آرمی چیف کا دورہ امریکا
آرمی چیف نے غزہ کی حالتِ زار کی طرف بھی توجہ مبذول کراتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا
پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر کو پاک آرمی کی باگ ڈور سنبھالے ایک سال ہو گیا ہے۔اس دوران انھوں نے ادارے پر اپنی گرفت مضبوط کی ہے اور فوج کی پیشہ ورانہ صلاحیت بڑھانے کی طرف توجہ دی ہے۔
جب جنرل عاصم منیر نے فوج کی کمان سنبھالی تو ملک میں معاشی بدحالی زوروں پر تھی۔ہر کوئی پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر ڈیفالٹ کی بات کر رہا تھا۔اس کالم میں اس وقت بھی یہ عندیہ دیا تھا کہ پاکستان انشاء اﷲ ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔
پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار بھی لٹک رہی تھی۔جنرل عاصم منیر نے حکومتِ وقت کے شانہ بشانہ انتہائی محنت،جذبے اور لگن سے دن رات کام کرتے ہوئے ملک کو خوفناک خطرات سے نکالا اور آج صورت حال بہت بہتر لگ رہی ہے۔
پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ اس وقت دنیا کی Best Performing مارکیٹس میں سے ایک ہے۔یہ یونہی خود بخود نہیں ہو گیا، ملک کی معاشی مشکلات کو کم کرنے کے لیے جہاں ہماری حکومت نے بہت تگ و دو کی وہیں آرمی چیف نے بہت محنت کرتے ہوئے اس کوشش کو Lead کیا۔
وہ اس سلسلے میں چین کی مدد حاصل کرنے کے لیے چین گئے اور چینی قیادت کو یقین دلایا کہ پاکستان وہ سارے اقدامات اُٹھائے گا جن سے پاکستانی معیشت میں بہتری آئے۔وہ اس ایک سال میں سعودی عرب گئے اور سعودی قیادت کو پاکستان کی مدد کرنے پر راضی کیا۔
وہ کم و بیش تین مرتبہ متحدہ عرب امارات کے دورے پر گئے اور پاکستان کے لیے سرمایہ کاری کو یقینی بنایا۔وہ اپنی کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے دوسرے ممالک بھی گئے اور اب ایک سال کے وسیع تجربے اور جان کاری کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے پہلے دورے پر امریکا گئے ہیں۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا امریکا کا یہ دورہ بہت مفصل تھا۔اس دورے میں انھوں نے امریکی افواج کی قیادت کے ساتھ ساتھ امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے داروں سے بھی ملاقاتیں کیں۔امریکا ابھی تک ایک بہت بڑی فوجی قوت رکھنے والا ملک ہے۔
معیشت کے پہلو سے امریکا دنیا کی پہلی دو معیشتوں میں سے ایک ہے۔امریکی قیادت بظاہر اس بات میں دلچسپی رکھتی ہے کہ دنیا کے ممالک میں مکمل جمہوریت ہو لیکن یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ یہ مغرب اور خاص کر امریکا کا صرف ایک نعرہ ہے۔
امریکا پاکستان میں مقتدر قوت کے ساتھ ہر وقت مختلف ذرائع سے رابطے میں رہتا ہے اور جمہوریت میں بہت دلچسپی نہیں رکھتا۔پاکستان میں جمہوریت صحیح طور پر کبھی پنپ نہیں سکی۔آئے روز کے مارشل لاؤں نے جمہوریت کے پودے کی آبیاری ہونے ہی نہیں دی ۔
آرمی چیف کا یہ دورہ اس حوالے سے اہم ہے کہ اس دورے کی بدولت وہ امریکی انتظامیہ سے متعارف ہوئے۔ اس دورے میں امریکی انتظامیہ انھیں اور ان کے پروگراموں کو جاننے کے قابل ہوئی۔دوسری طرف آرمی چیف کو بھی امریکی قیادت کے خیالات جاننے کا براہِ راست موقع ملا۔
یہ اہم دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب امریکا کے لیے پاکستان بہت اہمیت کا حامل ملک نہیں رہا۔کابل سے اگست 2021میں امریکی انخلا کے بعد پاکستان کی وہ اہمیت نہیں رہی جو اس سے پہلے کئی دہائیوں پر مشتمل عرصے میں رہی۔اب امریکا پاکستان سے کوئیStrategic تعلقات کا طالب نہیں۔افغانستان میں اس کی دلچسپی اسلامک اسٹیٹ آف خراسان تک محدود ہو گئی ہے،جب کہ پاکستان ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی اور افغان سرزمین کو استعمال کر کے پاکستان کے اندر دہشت گردی سے بہت پریشان ہے۔
یوںپاکستان اور امریکا کے مقاصد میل نہیں کھاتے۔ادھر امریکا نے جنوبی ایشیا میں اپنے اسٹریٹیجک پارٹنر ملک کا انتخاب کر لیا ہے۔امریکا نے اس گہرے تعلق کے لیے بھارت کو چنا ہے۔ پاکستان کے ساتھ امریکا اپنے تعلقاتTransactionalبنیادوں پر رکھنا چاہتا ہے۔پاکستان کی اس کم ہوتی اہمیت میں آرمی چیف کا دورہ ایک مشکل دورہ تھا۔
امریکا کو پتہ ہے کہ وہ جب اور جہاں چاہے گا پاکستان کو آواز دے گا اور پاکستان نے کبھی امریکا کو مایوس نہیں کیا۔یہ بات بھی سمجھنی ضروری ہے کہ امریکا کی دوستی اتنی ضروری نہیں جتنا فائدہ امریکی دشمنی سے بچنے میں ہے۔پاکستان کی معیشت بہت کمزور ہے اور امریکی ناراضگی سے اسے بہت نقصان ہو سکتا ہے۔
امریکا کے دورے کے دوران پاکستان کی فوجی ضروریات پر بھی بات ہوئی لیکن اس معاملے میں زیادہ توقع وابستہ کرنا نہیں چاہیے۔ ہاں امریکا پاکستانی افواج کے افسران اور اہلکاروں کی امریکا میں تربیتی پروگراموں میں شمولیت ضرور چاہے گا ۔ پاکستان اپنی خراب معیشت کو بہتری کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔آئی ایم ایف پروگرام جاری رہنا بہت مدد دے سکتا ہے۔
آرمی چیف کے دورے کے دوران ان موضوعات پر بات ہوئی۔آئی ایم ایف امریکا کی مُٹھی میں ہے۔تمام عالمی مالیاتی ادارے بھی اس کے زیر اثر ہیں،اس لیے پاکستان امریکی مدد سے عالمی مالیاتی اداروں کی حمایت سے مستفید ہو سکتا ہے۔یہ بات البتہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکا اب ہمیں پہلے کی طرح معاشی اور فوجی امداد نہیں دے گا۔
امریکا دو وجوہ سے اس خطے میں پاکستان کو اپنے مقاصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔امریکا نے فیصلہ کر لیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں بھارت اس کا سب سے اہم پارٹنر ملک ہو گا۔اس انتخاب کی وجہ سے امریکا خطے کے تمام ممالک کو بھارتی عینک سے دیکھتا ہے۔چونکہ بھارت پاکستان کو اپنے رستے میں حائل دیکھتا ہے اس لیے امریکا بھی ایسا ہی سمجھتا ہے۔
امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان بھارت کی بالادستی تسلیم کر کے بھارت کی ایک اسیٹیلائٹ اسٹیٹ بن جائے۔ پاکستان یہ کردار ادا کرنے کو تیار نہیں اس لیے امریکا پاکستان سے خوش نہیں۔امریکا یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان سی پیک کو آگے نہ بڑھائے اور چین سے قربت کو کم کرے۔پاکستان اس کے لیے بھی تیار نہیں،اس لیے امریکا اپنی China containmentپالیسی کے سامنے پاکستان کو رکاوٹ سمجھتا ہے۔
آرمی چیف کو اپنے دورے کے دوران ان ایشوز کا سامنا رہا لیکن ان کو اس دورے کے دوران امریکی سوچ کو سمجھنے میں مدد ملی۔امریکا یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان سے مکمل طورپر کنارہ کش ہو جائے۔اس صورت میں امریکا کو خدشہ ہے کہ پاکستان کلی طور پر چینی بلاک کا حصہ بن جائے گا۔
امریکا پاکستان سے سلسلۂ رفاقت رکھ کر بھارت پر بھی ایک دباؤ رکھنا چاہے گا۔بھارت روس روابط بھی امریکا کو مجبور کرتے ہیں کہ پاکستان کو انگیج رکھا جائے۔ان دو وجوہات کی وجہ سے امریکا پاکستان سے تعلق بنائے رکھنے میں دلچسپی کا خواہاں ہے اور یہیں پاکستان کے لیے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور پاکستان کی جگہ بنتی ہے۔
پاکستان آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اس دورے کے دوران اقوامِ متحدہ کے نیویارک ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور سیکریٹری جنرل سے ملاقات کی۔ سیکریٹری جنرل نے انھیں خوش آمدید کہتے ہوئے دورے کو سراہا۔آرمی چیف نے سیکریٹری جنرل کو کشمیر کے مسئلے پر بریف کیا اور اس بات پر زور دیا کہ مسئلے کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔
آرمی چیف نے غزہ کی حالتِ زار کی طرف بھی توجہ مبذول کراتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا۔ آرمی چیف نے امریکی وزرائے خارجہ اور دفاع سے بھی ملاقات کی اور پاکستان کے مفادات پر بات کی۔آرمی چیف نے نیشنل سیکیورٹی ڈپٹی ایڈوائزر اور تھنک ٹینکس سے بھی ملاقاتیں کیں۔
امید ہے ان تمام ملاقاتوں کے مثبت نتائج جلد سامنے آئیں گے۔آرمی چیف نے پاکستانیوں سے بھی کئی ملاقاتیں کیں۔ان ملاقاتوں میں دونوں اطراف سے مفید تبادلۂ خیالات ہوا۔ یہ ہر حال میں ایک اہم دورہ ہے۔خدا کرے یہ دورہ پاکستان کے لیے اچھی نوید لے کر آئے۔
جب جنرل عاصم منیر نے فوج کی کمان سنبھالی تو ملک میں معاشی بدحالی زوروں پر تھی۔ہر کوئی پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر ڈیفالٹ کی بات کر رہا تھا۔اس کالم میں اس وقت بھی یہ عندیہ دیا تھا کہ پاکستان انشاء اﷲ ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔
پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار بھی لٹک رہی تھی۔جنرل عاصم منیر نے حکومتِ وقت کے شانہ بشانہ انتہائی محنت،جذبے اور لگن سے دن رات کام کرتے ہوئے ملک کو خوفناک خطرات سے نکالا اور آج صورت حال بہت بہتر لگ رہی ہے۔
پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ اس وقت دنیا کی Best Performing مارکیٹس میں سے ایک ہے۔یہ یونہی خود بخود نہیں ہو گیا، ملک کی معاشی مشکلات کو کم کرنے کے لیے جہاں ہماری حکومت نے بہت تگ و دو کی وہیں آرمی چیف نے بہت محنت کرتے ہوئے اس کوشش کو Lead کیا۔
وہ اس سلسلے میں چین کی مدد حاصل کرنے کے لیے چین گئے اور چینی قیادت کو یقین دلایا کہ پاکستان وہ سارے اقدامات اُٹھائے گا جن سے پاکستانی معیشت میں بہتری آئے۔وہ اس ایک سال میں سعودی عرب گئے اور سعودی قیادت کو پاکستان کی مدد کرنے پر راضی کیا۔
وہ کم و بیش تین مرتبہ متحدہ عرب امارات کے دورے پر گئے اور پاکستان کے لیے سرمایہ کاری کو یقینی بنایا۔وہ اپنی کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے دوسرے ممالک بھی گئے اور اب ایک سال کے وسیع تجربے اور جان کاری کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے پہلے دورے پر امریکا گئے ہیں۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا امریکا کا یہ دورہ بہت مفصل تھا۔اس دورے میں انھوں نے امریکی افواج کی قیادت کے ساتھ ساتھ امریکی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے داروں سے بھی ملاقاتیں کیں۔امریکا ابھی تک ایک بہت بڑی فوجی قوت رکھنے والا ملک ہے۔
معیشت کے پہلو سے امریکا دنیا کی پہلی دو معیشتوں میں سے ایک ہے۔امریکی قیادت بظاہر اس بات میں دلچسپی رکھتی ہے کہ دنیا کے ممالک میں مکمل جمہوریت ہو لیکن یہ بات بھی سب پر عیاں ہے کہ یہ مغرب اور خاص کر امریکا کا صرف ایک نعرہ ہے۔
امریکا پاکستان میں مقتدر قوت کے ساتھ ہر وقت مختلف ذرائع سے رابطے میں رہتا ہے اور جمہوریت میں بہت دلچسپی نہیں رکھتا۔پاکستان میں جمہوریت صحیح طور پر کبھی پنپ نہیں سکی۔آئے روز کے مارشل لاؤں نے جمہوریت کے پودے کی آبیاری ہونے ہی نہیں دی ۔
آرمی چیف کا یہ دورہ اس حوالے سے اہم ہے کہ اس دورے کی بدولت وہ امریکی انتظامیہ سے متعارف ہوئے۔ اس دورے میں امریکی انتظامیہ انھیں اور ان کے پروگراموں کو جاننے کے قابل ہوئی۔دوسری طرف آرمی چیف کو بھی امریکی قیادت کے خیالات جاننے کا براہِ راست موقع ملا۔
یہ اہم دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب امریکا کے لیے پاکستان بہت اہمیت کا حامل ملک نہیں رہا۔کابل سے اگست 2021میں امریکی انخلا کے بعد پاکستان کی وہ اہمیت نہیں رہی جو اس سے پہلے کئی دہائیوں پر مشتمل عرصے میں رہی۔اب امریکا پاکستان سے کوئیStrategic تعلقات کا طالب نہیں۔افغانستان میں اس کی دلچسپی اسلامک اسٹیٹ آف خراسان تک محدود ہو گئی ہے،جب کہ پاکستان ٹی ٹی پی کی افغانستان میں موجودگی اور افغان سرزمین کو استعمال کر کے پاکستان کے اندر دہشت گردی سے بہت پریشان ہے۔
یوںپاکستان اور امریکا کے مقاصد میل نہیں کھاتے۔ادھر امریکا نے جنوبی ایشیا میں اپنے اسٹریٹیجک پارٹنر ملک کا انتخاب کر لیا ہے۔امریکا نے اس گہرے تعلق کے لیے بھارت کو چنا ہے۔ پاکستان کے ساتھ امریکا اپنے تعلقاتTransactionalبنیادوں پر رکھنا چاہتا ہے۔پاکستان کی اس کم ہوتی اہمیت میں آرمی چیف کا دورہ ایک مشکل دورہ تھا۔
امریکا کو پتہ ہے کہ وہ جب اور جہاں چاہے گا پاکستان کو آواز دے گا اور پاکستان نے کبھی امریکا کو مایوس نہیں کیا۔یہ بات بھی سمجھنی ضروری ہے کہ امریکا کی دوستی اتنی ضروری نہیں جتنا فائدہ امریکی دشمنی سے بچنے میں ہے۔پاکستان کی معیشت بہت کمزور ہے اور امریکی ناراضگی سے اسے بہت نقصان ہو سکتا ہے۔
امریکا کے دورے کے دوران پاکستان کی فوجی ضروریات پر بھی بات ہوئی لیکن اس معاملے میں زیادہ توقع وابستہ کرنا نہیں چاہیے۔ ہاں امریکا پاکستانی افواج کے افسران اور اہلکاروں کی امریکا میں تربیتی پروگراموں میں شمولیت ضرور چاہے گا ۔ پاکستان اپنی خراب معیشت کو بہتری کی طرف لے جانا چاہتا ہے۔آئی ایم ایف پروگرام جاری رہنا بہت مدد دے سکتا ہے۔
آرمی چیف کے دورے کے دوران ان موضوعات پر بات ہوئی۔آئی ایم ایف امریکا کی مُٹھی میں ہے۔تمام عالمی مالیاتی ادارے بھی اس کے زیر اثر ہیں،اس لیے پاکستان امریکی مدد سے عالمی مالیاتی اداروں کی حمایت سے مستفید ہو سکتا ہے۔یہ بات البتہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکا اب ہمیں پہلے کی طرح معاشی اور فوجی امداد نہیں دے گا۔
امریکا دو وجوہ سے اس خطے میں پاکستان کو اپنے مقاصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے۔امریکا نے فیصلہ کر لیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں بھارت اس کا سب سے اہم پارٹنر ملک ہو گا۔اس انتخاب کی وجہ سے امریکا خطے کے تمام ممالک کو بھارتی عینک سے دیکھتا ہے۔چونکہ بھارت پاکستان کو اپنے رستے میں حائل دیکھتا ہے اس لیے امریکا بھی ایسا ہی سمجھتا ہے۔
امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان بھارت کی بالادستی تسلیم کر کے بھارت کی ایک اسیٹیلائٹ اسٹیٹ بن جائے۔ پاکستان یہ کردار ادا کرنے کو تیار نہیں اس لیے امریکا پاکستان سے خوش نہیں۔امریکا یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان سی پیک کو آگے نہ بڑھائے اور چین سے قربت کو کم کرے۔پاکستان اس کے لیے بھی تیار نہیں،اس لیے امریکا اپنی China containmentپالیسی کے سامنے پاکستان کو رکاوٹ سمجھتا ہے۔
آرمی چیف کو اپنے دورے کے دوران ان ایشوز کا سامنا رہا لیکن ان کو اس دورے کے دوران امریکی سوچ کو سمجھنے میں مدد ملی۔امریکا یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان سے مکمل طورپر کنارہ کش ہو جائے۔اس صورت میں امریکا کو خدشہ ہے کہ پاکستان کلی طور پر چینی بلاک کا حصہ بن جائے گا۔
امریکا پاکستان سے سلسلۂ رفاقت رکھ کر بھارت پر بھی ایک دباؤ رکھنا چاہے گا۔بھارت روس روابط بھی امریکا کو مجبور کرتے ہیں کہ پاکستان کو انگیج رکھا جائے۔ان دو وجوہات کی وجہ سے امریکا پاکستان سے تعلق بنائے رکھنے میں دلچسپی کا خواہاں ہے اور یہیں پاکستان کے لیے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور پاکستان کی جگہ بنتی ہے۔
پاکستان آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اس دورے کے دوران اقوامِ متحدہ کے نیویارک ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور سیکریٹری جنرل سے ملاقات کی۔ سیکریٹری جنرل نے انھیں خوش آمدید کہتے ہوئے دورے کو سراہا۔آرمی چیف نے سیکریٹری جنرل کو کشمیر کے مسئلے پر بریف کیا اور اس بات پر زور دیا کہ مسئلے کو اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔
آرمی چیف نے غزہ کی حالتِ زار کی طرف بھی توجہ مبذول کراتے ہوئے دو ریاستی حل پر زور دیا۔ آرمی چیف نے امریکی وزرائے خارجہ اور دفاع سے بھی ملاقات کی اور پاکستان کے مفادات پر بات کی۔آرمی چیف نے نیشنل سیکیورٹی ڈپٹی ایڈوائزر اور تھنک ٹینکس سے بھی ملاقاتیں کیں۔
امید ہے ان تمام ملاقاتوں کے مثبت نتائج جلد سامنے آئیں گے۔آرمی چیف نے پاکستانیوں سے بھی کئی ملاقاتیں کیں۔ان ملاقاتوں میں دونوں اطراف سے مفید تبادلۂ خیالات ہوا۔ یہ ہر حال میں ایک اہم دورہ ہے۔خدا کرے یہ دورہ پاکستان کے لیے اچھی نوید لے کر آئے۔