بی بی کا پیغام پی پی کے نام پہلا حصہ

بی بی کو اگر اپنی عوامی مقبولیت کی اس انتہا کا اندازہ ہوتا تو شاید وہ مفاہمت نہ کرتیں

zahedahina@gmail.com

جب یہ سطریں آپ کی نظروں سے گزر رہی ہوں گی تو 2023 کا آخری دن ہو گا ۔وقت اور انسان آتے ،چلے جاتے اور بھلا دیے جاتے ہیں، لیکن کچھ دن ،لوگ اور سال ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں بھلانا کسی کے بس میں نہیں ہوتا۔ کیابے نظیر بھٹو،27 دسمبر اور 2007 کو فراموش کرنے کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟

کل نئے سال کا آغاز ہو گا۔نیا سال انتخابات کا سال ہو گا،ملک جس بد ترین بحران میں ہے اس کے تناظر میں آٹھ فروری کے عام انتخابات فیصلہ کن ثابت ہونے والے ہیں۔اس موقع پر مجھے عظیم سیاسی رہنما، اسلامی دنیا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو بہت یاد آ رہی ہیں۔آنے والے انتخابات کے ہنگامہ خیز دنوں میں جمہوری سیاسی جماعتوں بالخصوص پاکستان پیپلز پارٹی کو ان کے علاقائی اور عالمی وژن سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔

بے نظیر کی شہادت کی خبر میں نے شملے میں سنی تھی۔ میری نگاہوں میں بے نظیر بھٹو کی وہ تصویر گھوم گئی جو شملے میں کھینچی گئی تھی مسز گاندھی اور بھٹو صاحب کے ساتھ' ساڑی میںلپٹی لپٹائی ایک خوش شکل اور ذہین لڑکی جس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس پر کیسے کیسے ستم ٹوٹیں گے۔

شملہ کی یہ تصویر دیکھتی ہوں تو تینوں کسی یونانی المیے کے کردارلگتے ہیں۔ بھٹو صاحب کاجوڈیشل مرڈر ہوا' مسز گاندھی اپنے ہی گارڈز کے ہاتھوں قتل ہوئیں اور بے نظیر بھی اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں ماری گئیں۔

18 اکتوبر 2007 کے دن بے نظیر کی وطن واپسی پر پیپلز پارٹی سے دہائیوں سے وابستہ لوگوں کا جوش اگر دیکھنے کے قابل تھا تو وہ لوگ جو سیاسی اعتبار سے مختلف زاویہ نظر رکھتے تھے وہ بھی سیاسی جمود کے ٹوٹنے سے خوش تھے۔ طویل جلاوطنی کے بعد بے نظیر بھٹو کی آمد تازہ ہوا کا جھونکا تھی۔

یہ شاندار عوامی استقبال شروع ہوا تو وہ تمام لوگ پر ُ امید تھے جو پاکستان کے مسائل کا حل آمریت کو نہیں سمجھتے تھے۔اس وقت جنرل پرویز مشرف اور امریکا دونوں کو ہی یہ اندازہ نہ تھا کہ بے نظیر بھٹو کا طیارہ جب کراچی کے ہوائی اڈے پر اترے گا تو پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور بی بی کے چاہنے والوں کا ایک سیلاب امڈآئے گا جس میں جنرل پرویز مشرف اینڈ کمپنی اور امریکا کے تمام اندازے بہہ جائیں گے۔

بی بی کو اگر اپنی عوامی مقبولیت کی اس انتہا کا اندازہ ہوتا تو شاید وہ مفاہمت نہ کرتیں۔ انھیں اس بات کا شدت سے احساس کراچی کے ہوائی اڈے سے نکلتے ہی ہوگیا ہوگا اور اسی لیے انھوںنے ان تمام وعدوں کو ایک طرف رکھ کر پر جوش اور ہر مفاہمت سے بالاتر سیاست کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کی عوامی مقبولیت سے خوفزدہ ہوکر انھیں ''خبردار'' کرنے کا فیصلہ شاید فوری اور ہنگامی تھا جو ان کے جلوس کے اسٹار گیٹ سے کارساز پہنچنے کی درمیانی مدت میں کیا گیا، یہ درمیانی مدت چند گھنٹوں پر محیط تھی۔

کارساز پر ہونے والا دھماکا بے نظیر بھٹو کو خوفزدہ کرنے اور جوش سے بھرے ہوئے ان کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لیے تھا۔ اس روز شام کے دھندلکے اور رات کی آمد کے ساتھ کارساز پر جو دھماکا ہوا اس میں بی بی تو بچ گئیں لیکن درجنوں جیالے بھاپ بن کر اڑ گئے۔بے نظیر نام کی ہی نہیں واقعی بے نظیر تھیں۔ جرأتمند اور جی دار۔

انھوں نے کراچی میں ہونیوالے قاتلانہ حملے میں اپنے سیکڑوں ساتھیوں کو ہلاک اور زخمی ہوتے دیکھا۔ اس خود کش حملے کے ذریعے انھیں خبردار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی انھیں دھمکیاں ملتی رہیں۔ وہ اپنی طرف بڑھتی ہوئی موت کے قدموں کی چاپ سن رہی تھیں لیکن موت سے نہ انھیں خوف آیا اورنہ اپنے لوگوں تک جانے میں ان کے قدم لڑکھڑائے۔

وہ آخر وقت تک اپنے لوگوں کے درمیان رہیں اور ان ہی کے درمیان جان دے دی۔ یہ ہمت اور یہ جرأت کروڑوں میں سے صرف اسی انسان کے اندر جنم لیتی ہے جس کی آنکھوں میں خواب بسے ہوئے ہوں ، دنیا کو بہتر دنیا میں بدل دینے کے خواب ، اپنے لوگوں سے پیمان وفا پورے کرنے کے خواب۔


انھوں نے جب اپنی آنکھوں سے اپنی راہ میں بچھے ہوئے لاشے اور خون کے تھالے دیکھے، زخمیوں کی آہ وبکا سنی تو انھوں نے طے کرلیا کہ واپسی کا اب کوئی راستہ نہیں ہے۔ اسی کے بعد وہ اس ہنگامہ خیز سیاسی سفر پر روانہ ہوئیں جس کا خاتمہ 27 دسمبر کی شام ان کی اپنی شہادت کے ساتھ ہوا۔

ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد بے نظیر بھٹو کی سیاسی زندگی کا آغاز ہوا، اس سفر میں انھوںنے بہت سے نشیب وفراز دیکھے، ناکامیوں اور کامیابیوں کے ذائقے چکھے۔ ان کاسیاسی شعور ایک طویل ارتقائی عمل سے گزرا، سیاست کے دریا کی شناوری کرتے ہوئے انھوں نے دانشوری کی کئی منزلیں طے کی تھیں۔

وہ سیاست کے خار زار میں اپنی مرضی سے نہیں آئی تھیں لیکن جب انھوں نے اپنا سیاسی سفر آغاز کیا تو پھر کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا۔ وہ بار بار یہی کہتی رہیں کہ میرے لیے میرے عوام سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اپنی اس بات کو انھوں نے جان دے کر ثابت کردیا کہ جب وہ یہ کہتی تھیں تو سچ کہتی تھیں۔

کئی برس پہلے انھوں نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا ''عورتوں کوبہت سے مشکل انتخاب کرنے پڑتے ہیں۔ ایسے مشکل انتخاب جنھیں مرد کرنے کے لیے مجبور نہیں ہوتے، لیکن ہم یہ مشکل راستے اس لیے منتخب کرتے ہیں کہ ہم سے پہلے گزرنے والی عورتوں نے بھی یہی کیا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ انتخاب ہم ان عورتوں کے لیے کرتے ہیں جو ہمارے بعد آئیں گی،یہ ہم ان لڑکیوں کی خاطر کرتے ہیں جو ابھی پیدا نہیں ہوئیں۔'' انھوںنے واقعی ایک جان لیوا انتخاب کیا تھا۔

وہ ہر مزاحمت اور رکاوٹ کے باوجود انتخابی عمل سے گزر کر دو مرتبہ اس ملک کی وزیراعظم بنی تھیں اور جلاوطنی کے دنوں میں انھیںہمیشہ وطن واپس جانے، سیاست میں بھرپور حصہ لینے اور تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے کا یقین تھا۔ اپنے قتل سے صرف 9 مہینے پہلے 24 مارچ 2007 کو انھوں نے ہندوستان کے ایک مقبول اوربڑی اشاعت رکھنے والے انگریزی ہفت روزہ ''انڈیا ٹوڈے'' کے ایک جلسے میں شرکت کی تھی جو نئی دہلی میں ہوا تھا۔

اس موقع پر بے نظیر بھٹو نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا پاک ہند تعلقات کو نئے سرے سے ''ایجاد'' کیا جاسکتاہے؟ انھوں نے کہا کہ میں اس وقت نو عمر لڑکی تھی جب اپنے والد کے ساتھ پہلی مرتبہ ہندوستان کے شہر شملہ آئی تھی۔ مجھے آج بھی وہ گرمجوشی اور محبت یاد ہے جو ہندوستانیوںنے مجھے دی تھی حالانکہ ہم دونوں ملک ایک دوسرے کے دشمن تھے۔

1972 میں ہندوستانی وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی اور میرے والد ذوالفقار علی بھٹونے شملہ معاہدے پر دستخط کیے تو میں ان محسوسات کے ساتھ وطن واپس گئی تھی کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان امن کو ہر قیمت پر قائم رہنا چاہیے۔ انھوںنے کہا تھا کہ میںنے راجیو گاندھی کو تجویز پیش کی تھی کہ ہمیں سارک کو ایک ثقافتی تنظیم کے ساتھ ساتھ ایک اقتصادی تنظیم بھی بنانا چاہیے۔

اس کے بعد انھوں نے 1999 میں ہونیوالی انڈو پاک پارلیمنٹیرین کانفرنس کا حوالہ دیا تھا جس میں انھوں نے شرکت کی تھی اور دونوں ملکوں کے پارلیمانی ممبران کے سامنے یہ بات رکھی تھی کہ پاکستان، ہندوستان اور جنوبی ایشیا کے تمام ملکوں کو اپنے اختلافات اور آپس کے قضیوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک مشترک منڈی قائم کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنے خطے سے غربت، بھوک، بیروزگاری کا خاتمہ اپنی نرم سرحدوں کے ذریعے کرسکیں۔

آج مجھے وہ انٹرویو یاد آرہا ہے جو میں نے ان سے جولائی 1991 میں کیا تھا۔ انٹرویو کا وقت تین دن پہلے طے ہوگیا تھا، اسی کے مطابق میں اسلام آباد پہنچی تھی اور قومی اسمبلی کے ان کے چیمبر میں ان کا انتظار کررہی تھی۔ ان کی بچی بختاور نرسری رائمز گنگناتے ہوئے صوفوں پراترنے اور چڑھنے میں اور مختلف لوگوں کے ساتھ تصویریں کھنچوانے میں مصروف تھی۔

چند لمحوں بعد ایک ہلچل سی مچی اور پاکستان کی سابق وزیر اعظم اور اس وقت کی قائدِ حزب اختلاف پاکستان پیپلز پارٹی کی شریک چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو اور چیئرپرسن محترمہ نصرت بھٹو چیمبر میں داخل ہو ئیں۔ (جاری ہے)
Load Next Story