زراعت اور ڈیمز کی تعمیر
ہر آنے والی حکومت کی ترجیح بدل جاتی ہے اور حقیقت کو تسلیم کرنے میں پہلو تہی سے کام لیا جاتا ہے
ایک کے بعد دوسرا مسئلہ اس لیے کھڑا ہو جاتا ہے کہ ہم مسائل کا حل تلاش کر رہے ہوتے ہیں لیکن ترجیحی مسئلے کے حل کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ ہر آنے والی حکومت کی ترجیح بدل جاتی ہے اور حقیقت کو تسلیم کرنے میں پہلو تہی سے کام لیا جاتا ہے۔
اب آسان سی بات ہے کہ مسائل کے انبار میں سے کس کو ترجیح دینا ہے اس میں غیر حقیقی رویہ اختیار کیا جاتا ہے، صاف سی بات ہے کہ ہم ایک زرعی ملک ہیں۔ اس کو تسلیم نہیں کرتے ہم نے تین منصوبے بنائے دو مکمل کر لیے اور تیسرا ادھورا رہ گیا۔
ہم نے صنعت کو ترجیح دی لیکن زراعت پر مبنی صنعت کی بنیاد زراعت کو ترجیح ہی نہیں دی اور زراعت کے لیے زمینوں کے لیے کسانوں کے لیے غریب ہاریوں کے لیے سب سے اہم مسئلہ پانی کی دستیابی کو فوقیت نہیں دی گئی۔
دو بڑے ڈیم عالمی بینک کے تعاون سے بنا لیے گئے یہ کام 1974 میں تربیلا بند کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد پاکستان میں کوئی ایسا مقام تلاش نہ کر سکے جہاں ڈیم کی تعمیر کے لیے پوری قوم کا اتفاق رائے پایا جاتا ہو۔
اسی دوران دو سے تین عشرے ایسے گزرے کہ عالمی سیاست اور معیشت دونوں کا ایسا اتفاق اور اتحاد قائم ہوا کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کی خبر لینا شروع کردی تھی اور عالمی بینک نے بھی ڈیمز کی تعمیر میں پاکستان کی معاونت سے ہاتھ کھینچ لیا اور جب دیامر بھاشا کے مقام پر ڈیم کی تعمیر کا سوچ لیا گیا بالآخر 1998 میں اس ڈیم کا افتتاح کر دیا گیا۔
اسی سال پاکستان نے ایٹمی دھماکا بھی کردیا تھا اور پاکستان کو کئی اقسام کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر اس ڈیم کی تعمیر اس کے لیے رقوم کا بندوبست ان تمام باتوں کے بارے میں خاموشی چھائی رہی کیونکہ حکام کے پاس اس کی فرصت نہیں تھی۔
نائن الیون کے بعد پاکستانی حکام امریکا کا ساتھ دینے میں ایسے مصروف تھے کہ ان کے سامنے کوئی اور ترجیح نہیں تھی کہ ملک میں بجلی کی قلت کا سامنا ہوا اور پانی کی شدید کمی کا شکار ملک بننا شروع ہوا یہاں تک کہ اب جلد ہی پاکستان پانی کی کمی کے شکار ملکوں میں صف اول میں آ رہا ہے۔
2012 میں یہ بتایا گیا کہ اگلے 10 سال میں یہ ڈیم تعمیر ہو چکا ہوگا اور اب 1974 کے 50 سال بعد یعنی تربیلا ڈیم کے مکمل ہونے کے بعد اگلے 10 برسوں میں ایک اور بڑا ڈیم مکمل ہونا تھا، لیکن 50سال گزرنے کے بعد یہ خوشخبری ہی ہے کہ 2029 تک یہ ڈیم مکمل ہو جائے گا۔ اسے مکمل کرنے میں بڑی رکاوٹ اسے ترجیح نہ دینا تھا۔
موجودہ نگران حکومت نے مالی مسائل کے انبار میں سے اسے نکالا اور اسے اولین ترجیح دیتے ہوئے بھاشا ڈیم کی تعمیرکے لیے فوری طور پر ایک ارب ڈالرکا فوری انتظام کرنے کی خاطر متحرک ہوئی۔ نگران وزیر اعظم کے دورہ کویت کے دوران جو معاہدے کیے گئے، ان سے منصوبے کے لیے سرمائے کے حصول میں مدد ملے گی۔
ذرایع کے مطابق بھاشا ڈیم کے لیے ساڑھے تین ارب ڈالر درکار ہیں، لیکن کام جاری رکھنے کے لیے مستقل دورہ کویت کے دوران بھاشا ڈیم کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے کویتی حکومت کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے گئے۔
اس طرح بھاشا ڈیم کے لیے سرمائے کے حصول میں مدد ملے گی۔ پاکستان عالمی سطح پر فنڈز کے حصول میں مشکلات کا شکار بنا رہا ہے، کیونکہ بھارت کی لابنگ کے باعث فنڈز کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے، لیکن نگراں حکومت نے فنڈز کے حصول کو اولین ترجیح دی اور اس کے لیے اپنی کوششیں تیز تر کردیں۔ بھاشا ڈیم پر تعمیر کو جاری رکھنے کے لیے حکومت کی کوشش جلد کامیاب ہو جائے گی۔
دیامر بھاشا ڈیم تربیلا ڈیم سے 315 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جس کی تعمیر کے بعد ساڑھے بارہ لاکھ ایکڑ زمین سیراب ہوگی اور 4800 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی جوکہ انتہائی سستی ترین ہوگی۔ اس ڈیم میں 85 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہوگی۔
اس کی تعمیر مکمل ہونے کے ساتھ ملک میں آنے والے سیلاب میں زبردست کمی ہو جائے گی، اگر اس ڈیم کو ترجیح دے کر گزشتہ صدی کے آخر تک مکمل کر لیا جاتا تو 2010 اور 2022 میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچ سکتے تھے۔
اس ڈیم کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ دنیا کا بلند ڈیم ہوگا اور تقریباً 20 ہزار افراد کو روزگار میسر آئے گا۔1998میں اس کے افتتاح کے بعد 2029میں اگر واقعی مکمل ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس ڈیم نے اپنی تعمیر کے لیے 31 سال لے لیے اور ایسا کچھ اسی لیے ہوا کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کو ترجیح نہیں دی گئی۔
اس کے علاوہ دیگر بڑے ڈیمز کے منصوبے بنائے گئے ہیں اور صوبہ خیبرپختونخوا میں کئی چھوٹے چھوٹے ڈیمز کے منصوبے بنائے گئے تھے جن میں سے کئی مکمل ہو چکے ہیں۔ بھاشا ڈیم کے علاوہ پاکستان دیگر ڈیمز کی تعمیر کو بھی ترجیح دے اور کئی نئے ڈیمز یا پہلے سے تجویز کردہ ڈیمز کی تعمیر پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی مختلف حکومتوں نے اپنی ترجیحات کو جس طرح سے ادھر اُدھر موڑے رکھا انھی وجوہات کے باعث پاکستان کو فوڈ سیکیورٹی ممالک میں شمار کیا جانے لگا۔ اگر ملک کی زرعی پیداوار میں اضافہ ہوتا اور ہر زرعی پیداوار کی بھاری کم مقدار برآمد کرتے تو کثیر زرمبادلہ کی آمد کے باعث پاکستان مالی بحران کا شکار بھی نہ بنتا اور دیہی علاقوں میں زبردست خوشحالی اپنے ڈیرے جما لیتی۔ اس طرح مزید بڑے ڈیمز بنانے کو ترجیح دی جائے۔
بھارت نے اسی دوران کئی بڑے ڈیمز تعمیر کر لیے ہیں،کیونکہ ڈیمز کی بدولت پانی کی فراوانی ہوتی ہے جس سے کسانوں میں خوشحالی آتی ہے کیونکہ پانی زندگی ہے۔
اسی پانی کے ذریعے پھر سستی ترین بجلی پیدا کرلی جاتی ہے اور یہ بجلی زندگی کی روانی برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس طرح سستی بجلی پیدا کرکے بجلی نرخوں میں نمایاں کمی لائی جاسکتی ہے۔
اس طرح آئی ایم ایف کے کہنے پر بار بار عوام پر بجلی بموں کے گرانے کا سلسلہ ختم ہو جاتا۔ اور سستی ترین بجلی کی بدولت صنعت کاروں کو اپنی مصنوعات کو سستی کرکے عالمی منڈی میں پیش کرنا آسان ہو جاتا۔ ادھر کسان کی خوشحالی سے ملکی مصنوعات کی طلب بڑھ جاتی۔ لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع بڑھ جاتے لہٰذا ہر حکومت کو اس مسئلے کی طرف توجہ دیتے ہوئے اولین ترجیح ڈیمز کی تعمیر کو دی جائے تاکہ پانی سے ہی کھیت بھی سیراب ہوں گے۔
پن بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوگا جوکہ اس وقت کل بجلی کی پیداوار کا ایک تہائی ہے جس دن یہ مقدار دو تہائی ہو جائے گی پاکستان کی شرح ترقی کی رفتار بھی دگنی ہو جائے گی۔