بیمار آسٹریلوی بھیڑیں درآمد کرنے والوں کیخلاف مقدمہ درج 2ہزار بھیڑیں تلف کردی گئیں

جہاز آسٹریلیا سے 4اگست کو روانہ جبکہ ہیلتھ سرٹیفکیٹ یکم ستمبرکو جاری ہوا، کلیئرنس صرف پاکستان کیلیے حاصل کی گئی،رپورٹ


Staff Reporter September 19, 2012
آسٹریلیا سے درآمد کی جانے والی بھیڑیں جن میں مہلک بیماری کی تصدیق کردی گئی ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

مویشیوں اور انسانوں کے لیے خطرناک قرار دی جانے والی بیمار آسٹریلوی بھیڑوں کے درآمد کنندہ طارق محمود بٹ اور دیگر کے خلاف شاہ لطیف ٹائون تھانے میں مقدمہ الزام نمبر558/12 درج کرلیا گیا ہے۔

تاہم رات گئے تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی تھی جبکہ دوسری جانب بھیٹروں کو تلف کرنے کا کام بدستور جاری ہے اور اب تک 2 ہزار بھیڑوں کو ذبح کیا جاچکا ہے۔ ایکسپریس کو موصول ہونے والی لیبارٹری رپورٹ کے مطابق آسٹریلوی بھیڑوں میں 44فیصد Coli، 100 فیصد Salmonella اور 100 فیصد Actinomyces وائرس اور بیکٹریا پائے گئے ہیں۔ یہ رپورٹ سندھ پولٹری ویکسین سینٹر کراچی اور سینٹرل ویٹرینری ڈائیگنوسٹک ٹنڈوجام نے جاری کی ہے جنہوں نے تقریباً67 بھیڑوں کے نمونے حاصل کیے تھے۔ اس کے علاوہ ایک نجی لیبارٹری نے بھی بھیڑوں میں بیماری کے جراثیم کی تصدیق کی ہے۔

آسٹریلیا سے یہ بھیڑیں پی کے لائیو اسٹاک اینڈ میٹ کمپنی کے مالک طارق بٹ نے درآمد کی تھیں۔ سندھ حکومت کی رپورٹ کے مطابق بھیڑوں میں موجود جراثیم ہوا اور گوشت کے ذریعے پھیل سکتے ہیں جو ملک میں موجود کروڑوں مویشیوں اور انسانوں کے لیے خطرناک ہیں خاص طور پر ایسی صورت میں جب پاکستان میں یہ وائرس کبھی نہیں پایا گیا اسی وجہ سے اس کی ویکسین بھی موجود نہیں اور نہ ہی اس کے تدارک کے دیگر اقدمات فوری طور پر کیے جاسکیں گے۔ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ ملکی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے بھیڑوں میں بیماری کا انکشاف کیا تھا اور بحرین نے اسی وجہ سے بھیڑوں کو کو لینے سے انکار کیا جس کے بعد یہ بھیڑیں پاکستان میں اتار لی گئیں، وقت پہلے ہی بہت ضائع ہوچکا ہے لہٰذا اب مزید تاخیر کے مویشیوں کو تلف کردیا جائے۔

ڈائریکٹر کوآرنٹائن ڈپارٹمنٹ نے مراسلہ نمبر PS/SECY/L&F/I.S/2012/23 میں درخواست کی ہے کہ اس درآمد میں ملوث تمام افراد کے خلاف فوری اور سخت ترین قانونی کارروائی کی جائے۔ ذرائع کے مطابق حکومت سندھ درآمد کنندہ کے علاوہ تمام ایسے محکموں کے کوتاہی کی تحقیقات کررہی ہے جس کی اجازت سے ان بھیڑوں کو پاکستان لایا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان بھیڑوں کی درآمد میں پاکستان اینیمل کوآرنٹائن آرڈیننس ایکٹ 1979 اور 1980 کے قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ بھیڑوں کو لانے والے جہاز کی منزل پاکستان نہیں تھی لیکن متعلقہ حکام کو مقام اور ملک کی تبدیلی سے آگاہ نہیں کیا گیا ۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ امر حیرت انگیز ہے کہ آسٹریلیا کے کوآرنٹائن آفیسر نے ہیلتھ سرٹیفکیٹ یکم ستمبر 2012کو جاری کیے جبکہ جہاز 4 اگست 2012 کو روانہ ہوا تھا یعنی یہ معائنہ جہاز پر کیا گیا اور یہ کلیئرنس صرف بھیڑوں کو پاکستان لانے کے لیے حاصل کی گئی، جہاز بالاآخر 4 ستمبر 2012 کو پاکستان پہنچا اور بھیڑوں کو پورٹ قاسم سے رزاق آباد میں پی کے لائیو اسٹاک اینڈ میٹ کمپنی کے فارم ہائوس پر پہنچا دیا گیا جو بطور پرائیویٹ کوآرنٹائن ہائوس کے طور پر متعارف کرایا گیا حالانکہ ان کے پاس صوبے کی کوآرنٹائن ڈپارٹمنٹ کی کوئی کلیئرنس موجود نہیں تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھیڑوں کے درآمد کنندہ طارق بٹ نے قوانین کی سنگین خلاف ورزی کی ہے۔بزنس رپورٹر کے مطابق بیماری بھیڑوں کو ذبح کرکے دفنانے کا عمل جاری ہے تاحال 1500سے زائد بھیڑیں دفن کی جاچکی ہیں۔ ذرائع کے مطابق بھیڑوں کو ذبح کرنے کے عمل میں امپورٹرز کے کارندے رکاوٹیں پیداکررہے ہیں، منگل کو فارم ہائوس پر بجلی بند کردی گئی جو سرکاری عملے کے احتجاج پر بحال کی گئی۔ ذرائع کے مطابق بھیڑوں کو جلد ازجلد ذبح کرنے کے لیے افرادی قوت کی کمی کاسامنا ہے، بھیڑوں کو ذبح کرنے کے عمل کو رکوانے کی کوششیں تاحال جاری ہیں تاہم درآمد کنندگان کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے بعد مالکان نے میڈیا سے رابطہ ختم کردیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں