سات سمندر پار
بیگم اخترریاض الدین کوجاپانی گھردیکھنے کا بہت شوق تھا، کئی لوگوں سے کہاکہ اپنے گھردکھاؤ، مگروہ بڑی خوبصورتی سے ٹال گئے
بیگم اختر ریاض الدین احمد جو کراچی سے ہوائی جہاز میں روانہ ہوئیں، گیارہ گھنٹوں میں اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئیں۔ اپنے جاپان کے سفر کا حال وہ اپنے سفرنامہ ''سات سمندر پار'' میں لکھتی ہیں۔
''رات ہو چکی تھی جب ہمارا جہاز ٹوکیو پہنچا، کسٹم والوں نے حسب معمول سوال کیے اور سامان کی جانچ پڑتال میں بہت دیر لگا دی، تھکے ہارے اپنے ہوٹل میں آ کر سو گئے۔ صبح لمبی تان کر اٹھی تو سورج دیوتا کمرے کے اندر اور میرا دیوتا کمرے کے باہر، وہ کانفرنس میں پاکستان کا تجزیہ کر رہے ہوں گے اور میں نے چاروں طرف کا جائزہ لینا شروع کیا۔ ہوٹل نہایت صاف ستھرا، کمرے میں ہر جدید آسائش، غسل خانہ اتنا شفاف کہ قدم رکھنے کے بجائے، اس کے قدم لینے کو دل چاہے۔ ربڑ کے چپل اوندھے بستروں کے نیچے رکھے ہوئے۔''
بیگم اختر ریاض الدین احمد نے کھڑکیوں سے باہر نگاہ ڈالی، چیری کے گلابی شگوفے قطار در قطار کھڑے لہرا رہے تھے۔ اپریل کا مہینہ جاپان میں بہاروں کا پیام بر ہوتا ہے۔ اس ماہ کے شب و روز پھولوں کی خوشبو میں رچے ہوئے ہوتے ہیں، اور یہی شوقِ بہاراں اختر کو جاپان لایا تھا۔
وہ لکھتی ہیں ''جاپان خاص الخاص مردوں کا ملک ہے۔ زندگی کے سارے عیش مرد ذات کے لیے ہیں۔ ہم نے مرد کو خدائے مجازی ہی کہہ کر چھوڑ دیا ہے، جاپان میں تو اس خدائے مجازی کی پرستش ہوتی ہے۔''
بیگم اختر ریاض الدین کو جاپانی گھر دیکھنے کا بہت شوق تھا، کئی لوگوں سے کہا کہ اپنے گھر دکھاؤ، مگر وہ بڑی خوبصورتی سے ٹال گئے۔ خیر انھوں نے کسی نہ کسی طرح ایک گھر تو جھانک ہی لیا۔ برآمدے اور باورچی خانہ میں نہایت عمدہ لکڑی کا فرش، ٹائلوں کی چھتیں، کمروں کے بیچ میں دیواریں ندارد، ہلکے ہلکے کاغذ کے دروازے جو اِدھر اُدھر کھسک جاتے اور ہٹائے جاسکتے ہیں۔ کمرے میں خوبصورت چٹائیاں بچھی ہوئی، کوئی فرنیچر فالتو نہیں۔ محرابی صورت کا ایک گوشہ عبادت کے لیے مخصوص۔
اختر ریاض الدین لکھتی ہیں ''ٹوکیو کا مشہور ترین بازار ''گنزا'' کہلاتا ہے۔ بے حد کشادہ سڑکیں، دو طرف فلک بوس عمارتیں اور دکانیں، آٹھ آٹھ منزل کے بڑے ڈپارٹمینٹل اسٹور اور ان میں طرح طرح کے مال۔ ٹوکیو میں خرید و فروخت کا مزہ اس لیے زیادہ آتا ہے کہ اشیا کی تعداد بہت زیادہ ہے، دکانیں حسین، بیچنے والیاں خندہ لب اور خوبرو۔ اس پر طرح یہ کہ دو پیسے کی چیز کو بھی نہایت نفاست سے نہایت دلکش کاغذ میں ربن سے لپیٹ کر دیں گی۔ اکثر وہ کاغذ اس قدر حسین رنگ اور نمونے کا ہوتا کہ جی چاہتا کہ کاغذ رکھ لے اور چیز پھینک دے۔''
وہ لکھتی ہیں ''یہاں تفریح باوا کے مول ہے، اس کے باوجود دنیا کے مردمانِ عیش کوش رات دن لہو و لعب میں کھوئے رہتے ہیں۔ ٹوکیو میں ہزارہا ہوٹل ہیں اور ان سے زیادہ گیشا خانے اور سرائیں۔ دو تین بڑے ہوٹلوں کے سوا سب ہوٹل والے اعلانیہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے کاروبار کا صرف کھانے پلانے پر انحصار رکھیں تو ہمارا دیوالیہ نکل جائے۔ ہم تو اپنے کمروں سے دن کو بھی اور رات کو فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ کمرے گھنٹوں کے حساب سے کرایہ پر دیے جاتے ہیں، جن میں طوائفیں مہیا کی جاتی ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹوکیو عیاشی کس حد تک پہنچی ہوئی ہے۔
بیگم اختر ریاض الدین احمد نے ایک سفر لندن سے ماسکو کا بھی کیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب لندن میں ریاض الدین امپیریل ڈیفنس کالج پر ایک کورس کر رہے تھے اور اختر بھی اپنی دونوں بچیوں کے ساتھ لندن میں تھیں۔ ان کے سفرنامہ ''سات سمندر پار'' میں ماسکو کے سفر کا بھی احوال ہے۔ ماسکو میں اختر کے میزبان روس میں پاکستان کے سفیر آغا ہلالی تھے۔
اختر ریاض الدین لکھتی ہیں ''ہوائی اڈہ شہر سے بہت دور تھا اور سارے راستے برف کی بلوری تنہائیاں اور صنوبر کی برہنہ پرچھائیاں دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ پاکستانی سفارت خانہ اور ہلالی صاحب کا گھر ایک شاندار اور وسیع عمارت میں تھا۔
''سرسری نظر میں شہر عموماً اُداس، ماند اور مدھم معلوم ہوا۔ کچھ موسمی سختی، کچھ سیاسی ضبط، کچھ جذباتی بے حسی۔ نہ رنگین راہ رو، نہ خوش باش چہرے۔ نہ جوانوں کے قہقہے، نہ منچلوں کی آوازیں۔ عمارتیں عموماً بوسیدہ اور پرانی طرز کی تھیں، صرف معدودے چند عمارتیں جدید اور فلک بوس تھیں۔ رات کو ان پر سرخ ستارے غمزہ زن ہیں۔ ماسکو کی سڑکیں اس لیے پھیکی اور بے رنگ معلوم ہوئیں کہ دکانوں پر لوگ معدوم اور وہ اس لیے معدوم کہ دکانیں سرکاری ہیں۔ دوسری وجہ سڑکوں کی بے رونقی یہ تھی اشتہارات سرے سے غائب تھے۔ میں نے سارے قیام میں صرف دو اشتہار دیکھے۔ ایک تھا ''دودھ زیادہ پیو، صحت بناؤ'' دوسرا تھا ''فضول خرچی اپنے آپ پر اور حکومت پر ظلم ہے۔''
بیگم اختر ریاض الدین احمد لینن اور اسٹالن کے مقبرے بھی گئیں۔ اس سرکاری مزار پر زائرین جوق در جوق آتے ہیں اور ان سے کئی میل لمبی قطاریں بن جاتی ہیں۔
اختر لکھتی ہیں ''بحیثیت مجموعی ماسکو اخلاقی طور پر ایک نہایت خشک، سخت گیر متشرع زاہد کی طرح ہے۔ یہاں عشرت شبانہ کی زندگی مفقود ہے۔ نائٹ کلب سرے سے موجود نہیں۔ برہنہ رقص اور فحش مذاق، چھچھوری تفریح نام کو نہیں۔ ماسکو میں رات کے گیارہ بجے تھیٹر، اوپرا ہاؤس، نغمہ و سرور کی محفلیں اور سینما کے آخری شو ختم ہو جاتے ہیں۔ روسی لوگ نسوانی حسن کو نہ مشتہر کرتے اور نہ اس کی تجارت کرتے ہیں۔''
وہ لکھتی ہیں ''آخر وہ لمحہ آ پہنچا جس کا مجھے شدت سے انتظار تھا۔ مجھے کریملین جانا تھا۔ کریملین کے تصور ہی سے میری رگ رگ میں ارتعاش تھا۔ میرے جوش اور اضطراب پر زمانہ حال ہنسے تو ہنسے۔ اس وقت میں تھی اور عظیم الشان ماضی مجسم میرے روبرو۔ یہ حصن حصین آج سے صدیوں قبل ماسکو کو حملہ آور جتھوں سے محفوظ رکھنے کے لیے تعمیر ہوا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ محلات اور گرجے اس میں شامل کر دیے گئے اور اب بالشیویکی نظام نے بعض حصے عجائب خانوں میں تبدیل کر دیے ہیں۔ کریملین کی سال خوردہ خوبصورتی گہرے سرخ رنگ کی کنگری دار فصیل، اس کے انگڑائی لیتے ہوئے انیس بلند مینار، پرشکوہ محلات اور کلیسا مل کر سرخ چوک کے شاہانہ رعب میں ایک حسین اضافہ کرتے ہیں۔ کریملین حکومت کا اقتدار اور اشتراکیت کا اسرار خانہ ہے۔ گزشتہ آٹھ سو برس میں جو ہیبت ناک اور خونچکاں ڈرامے کھیلے گئے وہ اسی اسٹیج پر ترتیب دیے گئے۔ اس مقام نے جلادوں کی بہیمانہ آوازیں سنیں۔ اس پر حملہ آوروں کے تاریک سائے پڑے۔''
آغا ہلالی کے اصرار پر اختر ریاض الدین احمد لینن گراڈ بھی دیکھنے گئیں۔ بیگم ہلالی اور سفارت خانے کی ثقافتی سیکریٹری زویا ان کے ساتھ تھیں۔ اختر اس مختصر سفر کے بارے میں لکھتی ہیں ''ماسکو کے مقابلے میں اس شہر کی فضا پرسکون تھی۔ وہ افراتفری اور ہجومی سیلاب کم تھے۔ لوگ زیادہ بااخلاق ہیں۔ عام لباس بھی مقابلتاً بہتر نظر آیا۔ عورتیں تو یقینی طور پر زیادہ اسمارٹ اور سجی نظر آئیں۔ یہ شہر اپنی گمبھیرتا، نکھار اور جاذبیت میں منفرد ہے۔ اس کے ذوق سلیم کا پتا اس سے چلتا ہے کہ اس میں 52 کالج اور سات لائبریریاں ہیں۔ تمام شہر پر علمی اور ادبی ماحول چھایا ہوا ہے۔ فکر و نظر کی نئی راہیں کھلتی ہیں۔