2003میں سعودی عرب نے 57ہزار بیمار بھیڑیں لینے سے انکارکیا
بحری جہاز 74روز تک بھیڑیں لے کر ایک بندرگاہ سے دوسری بندرگاہ تک سرگرداں رہا
KARACHI:
سعودی عرب کی جانب سے 2003میں مسترد کی جانے والی 57ہزار بھیڑوں کو بھی پاکستان لانے کے لیے بات چیت کی گئی تھی ۔
تاہم بھیڑوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے معاوضہ کی مطلوبہ رقم نہ ملنے کی وجہ سے یہ بھیڑیں افریقی ملک اریٹیریا میں ڈمپ کردی گئیں جس کے لیے آسٹریلیوی کمپنی نے اریٹیریا کو ایک ملین ڈالر نقد اور مویشیوں کی 3ہزار ٹن خوراک فراہم کی۔ دنیا بھر کو زندہ مویشی ایکسپورٹ کرنے والے ملک آسٹریلیا سے بیمار جانوروں کی ایکسپورٹ نیا معاملہ نہیں ہے 5اگست 2003کو بحری جہاز Cormo Express سعودی عرب کے لیے 57ہزار بھیڑیں لے کر جدہ روانہ ہوا 16روز کی مسافت طے کرنے کے بعد جہاز 22اگست کو جدہ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا تاہم سعودی قرنطینہ حکام کی جانچ پر بھیڑوں میں منہ کھر کی شدید بیماری ثابت ہوئی اور سعودی عرب نے بھیڑوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
بحری جہاز متاثرہ بھیڑیں لے کر اردن روانہ ہوگیا تاہم 24اگست کو اردن کی حکومت نے بھی بھیڑون کو قبول کرنے سے انکار کردیا، ستمبر کے پہلے ہفتے میں آسٹریلیوی حکام نے متحدہ عرب امارات کو بھیڑیں فروخت کرنے کی کوششیں کیں تاہم متحدہ عرب امارات نے بھی بھیڑیں خریدنے سے انکار کردیا اور بحری جہاز نے 11ستمبر کو متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ بھی جہاز کو آسٹریلیا سے روانہ ہوئے 5ہفتے سے زائد گزرجانے کے بعد بحری جہاز موافق موسم کی تلاش میں بحرہ عرب کے شمال میں سفر کرتا رہا اس دوران جہاز پر لدی 4ہزار بھیڑیں ہلاک ہوگئیں اس دوران آسٹریلیا نے پاکستان سے بھی بیماری بھیڑیں اتارنے کی بات چیت جاری رکھی۔
تاہم پاکستان نے بھیڑیں ٹھکانے لگانے کے لیے دی جانے والی آفر کم قرار دیتے ہوئے مسترد کردی اور بھیڑوں کے سفر کو 49روز گزرنے کے بعد 23ستمبر کو پاکستان نے بھی آسٹریلیا کو حتمی طور پر بھیڑیں نہ لینے کے فیصلے سے آگاہ کردیااس دوران آسٹریلیوی حکام نے 30ستمبر کو بھیڑیں آسٹریلیا واپس منگوانے کا اعلان کردیا اس دوران افغانستان اور عراق سے بھی بھیڑیں فروخت کرنے کی بات کی گئی تاہم دونوں ملکوں نے بھیڑوں کی خریداری سے صاف انکار کردیا اس دوران دنیا کے مختلف ملکوں اور خود آسٹریلیا میں شدید احتجاج کا سلسلہ جاری رہا، آسٹریلیوی لائیو اسٹاک انڈسٹری میں Cormo Expressکو موت کا جہاز پکارا جاتا ہے۔ سفر کے دوران ہلاک ہونے والی بھیڑوں کی درست تعداد اب تک معلوم نہ ہوسکی بتایا جاتا ہے کہ اس پورے سفر پر آسٹریلیا کی معیشت کو 10ملین ڈالر سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
سعودی عرب کی جانب سے 2003میں مسترد کی جانے والی 57ہزار بھیڑوں کو بھی پاکستان لانے کے لیے بات چیت کی گئی تھی ۔
تاہم بھیڑوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے معاوضہ کی مطلوبہ رقم نہ ملنے کی وجہ سے یہ بھیڑیں افریقی ملک اریٹیریا میں ڈمپ کردی گئیں جس کے لیے آسٹریلیوی کمپنی نے اریٹیریا کو ایک ملین ڈالر نقد اور مویشیوں کی 3ہزار ٹن خوراک فراہم کی۔ دنیا بھر کو زندہ مویشی ایکسپورٹ کرنے والے ملک آسٹریلیا سے بیمار جانوروں کی ایکسپورٹ نیا معاملہ نہیں ہے 5اگست 2003کو بحری جہاز Cormo Express سعودی عرب کے لیے 57ہزار بھیڑیں لے کر جدہ روانہ ہوا 16روز کی مسافت طے کرنے کے بعد جہاز 22اگست کو جدہ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا تاہم سعودی قرنطینہ حکام کی جانچ پر بھیڑوں میں منہ کھر کی شدید بیماری ثابت ہوئی اور سعودی عرب نے بھیڑوں کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔
بحری جہاز متاثرہ بھیڑیں لے کر اردن روانہ ہوگیا تاہم 24اگست کو اردن کی حکومت نے بھی بھیڑون کو قبول کرنے سے انکار کردیا، ستمبر کے پہلے ہفتے میں آسٹریلیوی حکام نے متحدہ عرب امارات کو بھیڑیں فروخت کرنے کی کوششیں کیں تاہم متحدہ عرب امارات نے بھی بھیڑیں خریدنے سے انکار کردیا اور بحری جہاز نے 11ستمبر کو متحدہ عرب امارات کی بندرگاہ بھی جہاز کو آسٹریلیا سے روانہ ہوئے 5ہفتے سے زائد گزرجانے کے بعد بحری جہاز موافق موسم کی تلاش میں بحرہ عرب کے شمال میں سفر کرتا رہا اس دوران جہاز پر لدی 4ہزار بھیڑیں ہلاک ہوگئیں اس دوران آسٹریلیا نے پاکستان سے بھی بیماری بھیڑیں اتارنے کی بات چیت جاری رکھی۔
تاہم پاکستان نے بھیڑیں ٹھکانے لگانے کے لیے دی جانے والی آفر کم قرار دیتے ہوئے مسترد کردی اور بھیڑوں کے سفر کو 49روز گزرنے کے بعد 23ستمبر کو پاکستان نے بھی آسٹریلیا کو حتمی طور پر بھیڑیں نہ لینے کے فیصلے سے آگاہ کردیااس دوران آسٹریلیوی حکام نے 30ستمبر کو بھیڑیں آسٹریلیا واپس منگوانے کا اعلان کردیا اس دوران افغانستان اور عراق سے بھی بھیڑیں فروخت کرنے کی بات کی گئی تاہم دونوں ملکوں نے بھیڑوں کی خریداری سے صاف انکار کردیا اس دوران دنیا کے مختلف ملکوں اور خود آسٹریلیا میں شدید احتجاج کا سلسلہ جاری رہا، آسٹریلیوی لائیو اسٹاک انڈسٹری میں Cormo Expressکو موت کا جہاز پکارا جاتا ہے۔ سفر کے دوران ہلاک ہونے والی بھیڑوں کی درست تعداد اب تک معلوم نہ ہوسکی بتایا جاتا ہے کہ اس پورے سفر پر آسٹریلیا کی معیشت کو 10ملین ڈالر سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔