کمزور منتخب حکومت
اعلیٰ عدالتوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے بارے میں رکاوٹوں کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے
انتخابی عمل کا ایک اہم مرحلہ کاغذات نامزدگی کی وصولی مکمل ہوا۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ہزاروں افراد نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
ان امیدواروں کے کاغذات قانون کی طے کردہ شرائط کے مطابق ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ 30 دسمبر تک ہوجائے گا۔ میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین کے انتخابات میں حصہ لینے کے بارے میں کچھ خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے مگر تحریک انصاف نے ان رہنماؤں کے کاغذاتِ نامزدگی پر اعتراضات داخل نہیں کیے جس سے وہ خدشات دور ہو گئے۔
ان انتخابات میں ایک بڑی سیاسی جماعت کی قانونی حیثیت ختم کرنے کا معاملہ سامنے آیا مگر پشاور ہائی کورٹ نے انتخابی نشان کے مسئلہ پر مداخلت کر کے تحریک انصاف کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع فراہم کر دیا۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پنجاب اور خیبرپختون خوا کے صوبوں سے آنے والی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں کہ بہت سے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی چھین لیے گئے۔
کچھ امیدواروں کو امن وامان کے قانون کے تحت بند کردیا گیا۔ کچھ امیدواروں کے کاغذات جمع کرانے والے گرفتار ہوئے۔ متعدد افراد کو کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت ہائی کورٹس کے تحفظ کی ضرورت پیش آگئی۔
لاہور اور پشاور ہائی کورٹس کے فیصلوں کے بعد یہ امیدوار ریٹرننگ افسروں کے سامنے پیش ہوکرکاغذات نامزدگی جمع کروانے میں کامیاب ہوئے۔ بعض خبروں کے مطابق چند سیاسی کارکنوں کو گائے چوری کے الزام میں گرفتار کیا گیا، ان خبروں کے مطالعے سے گزشتہ صدی میں ہونے والے انتخابات کا منظر سامنے آنے لگتا ہے۔
1956کے آئین کے تحت 1958 میں عام انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958 کو یہ آئین منسوخ کرکے مارشل لاء نافذ کیا اورکمانڈر انچیف جنرل ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرکے عہدے پر فائز ہوئے۔
جنرل ایوب خان نے 27 اکتوبر 1958کو اسکندر مرزا کو رخصت کیا اور صدرکا عہدہ سنبھال لیا۔ جنرل ایوب خان نے 1962 کا آئین نافذ کیا جس کے تحت بی ڈی اراکین کا انتخاب ہوا۔ دونوں صوبوں مشرقی اور مغربی پاکستان میں 80 ہزار بی ڈی ممبروں کا انتخاب ہوا۔
عام آدمی نے بی ڈی ممبروں کے انتخاب کے لیے ووٹ دیا۔ ان بی ڈی ممبروں کو صدارتی امیدواروں کا انتخاب کرنا تھا اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو منتخب کرنا تھا۔ جنرل ایوب خان کا دور ایک جبرکا دور تھا۔
انھوں نے اقتدار میں آتے ہی مخالف سیاست دانوں کو گرفتارکرنا شروع کیا۔ نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ کی پوری قیادت جیلوں میں بند تھی اور جنرل ایوب خان کی مخالف کونسل مسلم لیگ کے رہنما اور جماعت اسلامی کے رہنما مسلسل زیرِعتاب تھے۔
ایوب خان کی حکومت نے ڈپٹی کمشنر اورکمشنر کی یہ ذمے داری لگائی تھی کہ ایوب خان کی حکومت کے مخالف اراکین منتخب نہ ہوسکیں۔ ہر فرد جو بی ڈی ممبر کے عہدے کے لیے کاغذات نامزدگی حاصل کرتا تھا اس کو پولیس، سی آئی ڈی اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کی غیر رسمی کلیئرنس کی ضرورت ہوتی تھی۔
متحدہ حزب اختلاف محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے خلاف صدارتی امیدوار بنانے پر متفق ہوگئی، یوں صدارتی انتخابات سنجیدہ ہوگئے۔ اس وقت سیاسی مبصرین اور صحافیوں کی یہ رائے تھی کہ فاطمہ جناح کی مقبولیت بہت زیادہ ہے، وہ ہر صورت انتخابات میں کامیاب ہونگی، یوں ایک منظم منصوبے کے تحت فاطمہ جناح کو شکست دے دی گئی۔
فاطمہ جناح کچھ عرصہ بعد پراسرار حالت میں انتقال کر گئیں مگر پھر 1968میں پورے ملک میں ایوب خان کے خلاف تحریک چل پڑی۔ ایوب حکومت اس تحریک کا مقابلہ نہ کر پائی۔ وہ دن بھی آیا کہ جنرل ایوب خان نے خود اپنا بنایا ہوا آئین منسوخ کیا۔ جنرل یحییٰ خان کو اقتدار دے کر عوام کو ایک اور مارشل لاء کا تحفہ دے کر تاریخ کے اوراق میں کھو گئے۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کے پہلے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میں تمام نمایندہ جماعتوں کے رہنماؤں کو ملا کر 1973 کا آئین بنایا۔ 1973 کے آئین میں انسانی حقوق کا ایک جامع باب بھی شامل کیا گیا مگر آئین نافذ ہونے کے فوراً بعد انسانی حقوق کا باب معطل کردیا گیا، ملک میں جلسے جلوسوں پر پابندی لگادی گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے تمام مخالف اخبارات پر پابندی عائد کردی تھی۔
پی پی حکومت نے بلوچستان کی پہلی عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا۔ ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی۔
نیشنل عوامی پارٹی بشمول ولی خان، میر غوث بخش بزنجو، عطاء اﷲ مینگل اور پیپلز پارٹی کے منحرفین معراج محمد خان اور علی بخش تالپور وغیرہ کو حیدرآباد سازش کیس میں ملوث کر کے حیدرآباد جیل میں مقید کر دیا گیا۔
کراچی میں مزدور تحریک کو پولیس کے ذریعے کچلا گیا۔ مزدور رہنما عثمان بلوچ سمیت کئی رہنماؤں کو برسوں جیلوں میں وقت گزارنا پڑا۔ دیگر مخالف جماعتوں جماعت اسلامی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے علاوہ مزدور، کسانوں، دانشوروں، صحافیوں اور طلبہ نمایندوں کی گرفتاریوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔
حکومت نے خصوصی عدالتیں قائم کیں۔ ان عدالتوں کی جانب سے تخریب کاری اور دیگر الزامات کے تحت سیاسی کارکنوں کو طویل مدت کی سزائیں دی گئیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 میں عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا، یوں بھٹو صاحب کے کسی دشمن نے یہ بات سمجھائی تھی کہ ان کو بلا مقابلہ منتخب ہونا چاہیے، اگرچہ ذوالفقار علی بھٹوکی لاڑکانہ سے کامیابی میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا مگر پولیس نے جماعت اسلامی کے رہنما مولانا جان محمد عباسی کو اغواء کیا۔
جان محمد عباسی کے اغواء کی خبر پوری دنیا میں شایع اور نشر ہوئی۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ غلام محمد جتوئی اور دیگر رہنما ممتاز بھٹو وغیرہ نے بھی یہی حربہ استعمال کیا۔ 1977 کے انتخابات انعقاد ہونے سے پہلے متنازعہ ہوگئے، جنرل ضیاء الحق نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھایا۔ انتخابات کے فوراً بعد پاکستان قومی اتحاد نے تحریک شروع کردی۔
اس تحریک کے دوران ڈالر سستا ہوا، جب بھٹو صاحب اور پی این اے کی قیادت 6 جولائی کی رات نئے انتخابات پر متفق ہوئے تو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
جنرل ضیاء الحق امریکا کی ایماء پر افغان پروجیکٹ میں شریک ہوئے۔ افغان پروجیکٹ میں شرکت کا فیصلہ غلط تھا۔ اس جنگ کے اثرات آج بھی ظاہر ہورہے ہیں۔
اعلیٰ عدالتوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے بارے میں رکاوٹوں کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔ سپریم کورٹ نے سائفرکیس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کر لی ہے مگر ان رہنماؤں کی رہائی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ پیپلزپارٹی نے جمہوریت کی بحالی کے لیے طویل جدوجہد کی ہے۔
میاں نواز شریف بھی مستقل مشکلات برداشت کرتے رہے ہیں۔ تمام جماعتوں کے رہنماؤں کو سیاسی بصیرت کا ثبوت دینا چاہیے۔ ایک کمزور اور متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت قائم ہوگی وہ کمزور ہوگی، ملک کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔
ان امیدواروں کے کاغذات قانون کی طے کردہ شرائط کے مطابق ہیں یا نہیں، اس کا فیصلہ 30 دسمبر تک ہوجائے گا۔ میاں نواز شریف اور جہانگیر ترین کے انتخابات میں حصہ لینے کے بارے میں کچھ خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے مگر تحریک انصاف نے ان رہنماؤں کے کاغذاتِ نامزدگی پر اعتراضات داخل نہیں کیے جس سے وہ خدشات دور ہو گئے۔
ان انتخابات میں ایک بڑی سیاسی جماعت کی قانونی حیثیت ختم کرنے کا معاملہ سامنے آیا مگر پشاور ہائی کورٹ نے انتخابی نشان کے مسئلہ پر مداخلت کر کے تحریک انصاف کو انتخابات میں حصہ لینے کا موقع فراہم کر دیا۔
گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پنجاب اور خیبرپختون خوا کے صوبوں سے آنے والی خبریں ذرایع ابلاغ کی زینت بنیں کہ بہت سے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی چھین لیے گئے۔
کچھ امیدواروں کو امن وامان کے قانون کے تحت بند کردیا گیا۔ کچھ امیدواروں کے کاغذات جمع کرانے والے گرفتار ہوئے۔ متعدد افراد کو کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت ہائی کورٹس کے تحفظ کی ضرورت پیش آگئی۔
لاہور اور پشاور ہائی کورٹس کے فیصلوں کے بعد یہ امیدوار ریٹرننگ افسروں کے سامنے پیش ہوکرکاغذات نامزدگی جمع کروانے میں کامیاب ہوئے۔ بعض خبروں کے مطابق چند سیاسی کارکنوں کو گائے چوری کے الزام میں گرفتار کیا گیا، ان خبروں کے مطالعے سے گزشتہ صدی میں ہونے والے انتخابات کا منظر سامنے آنے لگتا ہے۔
1956کے آئین کے تحت 1958 میں عام انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے 7 اکتوبر 1958 کو یہ آئین منسوخ کرکے مارشل لاء نافذ کیا اورکمانڈر انچیف جنرل ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرکے عہدے پر فائز ہوئے۔
جنرل ایوب خان نے 27 اکتوبر 1958کو اسکندر مرزا کو رخصت کیا اور صدرکا عہدہ سنبھال لیا۔ جنرل ایوب خان نے 1962 کا آئین نافذ کیا جس کے تحت بی ڈی اراکین کا انتخاب ہوا۔ دونوں صوبوں مشرقی اور مغربی پاکستان میں 80 ہزار بی ڈی ممبروں کا انتخاب ہوا۔
عام آدمی نے بی ڈی ممبروں کے انتخاب کے لیے ووٹ دیا۔ ان بی ڈی ممبروں کو صدارتی امیدواروں کا انتخاب کرنا تھا اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو منتخب کرنا تھا۔ جنرل ایوب خان کا دور ایک جبرکا دور تھا۔
انھوں نے اقتدار میں آتے ہی مخالف سیاست دانوں کو گرفتارکرنا شروع کیا۔ نیشنل عوامی پارٹی اور عوامی لیگ کی پوری قیادت جیلوں میں بند تھی اور جنرل ایوب خان کی مخالف کونسل مسلم لیگ کے رہنما اور جماعت اسلامی کے رہنما مسلسل زیرِعتاب تھے۔
ایوب خان کی حکومت نے ڈپٹی کمشنر اورکمشنر کی یہ ذمے داری لگائی تھی کہ ایوب خان کی حکومت کے مخالف اراکین منتخب نہ ہوسکیں۔ ہر فرد جو بی ڈی ممبر کے عہدے کے لیے کاغذات نامزدگی حاصل کرتا تھا اس کو پولیس، سی آئی ڈی اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کی غیر رسمی کلیئرنس کی ضرورت ہوتی تھی۔
متحدہ حزب اختلاف محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے خلاف صدارتی امیدوار بنانے پر متفق ہوگئی، یوں صدارتی انتخابات سنجیدہ ہوگئے۔ اس وقت سیاسی مبصرین اور صحافیوں کی یہ رائے تھی کہ فاطمہ جناح کی مقبولیت بہت زیادہ ہے، وہ ہر صورت انتخابات میں کامیاب ہونگی، یوں ایک منظم منصوبے کے تحت فاطمہ جناح کو شکست دے دی گئی۔
فاطمہ جناح کچھ عرصہ بعد پراسرار حالت میں انتقال کر گئیں مگر پھر 1968میں پورے ملک میں ایوب خان کے خلاف تحریک چل پڑی۔ ایوب حکومت اس تحریک کا مقابلہ نہ کر پائی۔ وہ دن بھی آیا کہ جنرل ایوب خان نے خود اپنا بنایا ہوا آئین منسوخ کیا۔ جنرل یحییٰ خان کو اقتدار دے کر عوام کو ایک اور مارشل لاء کا تحفہ دے کر تاریخ کے اوراق میں کھو گئے۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کے پہلے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے قومی اسمبلی میں تمام نمایندہ جماعتوں کے رہنماؤں کو ملا کر 1973 کا آئین بنایا۔ 1973 کے آئین میں انسانی حقوق کا ایک جامع باب بھی شامل کیا گیا مگر آئین نافذ ہونے کے فوراً بعد انسانی حقوق کا باب معطل کردیا گیا، ملک میں جلسے جلوسوں پر پابندی لگادی گئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے تمام مخالف اخبارات پر پابندی عائد کردی تھی۔
پی پی حکومت نے بلوچستان کی پہلی عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت کو برطرف کیا۔ ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی۔
نیشنل عوامی پارٹی بشمول ولی خان، میر غوث بخش بزنجو، عطاء اﷲ مینگل اور پیپلز پارٹی کے منحرفین معراج محمد خان اور علی بخش تالپور وغیرہ کو حیدرآباد سازش کیس میں ملوث کر کے حیدرآباد جیل میں مقید کر دیا گیا۔
کراچی میں مزدور تحریک کو پولیس کے ذریعے کچلا گیا۔ مزدور رہنما عثمان بلوچ سمیت کئی رہنماؤں کو برسوں جیلوں میں وقت گزارنا پڑا۔ دیگر مخالف جماعتوں جماعت اسلامی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے علاوہ مزدور، کسانوں، دانشوروں، صحافیوں اور طلبہ نمایندوں کی گرفتاریوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔
حکومت نے خصوصی عدالتیں قائم کیں۔ ان عدالتوں کی جانب سے تخریب کاری اور دیگر الزامات کے تحت سیاسی کارکنوں کو طویل مدت کی سزائیں دی گئیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 میں عام انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا، یوں بھٹو صاحب کے کسی دشمن نے یہ بات سمجھائی تھی کہ ان کو بلا مقابلہ منتخب ہونا چاہیے، اگرچہ ذوالفقار علی بھٹوکی لاڑکانہ سے کامیابی میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا مگر پولیس نے جماعت اسلامی کے رہنما مولانا جان محمد عباسی کو اغواء کیا۔
جان محمد عباسی کے اغواء کی خبر پوری دنیا میں شایع اور نشر ہوئی۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ غلام محمد جتوئی اور دیگر رہنما ممتاز بھٹو وغیرہ نے بھی یہی حربہ استعمال کیا۔ 1977 کے انتخابات انعقاد ہونے سے پہلے متنازعہ ہوگئے، جنرل ضیاء الحق نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھایا۔ انتخابات کے فوراً بعد پاکستان قومی اتحاد نے تحریک شروع کردی۔
اس تحریک کے دوران ڈالر سستا ہوا، جب بھٹو صاحب اور پی این اے کی قیادت 6 جولائی کی رات نئے انتخابات پر متفق ہوئے تو جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
جنرل ضیاء الحق امریکا کی ایماء پر افغان پروجیکٹ میں شریک ہوئے۔ افغان پروجیکٹ میں شرکت کا فیصلہ غلط تھا۔ اس جنگ کے اثرات آج بھی ظاہر ہورہے ہیں۔
اعلیٰ عدالتوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے بارے میں رکاوٹوں کا سنجیدگی سے نوٹس لیا ہے۔ سپریم کورٹ نے سائفرکیس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت منظور کر لی ہے مگر ان رہنماؤں کی رہائی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ پیپلزپارٹی نے جمہوریت کی بحالی کے لیے طویل جدوجہد کی ہے۔
میاں نواز شریف بھی مستقل مشکلات برداشت کرتے رہے ہیں۔ تمام جماعتوں کے رہنماؤں کو سیاسی بصیرت کا ثبوت دینا چاہیے۔ ایک کمزور اور متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت قائم ہوگی وہ کمزور ہوگی، ملک کا مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔