قومی ٹیم کا مزاج بدلنے کے دعوے غلط ثابت

آسٹریلیا میں فتح کا خواب سراب بن کر رہ گیا

آسٹریلیا میں فتح کا خواب سراب بن کر رہ گیا۔ فوٹو : ٹویٹر

پاکستان کرکٹ ٹیم آسٹریلیا میں ایک اور ٹیسٹ سیریز ہار گئی، ایسا پہلی بار نہیں ہوا، پہلی سیریز سے ہی ایسا ہورہا ہے۔

پاکستانی ٹیم اپنی غیرمستقل مزاجی کیلئے مشہور ہے مگر کینگرو دیس میں ناکامیوں کا سلسلہ تسلسل کے ساتھ قائم رکھا ہوا ہے، نئے کپتان شان مسعود کی قیادت میں پاکستان ٹیم نے اس بار آسٹریلیا کا اس کے میدانوں پر غرور توڑنے کا خواب دیکھا مگر یہ خواب بھی سراب ہی ثابت ہوا۔

ٹور کےآغاز پرآسٹریلوی پرائم منسٹرالیون کے خلاف میچ میں جب شان مسعود نے ڈبل سنچری اسکور کی تو امید بندھی کی کپتان اور باقی سینئر بیٹرز اس بار سیریز میں کچھ نیا پن لائیں گے مگر پرتھ میں پاکستانی بیٹنگ لائن بھربھری دیوار ثابت ہوئی جوکہ میزبان اٹیک کے حملے برداشت نہیں کرسکی اور 360 رنز کی شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

ٹور کے شروع سے ہی فٹنس مسائل بھی ہاتھ دھو کر پاکستان ٹیم کے پیچھے پڑے رہے، پہلے وارم اپ میچ کے دوران ابرار احمد انجرڈ ہوگئے، پھر پرتھ ٹیسٹ کے بعد پسلی کے اسٹریس فریکچر کی وجہ سے خرم شہزاد بھی سیریز سے باہر ہوگئے، ایک اور اسپنر نعمان کو اپینڈکس ہوگیا جبکہ ٹیم ڈائریکٹر محمد حفیظ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پرتھ ٹیسٹ کے موقع پر نعمان کو انگلی کی انجری کا سامنا تھا اس لیے انھیں میدان میں نہیں اتارا گیا۔

بہرحال میلبورن میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ میں جب متبادل کے طور پرآسٹریلیا بلائے گئے اسپنر ساجد خان کو کھلانے کی توقع ظاہر کی جارہی تھی تو ایک بار پھرآل پیس اٹیک کے ساتھ میدان سنبھالا گیا اور اسپن آپشن کیلئے 'آل راؤنڈر' سلمان علی آغا پر ہی انحصار کیا گیا۔

پرتھ میں سلمان علی آغا نے مجموعی طور پر 40 اوورز کیے اور ایک بھی وکٹ حاصل نہیں کرسکے جبکہ دوسری جانب اسی پچ پر آسٹریلیا کے اسپیشلسٹ اسپنر ناتھن لائن نے مجموعی طور پر میچ میں 5 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

اسی طرح میلبورن میں سلمان علی آغا سے 11 اوورز کرائے گئے اور انھوں نے صرف ایک وکٹ لی، اس مقابلے میں ناتھن لائن نے پہلی اننگز میں 4 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تھا۔


باکسنگ ڈے کے موقع پر شروع ہونے والے اس ٹیسٹ میں پاکستان نے ٹاس جیتنے کے بعد پہلے حریف سائیڈ کو بیٹنگ کی دعوت دی اور شروع میں ہی سلپ میں موجود عبداللہ شفیق نے ڈیوڈ وارنر کو 2 کے انفرادی اسکور پر کیچ ڈراپ کرکے دوسرا چانس دے دیا، دوسری باری میں انھوں نے مچل مارش کو اس وقت لائف لائن دی جب کینگروز مکمل طور پاکستان کے گھیرے میں آچکے اور انھیں کم مجموعے پر آؤٹ کرکے جیت کے امکان کو بڑھایا جاسکتا تھا۔

تاہم اس ڈراپ کیچ سے موقع پر مارش نے 96 رنز بنادیے، الیکس کیری نے بھی 52 رنز بنادیے، جس سے آسٹریلوی ٹیم کا ٹوٹل 262 تک گیا اور اس نے پاکستان کو فتح کیلئے 317 رنز کا ہدف دے ڈالا، جواب میں پاکستان ٹیم 237 رنز پر آؤٹ ہوگئی۔

شان مسعود اور سلمان آغا نے ففٹیز بنائیں جوکہ پاکستان کے کسی کام نہ آئیں، امام الحق اس بار بھی بجھے بجھے دکھائی دیے ٹاپ پر ان کے 10، 12 رنز سوائے مایوسی بڑھانے کے اور کوئی کردار ادا نہیں کرسکے، بابراعظم طویل فارمیٹ میں ویسے ہی آؤٹ آف فارم دکھائی دے رہے ہیں، عبداللہ شفیق کی کارکردگی میں تسلسل نہیں ہے، یہ معاملہ سعود شکیل کے ساتھ بھی ہے۔

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ 40، 50 رنز بناکر ٹیسٹ میچز نہیں جیتے جاسکتے جبکہ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کھلاڑی بس اتنے ہی رنز بناکر ٹیم میں اپنی جگہ بچائے رکھنے کی تگ و دو کررہے ہیں کیونکہ اتنے ہی اسکور کی بنیاد پر محمد رضوان کو بہتر خیال کرتے ہوئے سرفراز احمد کی جگہ الیون میں شامل کیا گیا اور انھوں نے بھی بس اتنے ہی رنز ٹیسٹ میچ بھی بنائے۔

پہلے ٹیسٹ میں تنقید کی زد میں رہنے والے پیس اٹیک نے میلبورن میں قدرے بہتر کھیل کا مظاہرہ کیا تاہم فیلڈ سے معاونت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے مورال پر بھی اثر پڑا۔

پاکستان نے ویسے بھی میلبورن میں 42 برس سے کوئی ٹیسٹ میں نہیں جیتا تھا، اب یہ سلسلہ مزید وسیع ہوجائے گا۔ یہ پاکستان کی آسٹریلوی سرزمین پر لگاتار 16 ویں ٹیسٹ شکست ثابت ہوئی،آخری بار 196 میںآسٹریلیا میں کوئی ٹیسٹ میچ جیتا تھا، اب پاکستان سیریز کا تیسرا اور آخری ٹیسٹ میچ 3 جنوری سے سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں کھیلے گا۔

سیریز تو پہلے ہی ہاتھ سے نکل چکی، اس لیے گرین کیپس کو اب وائٹ واش کی خفت سے بچنے کا چیلنج درپیش ہوگا، الیون میں بھی کم سے کم ایک تبدیلی تو کرنا ہی پڑے گی۔

ایس سی جی میں اسپنرز کو معاونت ملنے کی تاریخ کو مدنظر رکھا گیا تو شاید سلمان آغا پر انحصار کرنے کے بجائے کسی اسپیشلسٹ اسپنر کو میدان میں اتارا جائے، سرفراز کی واپسی کا امکان بھی کم دکھائی دیتا ہے کیونکہ رضوان الیون میں برقرار رہنے کیلئے 'مطلوبہ' رنز اسکور کرچکے ہیں۔
Load Next Story