دفاعی اور معاشی استحکام میں درپیش چیلنجز

لامحالہ جب ملک کے معاشی استحکام کی بات ہوگی تو انفرادی طور پر معاشی تحفظ کی بھی بات ہوگی

لامحالہ جب ملک کے معاشی استحکام کی بات ہوگی تو انفرادی طور پر معاشی تحفظ کی بھی بات ہوگی۔ فوٹو: آئی ایس پی آر

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت جی ایچ کیو میں دو روزہ 261 ویں کور کمانڈرز کانفرنس میں آیندہ عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کو مطلوبہ اور ضروری تعاون فراہم کیے جانے کا اعادہ کیا گیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کے دیگر دہشت گردوں کو پڑوسی ملک میں محفوظ پناہ گاہیں اور کارروائی کی آزادی اور دہشت گردوں کے لیے جدید ترین ہتھیاروں کی دستیابی کو پاکستان کی سلامتی کو متاثر کرنے والے تشویشناک نکات کے طور پر نوٹ کیا گیا۔

کانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والے دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے والوں سے پوری طاقت سے نمٹا جائے گا۔

بلاشبہ سیکیورٹی کے خطرات میں اضافے سے ملک کے سیکیورٹی اداروں کے چیلنجز اور ذمے داریوں میں بھی اضافہ ہوا ، تاہم کورکمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ یہ غمازی کررہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز اپنے چیلنج سے آگاہ اور اس سے نمٹنے کے لیے پوری طوری مستعد اور پرعزم ہیں۔

آیندہ عام انتخابات میں پاک فوج کے اہلکار دوران انتخابات امن وامان کی فضا کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے فرائض سرانجام دیں گے، جس کے نتیجے میں پرامن اور شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن بنایا جاسکے گا۔

اس طرح نہ صرف ایک جمہوری عمل پرامن طریقے سے مکمل ہوگا بلکہ اس کے نتیجے میں ملک میں جمہوریت کو مزید استحکام ملے گا،پاک فوج نے جس طرح بارڈر پر اسمگلنگ کی روک تھام کی ہے۔

اس کے بہتر نتائج ملکی معیشت کے استحکام کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ پاک فوج کی کوششوں کی بدولت بیرونی سرمایہ کاری کی راہیں ہموار ہوئی ہیں، اور دوست ممالک کی جانب اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہورہی ہے،یعنی پاک فوج اپنی بساط سے بڑھ کر داخلی، خارجی اور معاشی سطح پر کام کررہی ہے۔

افواج پاکستان اور عوام ایک جسم و جان ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض عناصر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے فوج پر بلا جواز تنقید کرتے ہیں مگر انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایسا کرنا صرف اپنے وطن کی سلامتی سے کھیلنا ہے۔

ایسے عناصر،جماعت اور گروہ کے عزائم سے اہل وطن آگاہ رہیں،جو فوج اور عوام میں تقسیم ڈالنا چاہتے ہیں،پاکستان آج اپنے سے دس گنا بڑے دشمن ملک بھارت کے سامنے کھڑا ہے اور مضبوطی کے ساتھ موجود ہے تو اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی کے بعد پاکستان کی مسلح افواج کی جرات اور بہادری کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

اگرچہ ہمارے سیکیورٹی اداروں نے ماضی میں دہشت گردی پر کافی حد تک قابو پالیا تھا لیکن حالیہ حملے اور دہشت گردی کے واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ شدت پسند ایک بار پھر سراٹھا رہے ہیں، عسکریت پسند گروہوں کا دوبارہ سرگرم ہونا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ وطن عزیز میں ان کے ہمدرد اور سہولت کار چھپے ہوئے ہیں۔

ہرچند کہ پاکستان میں ہونے والے حالیہ دہشت گردانہ حملوں کے ڈانڈے افغانستان میں موجود عناصر سے جاکر ملتے ہیں مگر اس کی آڑ میں اپنی کمزوریوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اس وقت پاکستان کو درپیش چیلنجز میں سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی سے نبٹنا ہے۔ایک طرف وہ گروہ ہیں جو شریعت کے نام پرخودکش دھماکے اور سلامتی کے اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں تو دوسری طرف ایسے گروہ ہیں جو قومیت اور صوبائیت کے نام پر ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچارہے ہیں۔

ان دونوں گروہوں کے مقاصد الگ الگ تاہم ہدف ایک ہی ہے کہ ریاست میں امن و امان کی صورتحال خراب کی جائے۔ بیرونی قوتوں کی پشت پناہی بالخصوص ہمسایہ ریاست کی جانب سے وسائل کی فراہمی اور دوسری ہمسایہ ریاست کی جانب سے اپنی زمین میں محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کے باعث یہ گروہ اپنے مقاصد کو آگے بڑھا رہے ہیں۔


اس وقت ضرورت تھی کہ ایک بے رحم آپریشن کیا جائے جس سے ایسے گروہوں کی بنیاد کو ختم کر کے ملک کی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔ لہٰذا اس وقت داخلی پالیسی ترتیب دی گئی جس کی بنیاد پر ان گروہوں کے خلاف مختلف آپریشن کیے گئے۔

اس وقت بھی اگرچہ اس کی ضرورت تھی کہ مختصر المیعاد سلامتی پالیسی کے ساتھ ساتھ ایک طویل المیعاد پالیسی بھی ترتیب دی جائے تاکہ ان گروہوں کو کمزور کرنے یا خاتمہ کرنے کے بعد بھی امن کا عمل مسلسل جاری رہے جس میں سب سے بڑھ کر شہریوں کی سلامتی اور ان کی معاش کی سلامتی تھی،اگرچہ سابقہ فاٹا کے وہ علاقے جو اس وقت خیبر پختونخوا کا حصہ ہیں اور بلوچستان میں عسکری آپریشن ختم ہونے کے مختلف معاشی پیکیجز دیے گئے جن کے خاطر خواہ اثرات بھی ہوئے ، ان اقدامات کو مستقل پالیسی کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔

اس بات کا کریڈٹ پاک فوج کو جاتا ہے کہ ملک کی سلامتی پالیسی پر کام کیا گیا اور ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جامع پالیسی ترتیب دی جس میں ملک کی اندرونی و بیرونی سلامتی کو درپیش چینلجز کے ساتھ ساتھ ملک کی سلامتی کو معاشی استحکام کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔

لامحالہ جب ملک کے معاشی استحکام کی بات ہوگی تو انفرادی طور پر معاشی تحفظ کی بھی بات ہوگی،اگر یہ پہلو نظر انداز کر دیا جاتا ہے تو ملک کی سیکیورٹی بہتر ہونے کے باوجود بیرونی عناصر کے لیے محض چند موثرذرایع ابلاغ کے استعمال کے ذریعے سیکیورٹی لائن کو کمزور کرنا قطعی مشکل نہیں ہے۔

بلوچستان میں ہمسایہ ملک بھارت کی مدد سے دہشت گرد عناصر نے جو مسلح تحریک شروع کی تھی اس کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ ان کے خلاف مسلح آپریشنز تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھیں عوامی سطح پر پذیرائی نہ ملنے کی وجہ سے بھی یہ تحریک بری طرح ناکام ہوئی۔

البتہ ان کی اس ناکامی کو مستقل طور پر قائم رکھنے کے لیے یہ بھی ضروری تھا وہاں کچھ ایسے معاشی منصوبے شروع کیے جاتے جن کا براہ راست اثر عام آدمی کو ہوتا، اگر آج بھی وہاں کچھ غیر پسندیدہ سرگرمیاں جاری ہیں یا ریاست کے خلاف کچھ ہورہا ہے تو اس کی بنیاد بھی یہی ہے کہ ان معاشی منصوبوں کا فائدہ براہ راست عوام تک نہیں پہنچ پا رہا۔

خارجی مسائل میں پاکستان کواپنے پڑوس میں سیکیورٹی کا سب سے بڑا خطرہ بھارت سے ہے جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ بھارت میں انتہاپسند حکومت ہے جو انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کررہی ہے جس کی مثال مقبوضہ کشمیر میں طویل عرصے سے جاری کرفیو اور انسانیت سوز مظالم ہیں۔

عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ فاشسٹ بھارت کو انسانیت پر ظلم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے سے روکے اور پاکستان کو اس کا قانونی حق دلانے میں غیرجانبدارانہ کردار اداکرے تاکہ خطے میں امن واستحکام قائم ہوسکے۔یہ بات ذہن میں رہے اکیسویں صدی ٹیکنالوجی کی صدی کہلاتی ہے۔

اب ٹریڈیشنل یا کنونشنل وار (Conventional war)کی جگہ ہائبرڈ وار (Hybrid war)نے لے لی ہے جس میں ایجوکیشن، ہیلتھ، میڈیا اور ڈائیلاگ کے ذریعے دشمن کسی ملک کے عوام کو ٹارگٹ کرتا ہے تاکہ انھیں اپنے ہی ملک یا اداروں کے خلاف اکسایا جاسکے جیسے انڈیا نے پاکستان پر ہائبرڈ وار مسلط کر رکھی ہے۔

مخالفین نے کبھی بھی پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا ان میں سے کئی ایک ایسے ہیں جو اس مملکت کا کھاتے ہیں (کئی ایسے ہیں جو اس مملکت کو کھاتے ہیں) مگر ان کی زبانیں بھارت کی بولی بولتی ہیں اور ہر محاذ پہ پاکستان مخالف بیانیہ کی حمایت کرتے ہیں۔

ریاستی سطح پہ بھی اکثرکمزور پالیسی اپنائی جاتی ہے اور ایسے ریاست مخالف بیانیہ کا جواب نہیں دیا جاتا۔ 1971 کے مشرقی پاکستان کے حالات کے بارے بھی ریاست پاکستان ہمیشہ خاموش رہی ہے اور بھارتی الزامات کا جواب کبھی نہیں دیا اب جب کہ بین الاقوامی مصنفین کی غیر جانبدارانہ کتابیں شایع ہوئی ہیں اور عالمی سطح پہ معلومات عام ہوئیں کہ اصل قصور وار تو بھارت ہے اور پاکستانی انتظامیہ و افواج پر لگائے گئے الزامات جھوٹے، بے بنیاد اور من گھڑت ہیں تو کسی گوشے کونے سے چند آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن مجموعی طور پہ ایک معذرت خواہانہ پالیسی ہی نظر آتی ہے۔

دہشت گردی کے بارے بھی دنیا کو صحیح معنوں میں آگاہ نہیں کیا گیا کہ پاکستان میں ہونے والی تمام دہشت گردانہ پالیسیوں کے پیچھے بھارت ہی کا ہاتھ تھا اور ہے ۔چاہے قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کی جنگ تھی، چاہے بلوچستان میں باغیانہ تحریکیں ہیں چاہے کراچی میں تشدد کے اڑھائی عشرے تھے، ان سب کے پیچھے اس مکار دشمن بھارت کا ہاتھ رہا ہے جس نے کبھی بھی وجودِ پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔

پاکستان میں مذہبی، سماجی اور سیاسی سطح پر عدم برداشت اور شدت پسندی توجہ طلب مسئلہ ہے،اگرچہ ریاستی سطح پر انتہاپسندی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہوچکا ہے لیکن چالیس سالہ شدت پسندانہ لہر کے اثرات اب بھی باقی ہیں جن پر کنٹرول نہ کیا گیا تو یہ ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ انتہاپسند ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کے لیے سنجید ہ اقدامات کرے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی ایسامسئلہ درپیش نہ آئے جس سے پاکستان کی سلامتی اور عزت و وقار کو خطرہ ہو۔ اسی طرح نظامِ عدل میں بہتری سے عوام کا اعتماد بحال کیا جانا چاہیے تاکہ لوگ کسی بھی صحیح یا غلط انفارمیشن کی صورت میں قانون اپنے ہاتھ میں لینے کے بجائے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب رجوع کریں۔
Load Next Story