھ مہلک گیسیں جیسے نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اورکاربن مونو آکسائیڈ کی شرح بھی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔

لاہور جو دنیا میں کبھی '' باغوں کا شہر'' کہلاتا تھا، جس کی آب و ہوا مثالی تھی، اس وقت فضائی آلودگی میں وہ دنیا میں پہلے نمبر پر آچکا ہے۔

تحقیق سے ظاہر ہے کہ پاکستان میں فضائی آلودگی کا ذریعہ بننے والی وجوہات مقامی ہیں، جن میں انتہائی خراب معیار کا ایندھن استعمال کرنے والے گاڑیوں کی آلودگی، صنعتی آلودگی، میونسپل اور صنعتی اور اسپتالوں کے فضلے کو جلایا جانا اور اینٹوں کے بھٹے جو ربڑ کے ٹائر جیسے خراب ایندھن کا استعمال کرتے ہیں یہ سب ذرائع شامل ہیں۔ دوسری جانب فصلوں کی باقیات جلنے اور ہوا کی سمت کی بنیاد پر صورتحال اس وقت مزید خراب ہوگئی ہے اور سرحد پار بھارت کی جانب سے آلودگی بھی پاکستان کو متاثر کررہی ہے۔

فضا کے تیزی سے خراب ہوتے معیار میں بہتری کے لیے بہت سے قومی اور صوبائی قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا، درحقیقت ہمارے پاس فضائی آلودگی کی سطح کی بروقت نگرانی کے لیے آلات مطلوبہ مقدار میں موجود نہیں ہیں۔ فضائی آلودگی کا سب سے زیادہ اخراج ٹرانسپورٹ سیکٹر سے ہوتا ہے اور تمام سیکٹرز میں سب سے زیادہ 45 فیصد آلودگی ٹرانسپورٹ سے پیدا ہوتی ہے۔

انڈسٹری سے 25 فیصد جب کہ زراعت سے 20 فیصد آلودگی پیدا ہوتی ہے، مجموعی طور پر فضائی آلودگی پیدا کرنے والے بڑے سیکٹرز میں پاور، انڈسٹری اور ٹرانسپورٹ شامل ہیں جو آلودگی اور اس کے اخراج میں 80 فیصد کردار ادا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں پنجاب میں فوٹو کیمیکل اسموگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق فضائی آلودگی صحت کے لیے سگریٹ یا شراب نوشی سے زیادہ خطرناک ہے۔

پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت فضائی آلودگی سے شدید متاثر ممالک میں شامل ہیں اور ان ممالک میں اوسط عمر میں بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے انرجی اینڈ پالیسی کے ادارے کی جانب سے شائع کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف طریقوں سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔

آلودہ فضاء انسانی جسم کو تو متاثر کرتی ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسری بیماریوں سے لڑنے کی قوت کو بھی متاثر کرتی ہے۔

ایئر کوالٹی انڈیکس رپورٹ کے مطابق آلودگی کے کئی ذرائع ہیں، جیسے کارخانوں اور گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں اس کے علاوہ جنگلاتی آگ بھی انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے۔ پاکستان میں بڑی تعداد میں استعمال ہونے والا پٹرول معیار کے حساب سے بالکل بھی ماحول دوست نہیں ہے، یورو فائیو تو پاکستان نے متعارف کروا دیا ہے مگر یہ کچھ شہروں کے کچھ اسٹیشنز پر ہی دستیاب ہے۔

پانی کی آلودگی سے مراد پسندیدہ اشیا کی بڑی مقدار جیسے ٹھوس اشیا کے ذرات، حل شدہ نمکیات، صنعتی نا کارہ اشیا، گرد و غبار اور حیاتیاتی اشیا کا پانی میں پایا جانا ہے۔ یعنی پانی کی طبعی، کیمیائی یا حیاتیاتی خواص میں وہ تبدیلی جس کا استعمال نقصان دہ ہو آبی آلودگی کہلاتا ہے۔

آبی آلودگی کی اہم وجوہات میں پٹرول اور اس سے متعلقہ اشیا، یعنی تیل کے چشمے، صنعتی اور ان سے پیدا ہونے والا فضلہ، بجلی کے پلانٹ، زیر زمین معدنیات، انسانی فضلہ لے جانے والی نالیاں، زراعت میں استعمال ہونے والی کیڑے مار دوائیں، صابن و ڈٹرجنٹ اور انسانوں کا استعمال شدہ پانی ہیں۔

اسلام آباد میں گزشتہ 10 سالوں میں بے پناہ ترقی ہوئی ہے۔ گھنے جنگلات کی جگہ اب سڑکوں کے جال نظر آتے ہیں۔ شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک پھیلی ہاؤسنگ سوسائٹیز شہر کا سبزہ کھا گئی ہیں۔ روزانہ خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور گلیات جانے والی ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں اسلام آباد شہر کے قریب سے گزرتی ہیں جو شہر کی فضا کو آلودہ کررہی ہیں۔

جنگلات فضا کو صاف رکھنے میں ایک فلٹر کا کام کرتے ہیں۔ درخت فضا میں موجود پارٹیکولیٹ مَیٹر اور زہریلی گیسوں کو جذب کرکے فضائی آلودگی کو کم رکھتے ہیں۔ پورے ملک میں کوئی ایسی رپورٹ یا تحقیق موجود نہیں جس سے معلوم ہوسکے کہ گزشتہ 10 برسوں میں کتنے درخت کاٹے گئے۔


ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا فارسٹ کور 5.4 فیصد ہے جس میں گزشتہ 70 سالوں میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ یہ حیران کن اور ناقابل یقین بات ہے ، کیونکہ گزشتہ 30 یا 40 سالوں میں جنگلات میں آتشزدگی کے کئی بڑے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔

اب یہ تو ممکن نہیں کہ ان درختوں کی جگہ نئے درخت لگ گئے ہوں کیونکہ پاکستانی جنگلات دیار، کائیل، صنوبر، فر، سپروس، چیڑ پائن اور چلغوزی پائن پر مشتمل ہیں جن کے ایک پودے کو درخت بننے میں کئی کئی سال اور بعض درختوں کو تو سیکڑوں سال تک لگ جاتے ہیں۔ دوسری جانب بے تحاشا آبادی کی وجہ سے لوگ بطور ایندھن اور معاش کے لیے درخت کاٹتے ہیں جسے روکنا ناممکن ہے۔

لاہور میں سیکڑوں اسٹیل ری رولنگ ملز ہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنا تیزابی مادہ اس شہر کی فضاؤں کو مسموم کر رہا ہے۔ گاڑیوں کا دھواں بھی مسموم فضا پیدا کرنے میں بڑی حد تک معاون ہوتا ہے۔ اس کے معنی یہ نہیں کہ ان اسٹیل ری رولنگ ملوں یا کوئلے کے بجلی گھروں کو بند کردیا جائے۔ سائنس میں ان کے مسائل کا حل بھی ہے۔

150 میگاواٹ کا لاکھڑا کول پاور پلانٹ 1995 میں جاپان کے اشتراک سے بنایا گیا تھا۔ لاکھڑا کا کوئلہ سلفر کی بہت زیادہ مقدار رکھنے کی وجہ سے انتہائی مضر تھا لیکن لاکھڑا پاور پلانٹ میں جاپانیوں نے چونے کا بہترین استعمال کیا جس کی وجہ سے لاکھڑا کول پاور پلانٹ سے کسی قسم کی آلودگی پیدا نہیں ہو رہی تھی۔

اسی طرح اسٹیل ری رولنگ ملوں کی چمنی پر فلٹر لگا کر اور ان میں چونے کے پانی کا مسلسل اسپرے کا بندوبست کرکے انوائرمنٹ فرینڈلی بنایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں بنائے گئے کوئلہ کے بجلی گھروں کو بھی انھی اصولوں پر سہولت فراہم کرکے ماحولیات کو کسی بھی خدشہ سے پاک کیا جاسکتا ہے۔ اسٹیل ری رولنگ صنعتوں میں چمنیوں میں چونے کے پانی کے علاوہ فلٹرز کا استعمال بھی کیا جائے تو اس صنعت سے ماحولیات کو کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔

اسی طرح اینٹوں کے بھٹوں میں زگ زیگ تیکنیک استعمال کی جائے تو ان بھٹوں کی استعداد میں 30% اضافہ ہو سکتا ہے جس سے ایندھن کے استعمال میں کمی آئیگی بلکہ ان بھٹوں کی چمنیوں سے خارج ہونے والے دھویں میں بھی 70% کمی آ سکتی ہے۔

ٹرانسپورٹ میں استعمال ہونے والے ڈیزل اور پٹرول کو عالمی معیار پر بہتر بنا کر گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھویں کے مضر اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

اس مقصد کے لیے اولاً پبلک ٹرانسپورٹ کو معیاری بنا کر فرینڈلی فیول پر تبدیل کرکے خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ موٹر گاڑیوں اور دیگر وہیکلز کے انجنوں کو ہائی برڈ ٹیکنالوجی کے اصولوں پر بنا کر 50% بہتری لائی جا سکتی ہے۔

صرف لاہور میں دو مرتبہ 200 سے زائد مقامات پر ٹریفک کے اژدہام سے بچا جا سکتا ہے جس سے نہ صرف بڑی مقدار میں فیول کی بچت ہوگی بلکہ ماحولیات کے لیے بھی اچھا شگون ہوگا۔ فصلوں کی باقیات جلانے سے ماحولیاتی آلودگی پر انتہائی منفی اثرات پڑتے ہیں۔

اگر چاول اور گندم کی فصل کو کاٹنے کے جدید ہارویسٹر استعمال کیے جائیں تو اس کے اخراجات تو زیادہ آتے ہیں لیکن پرالی بچ جاتی ہے جسے فروخت کرکے ہارویسٹر کا کرایہ بآسانی ادا کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے محکمہ زراعت کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ فصلوں کی باقیات جلانے، صنعتوں اور گاڑیوں کے دھواں اور کوڑا کرکٹ جلانے سے ہوا میں سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ شامل ہو جاتی ہیں۔

پلاسٹک بیگز پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔ جنگلات کو کاٹنے اور جلانے پر سخت سزا ملنی چاہیے۔

سڑکوں کے کنارے اور شاملات میں پھل دار درخت لگائے جائیں۔ فیکٹریوں سے خارج ہونے والے زہریلے دھویں کے لیے فلٹرز کا استعمال، شادی بیاہ اور تقریبات میں آتش بازی پر پابندی، ناقابل استعمال ٹائروں کو محکمہ ماحولیات اپنی تحویل میں لے کر تلف کرے، کیمیکل سے بنی ہوئی اشیاء کا کم استعمال، سڑکوں بالخصوص چوراہوں پر انڈرپاس اور فلائی اورز کے ذریعے ٹریفک کی مسلسل روانی، سڑکوں اور گلیوں میں صفائی کا معیاری بندوبست، مکانوں بلڈنگوں اور دیگر تعمیرات کے دوران ماحولیات کی بہتری کے لیے ضابطہ، سرکاری سمیت نجی عمارات میں پودے اور گملے لگاکر ہم ماحول کو ایک مرتبہ پھر پاکستان میں تبدیل کر سکتے ہیں۔

ان تمام کاموں کے لیے کسی اٹامک سائنس کی ضرورت نہیں، صرف نیک نیتی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story