کون موڑے مہار کوئی سانول نہیں …

سیاسی منظر نامہ کچھ دیکھا دیکھا سا لگ رہا ہے ہاں چہرے اور کردار بدل چکے ہیں


ناصر منصور December 31, 2023

الیکشن ہونے جا رہے ہیں، سیاسی جماعتیں نئی صف بندیوں میں مصروف ہیں، جوڑ بے جوڑ اور بے جوڑ جوڑ بننے جا رہے ہیں، جوکل تک ناممکن نظر آتا تھا،آج ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

سیاسی منظر نامہ کچھ دیکھا دیکھا سا لگ رہا ہے ہاں چہرے اور کردار بدل چکے ہیں۔ کچھ ہیروکا روپ دھار رہے ہیں اورگزرے دنوں کے ہیرو راندہ درگاہ ہوئے جاتے ہیں۔ الیکشن کے نتائج عوام کی رائے سے مرتب نہیں ہوتے بلکہ یہ کوئی اور ہی طے کرتا ہے جسے عوام بخوبی جانتے ہیں۔

وہ زمانے گئے جب الیکشن کے دن ہی مطلوبہ نتائج کے لیے تمام ناجائز حربے استعمال کیے جاتے تھے، اب نئے نئے طریقے رائج ہوچکے ہیں۔ ان کا اظہار ہمیں پچھلے الیکشن اور موجودہ الیکشن سے پہلے نظر آرہا ہے۔ لوگوں کو کسی ایک فریق کے اقتدار میں آنے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ ہر جماعت عوام سے مکالمہ اور طاقت لینے کے بجائے طاقتور حلقوں کے دست شفقت کی متمنی ہے۔ پی پی پی اپنے کیے کا صلہ اپنے حصے اور '' جثے'' سے زائد کی صدا لگا رہی ہے۔

پنجاب میں پاکستان استحکام پارٹی کو سیاسی اتحادی بنایا جا رہا ہے تو بلوچستان میں سیاستدان ن لیگ کے لیے وفاق اور صوبے میں اضافی کمک کا سبب بننے جا رہے ہیں، سندھ میں بساط اس طرح سے بچھی ہے کہ جی ڈی اے اور ایم کیو ایم علیحدہ علیحدہ ن لیگ کی انگلی پکڑنے کو تیار بیٹھے ہیں ۔ خیبر پختون خوا میں جے یو آئی، ن لیگ اور شاید اے این پی پر مشتمل مخلوط حکومت والے منظر میں مطلوبہ رنگ بھرے جا رہے ہیں۔

قرائن بتا رہے ہیں کہ اگلے سال فروری میں ہونے والے الیکشن میں پی ٹی آئی کے لیے ماحول اتنا ہی بدتر ہوگا جتنا اس نے ن لیگ کے لیے پچھلے الیکشن میں ترتیب دیا تھا، فرق صرف یہ ہے کہ ن لیگ اور اس کے رہنماؤں نے اس افتاد کو بھگت لیا لیکن پی ٹی آئی اور اس کے رہنما ایک ہی جھٹکے میں مٹی کا ڈھیر ہو گئے۔

آپ ایک کو نکالیں یا دوسرے کو لائیں کوئی بہت بڑا فرق نہیں پڑنے والا کیونکہ ملک کا موجودہ بحران ہمہ جہتی اور گھمبیر ہے یہ چہروں کی نہیں نہایت بنیادی معاشی و سیاسی تبدیلیوں کا متقاضی ہے جس کے لیے سیاسی جماعتیں رتی بھر بھی تیار نہیں، اس لیے کہ یہ تبدیلیاں ان کے مفادات کو روند کر ہی حاصل ہو سکتی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ سیاسی و معاشی منظرنامہ میں حقیقی ترقی اور تبدیلی سیاسی ایجنڈے پر موجود ہی نہیں۔ سیاسی جماعتیں موجودہ سیاسی ومعاشی بحران کا ذمے دار مخالفین کو قرار دے کر تنقید کر رہی ہے، لیکن کوئی بھی ٹھوس معاشی و سیاسی ایجنڈا دینے میں اب تک ناکام رہی ہیں۔

ملک کے اقتدار پر قابض سیاسی جماعتوں نے ملک کے 78 فیصد انسانوں کو غربت کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے جو جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ملک تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ عام لوگوں کی حقیقی آمدنی میں پچاس فیصد سے زائد کمی واقع ہو چکی ہے۔ پاکستان جنوبی اشیاء میں فی کس آمدنی کے لحاظ سے سب سے کم تر درجے پر ہے جب کہ مہنگائی میں سرفہرست ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مہنگائی کی شرح چالیس فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ عام شہریوں کے روزمرہ استعمال خصوصا اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کا تناسب ستر فی صد تک پہنچ چکا ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں پاکستانی روپے کی قدر میں پچاس فیصد سے زائد کمی نے ضروریات زندگی کے حصول کو تقریبا ناممکن بنادیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر عائد ناجائز ٹکسز نے مزید لاچار اور مجبور بنا دیا ہے۔

پچھلی حکومت کی نجی اسپتال مافیا کے مفادات کے لیے تحت بنائی گئی صحت پالیسی نے عوام کو علاج معالجے کی سہولیات سے محروم کردیا ہے۔ سرکاری اسپتال میں ادویات اور صحت کی عام سہولیات ختم کردی گئی ہیں اور عوام کو نجی اسپتالوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ادویہ ساز کمپنیوں نے ادویات کی قیمتوں میں ایک اندازے کے مطابق حالیہ مہینوں میں اسی فیصد اضافہ کردیا ہے۔

بجلی اورگیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے نے صنعتی و زرعی پیداوارکو خطرناک حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ اس وقت دوکروڑ سے زائد افراد بے روزگار ہیں اور ان کی تعداد میں ہر سال پچاس لاکھ سے زائد کا اضافہ ہورہا ہے، جب کہ شرح نمو دو فیصد سے بھی کم ہے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں غربت کی وجہ سے سب سے زیادہ بچے اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔

بے روزگاری، غربت اور نہ رکنے والی مہنگائی کے نتیجے میں ذہنی امراض کے علاوہ خود کشیوں کے رجحان میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مڈل کلاس کے لیے تقریباً پانچ اشاریہ پانچ ڈالر روزانہ کی آمدن ضروری ہے۔

اس لحاظ سے پاکستان کی 78.4 فیصد آبادی یعنی تقریبا انیس کروڑ افراد غربت کی لائن سے قریب زندگی گزار رہا ہے، جب کہ بدترین غربت کا شکار افراد کی تعداد نوکروڑ سے زائد ہے، جب کہ لاکھوں نوجوان ملک کے مستقبل سے مایوس ہوکر ملک چھوڑنے کے لیے قانونی و غیر قانونی راستے اختیارکررہے ہیں۔

کسی بھی ملک کے لیے اس سے بڑی بے حسی اورکیا ہوسکتی ہے کہ حکمران عوام کو ریلیف پہنچانے کے لیے کوئی پالیسی دینے کے بجائے آئی ایم ایف کے غلامی کے منصوبے پر دستخط کو خوشی کی نوید بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف ایک ایسا عفریت (مونسٹر) ہے جس نے دنیا بھر میں ترقی پذیر ممالک کے اربوں انسانوں کو قرضوں کے چنگل میں پھنسا کر ترقی اور خوشحالی کے تمام راستوں کو مسدود کردیا ہے۔

حکمرانوں کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کے نتیجے میں پاکستان سیاسی و معاشی طور پر غلام ملک بن چکا ہے، جس پر مسلط حکمران آئی ایم ایف کے وائسرائے کے طور پر کام کرتے ہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان قرضوں کی ادائیگی کے لیے قرض لیتا ہے، پاکستان دنیا کا پانچوں اور جنوبی ایشیاء کا سب بڑا مقروض ملک بن گیا ہے۔ایسی صورتحال میں الیکشن کے نتائج کچھ بھی مرتب کیے جاسکتے ہیں، طاقت کے زور پر کسی بھی قسم کی سیاسی صف بندی کی جاسکتی ہے۔ کچھ قوتیں سیاسی انجینئرنگ کی استعداد رکھتی ہیں۔

مجھے نہیں لگتا کہ کوئی سیاسی جماعت مسئلہ کے بپھرے سانڈ کو سینگوں سے پکڑ کر گرانے کی صلاحیت رکھتی ہے، جو مسائل اور ان کے حل کا ادراک رکھتے ہیں وہ عوام کی طاقت سے یکسر محروم ہیں۔ ناامیدی کے پھیلے اندھیرے میں امید ہی وہ چنگاری ہے جو کسی لحظہ بھی بھڑک سکتی ہے۔

انتخابی معرکہ کے دوران کروڑوں عوام ایک بڑے سیاسی عمل کا حصہ بنتے ہیں، ایک امکان ضرور ہے کہ وہ اس سیاسی اشرافیہ کو آئینہ دکھائیں اور ان کے سات دہائیوں پر پھیلے کرتوتوں کے نتائج پر ان کو جواب دہ بنائیں اور اپنے لیے نئی راہیں اور نئی سیاسی صف بندیوں کی بنیاد رکھیں۔ لینن نے کہا تھا کہ بعض اوقات دہائیاں گزر جاتی ہیں،کچھ نہیں ہوتا اور بعض اوقات دہائیاں کا سفر ہفتوں میں طے ہو جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔