2023 میں بھی غیرمسلم اقلیتوں کی شادی اورطلاق کی رجسٹریشن کے قوانین لاگو نہ ہوسکے
77 سال بعد بھی پنجاب میں مقیم سکھ، ہندو اورمسیحی برادری کو شادی اور طلاق کی رجسٹریشن میں مسائل کا سامنا ہے
سال 2023 بھی گزر گیا لیکن پنجاب میں غیرمسلم اقلیتوں میں شادی اورطلاق کی رجسٹریشن کے قوانین لاگو نہیں ہوسکے اور آج 77 سال بعد بھی پنجاب میں مقیم سکھ، ہندو اورمسیحی برادری کو شادی اور طلاق کی رجسٹریشن کے لیے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نمرہ گل لاہور کے علاقہ باغبانپورہ کی رہائشی ہیں، ان کی نومبر 2023 میں اپنے رشتہ دار سلیمان بھٹی سے شادی ہوئی تھی۔ مقامی چرچ کی طرف سے انہیں شادی کا سرٹیفکیٹ دیا گیا لیکن ابھی تک مقامی یونین کونسل میں ان کی شادی رجسٹرڈ نہیں ہوسکی۔
نمرہ گل نے بتایا کہ ان کے شوہر متعدد بارمقامی یونین کونسل کے چکر لگاچکے ہیں لیکن یونین کونسل کے سیکرٹری کہتے ہیں کہ لوکل گورنمنٹ کے قوانین میں غیرمسلم شہریوں کی شادیوں اور طلاق کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا کوئی ذکرنہیں ہے۔
ایسی ہی صورتحال کا سامنا پنجاب میں بسنے والے سکھ اور ہندو شہریوں کو کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں مسیحی برادری کے لیے کرسچن میرج ایکٹ 1872 اور ڈیورس ایکٹ 1869 موجود ہیں جن میں ترامیم کے لیے 2014 میں وفاقی حکومت نے ڈرافٹ بل تیارکیے تھے۔
2017 میں وفاقی وزارت انسانی حقوق نے یہ دونوں بِل تصحیح کے لیے وزارتِ قانون کو بھجوائے تاکہ اس کے بعد یہ کابینہ میں پیش ہوسکیں۔ مسیحی برادری کا یہ مطالبہ تھا کہ ان کی شادیاں یونین کونسل کی سطح پررجسٹرڈ ہوں تاکہ انہیں قومی شناختی کارڈ، بچوں کے ب فارم بنوانے سمیت دیگر قانونی دستاویزات تیارکروانے میں مدد مل سکے۔
جنوری 2019 میں چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ایک فیصلے میں مسیحی برادری کی شادیوں کو رجسٹر کرنے کا حکم جاری کیا، سپریم کورٹ نے یونین کونسلوں کو بھی پابند کیا کہ وہ مسیحی برادری کی شادیوں کی رجسٹریشن کو یقینی بنائیں اورمتعلقہ اداروں کو پابندکیا کہ وہ مسیحی برادری کی شادی سے متعلق میرج سرٹیفیکیٹ بھی جاری کریں۔
مسیحی برادریوں کی شادیوں اورطلاق کی رجسٹریشن سے متعلق ابھی تک پنجاب لوکل گورنمنٹ کے پاس کوئی قانون نہیں ہے تاہم سپریم کورٹ کے حکم کے تحت بعض یونین کونسلوں میں رجسٹریشن کرکے نادراکا میرج اور طلاق کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا جاتا ہے۔
پنجاب میں ہندومیرج ایکٹ 2017 اور سکھ میرج ایکٹ 2018 کے رولزآف بزنس نہیں بن سکے جس کی وجہ سے یہ قوانین لاگونہیں ہوسکے تاہم 2023 میں اسلام آباد کیپٹل ٹریٹری ہندومیرج رولز 2023 منظور ہوچکے ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے سابق رکن اور ہندو رہنما کانجی رام نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسلام آباد میں ہندومیرج رولز منظور ہونے کے بعد امید ہے کہ پنجاب میں ہندومیرج ایکٹ 2017 کے رولزبنانے کے لیے راہ ہموار ہوجائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت شادی کے پھیرے لینے والے ہندو جوڑے کو مقامی پنڈت یا مہاراج سرٹیفکیٹ دیتا ہے اور ایک بیان حلفی جمع کروا نے کے بعد نادرا سے قومی شناختی کارڈ،بچوں کا ب فارم وغیرہ بنوایا جاسکتاہے۔ سکھ برادری کے پاس بھی شادی کی رجسٹریشن کی کوئی قانونی دستاویزنہیں ہوتی۔
کانجی رام نے یہ بھی بتایا کہ ہندودھرم میں مذہبی طورپر طلاق کا کوئی تصور نہیں ہے تاہم اگرمیاں بیوی ایک دوسرے سے علیٰحدگی اختیارکرناچاہیں توپھر عدالت کے ذریعے طلاق لی جاتی ہے۔ سکھ اور مسیحی برادری میں بھی طلاق کے لیے عدالتی راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکن اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق پر کام کرنے والے ایک تحقیقی ادارے سنٹر فار سوشل جسٹس کے بانی پیٹر جیکب نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک کئی اقلیتیں جن میں بہائی اور کیلاشی شامل ہیں ان کے لیے کوئی عائلی قوانین نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی ذمےداری ہے کہ مقامی معروضی حالات اور بین الاقوامی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے ،مرد اور خواتین کے مساوی حقوق کے مطابق قوانین بنائے۔ رولزآف بزنس بنانے کے لیے سوفیصد اتفاق رائے توشاید کبھی بھی ممکن نہیں ہوسکے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ صوبائی محکمہ انسانی حقوق واقلیتی امور کی ذمہ داری تھی کہ وہ کرسچن، سکھ اور ہندومیرج ایکٹ جو مختلف اوقات میں منظور ہوئے ان کے رولزآف بزنس تیار کرتا لیکن اس محکمے کی کارکردگی زیرونظرآتی ہے۔
سابق پارلیمانی سیکرٹری برائے انسانی حقوق واقلیتی امورپنجاب اسمبلی، سردار رمیش سنگھ اروڑہ کہتے ہیں کہ انہوں نے 2018 میں سکھ میرج ایکٹ جسے انندکارج کہا جاتا ہے وہ اسمبلی سے منظور کروالیا تھا لیکن اسی سال چونکہ الیکشن ہوئے اور پھرنئی حکومت آگئی تھی تو اس ایکٹ کے رولزنہیں بنائے جاسکے تھے۔
2018 میں بننے والی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ سکھ میرج ایکٹ جسے اسمبلی نے منظور کرلیا تھا اس کے رولزآف بزنس بناتی لیکن اس طرح چونکہ کریڈٹ انہیں اوران کی جماعت (مسلم لیگ ن) کو جانا تھا اس لیے پی ٹی آئی کی حکومت نے جان بوجھ کر اس کو التوا میں ڈالا،ترامیم کے نام پر اسے دوبارہ اسمبلی میں لیکرگئے اورمنظور کروالیا لیکن چارسال میں رولزآف بزنس نہیں بن سکے۔
صوبائی محکمہ انسانی حقوق واقلیتی امور کے حکام کے مطابق ماضی میں جو رولزآف بزنس بنائے گئے تھے ان پر مختلف کمینوٹیز کے نمائندوں کی طرف سے اعتراضات آئے جس کی وجہ سے اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ لیکن اس حوالے سے کام ابھی جاری ہے۔
رولزآف بزنس منظور ہونے کے بعد پنجاب بھر میں مسیحی برادری کے لیے پادری اوربشپ، سکھ برادری کے لیے گرنتھی جبکہ ہندوکمیونٹی کے لیے پنڈت اورمہاراج رجسٹرڈ کیے جائیں گے۔ انہیں مسلم نکاح خواہوں کی طرح رجسٹر دیے جائیں گے اور ان کے ذریعے کرائی گئی شادیوں کو یونین کونسل میں رجسٹرڈ کیا جائے گا۔
تاہم پنجاب میونسپل ڈیولپمنٹ فنڈ کمپنی ( پی ایم ڈی ایف سی ) نے جرمن ترقیاتی ادارے (GIZ) کے تعاون سے غیر مسلم اقلیتوں کی شادی اور طلاق کی رجسٹریشن سے متعلق قانون سازی کے لیے پنجاب لوکل گورنمنٹ کو آئینی اور تکنیکی معاونت فراہم کرنے کے لیے اقلیتی برادریوں،وزارت انسانی حقوق و اقلیتی امور کے نمائندوں سے بات چیت کرکے تجاویز مرتب کی ہیں۔
پی ایم ڈی ایف سی کے جنرل مینجر محمود مسعود تمنا نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے تجاویز کی دو جلدیں تیار کی ہیں۔ پہلی جلد میں سکھ، مسیحی اور ہندو کمیونٹی کے نمائندوں کی تجاویز، شادی اورطلاق کے موجودہ طریقہ کار پر توجہ دی گئی ہے جبکہ دوسری جلد میں اقلیتوں کی شادیوں اورطلاق سے متعلق عدالتی فیصلوں اوردنیا کے مختلف ممالک کے میں رائج طریقہ کار کا ذکر کیا گیا ہے۔
محمود مسعود تمنا کہتے ہیں کہ صوبائی محکمہ انسانی حقوق واقلیتی امور کے ساتھ مل کر بائی لاز کا ڈرافٹ تیار کیا گیا ہے جسے لوکل گورنمنٹ کے پاس بھیجا جائے گا اور پھر لوکل گورنمنٹ جو کہ مجاز اتھارٹی ہے وہ اس ڈرافٹ کو آنے والی حکومت سے منظور کرائے گی اور پھریہ قانون بن جائے گا۔
نمرہ گل لاہور کے علاقہ باغبانپورہ کی رہائشی ہیں، ان کی نومبر 2023 میں اپنے رشتہ دار سلیمان بھٹی سے شادی ہوئی تھی۔ مقامی چرچ کی طرف سے انہیں شادی کا سرٹیفکیٹ دیا گیا لیکن ابھی تک مقامی یونین کونسل میں ان کی شادی رجسٹرڈ نہیں ہوسکی۔
نمرہ گل نے بتایا کہ ان کے شوہر متعدد بارمقامی یونین کونسل کے چکر لگاچکے ہیں لیکن یونین کونسل کے سیکرٹری کہتے ہیں کہ لوکل گورنمنٹ کے قوانین میں غیرمسلم شہریوں کی شادیوں اور طلاق کے سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا کوئی ذکرنہیں ہے۔
ایسی ہی صورتحال کا سامنا پنجاب میں بسنے والے سکھ اور ہندو شہریوں کو کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں مسیحی برادری کے لیے کرسچن میرج ایکٹ 1872 اور ڈیورس ایکٹ 1869 موجود ہیں جن میں ترامیم کے لیے 2014 میں وفاقی حکومت نے ڈرافٹ بل تیارکیے تھے۔
2017 میں وفاقی وزارت انسانی حقوق نے یہ دونوں بِل تصحیح کے لیے وزارتِ قانون کو بھجوائے تاکہ اس کے بعد یہ کابینہ میں پیش ہوسکیں۔ مسیحی برادری کا یہ مطالبہ تھا کہ ان کی شادیاں یونین کونسل کی سطح پررجسٹرڈ ہوں تاکہ انہیں قومی شناختی کارڈ، بچوں کے ب فارم بنوانے سمیت دیگر قانونی دستاویزات تیارکروانے میں مدد مل سکے۔
جنوری 2019 میں چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ایک فیصلے میں مسیحی برادری کی شادیوں کو رجسٹر کرنے کا حکم جاری کیا، سپریم کورٹ نے یونین کونسلوں کو بھی پابند کیا کہ وہ مسیحی برادری کی شادیوں کی رجسٹریشن کو یقینی بنائیں اورمتعلقہ اداروں کو پابندکیا کہ وہ مسیحی برادری کی شادی سے متعلق میرج سرٹیفیکیٹ بھی جاری کریں۔
مسیحی برادریوں کی شادیوں اورطلاق کی رجسٹریشن سے متعلق ابھی تک پنجاب لوکل گورنمنٹ کے پاس کوئی قانون نہیں ہے تاہم سپریم کورٹ کے حکم کے تحت بعض یونین کونسلوں میں رجسٹریشن کرکے نادراکا میرج اور طلاق کا سرٹیفکیٹ جاری کردیا جاتا ہے۔
پنجاب میں ہندومیرج ایکٹ 2017 اور سکھ میرج ایکٹ 2018 کے رولزآف بزنس نہیں بن سکے جس کی وجہ سے یہ قوانین لاگونہیں ہوسکے تاہم 2023 میں اسلام آباد کیپٹل ٹریٹری ہندومیرج رولز 2023 منظور ہوچکے ہیں۔
پنجاب اسمبلی کے سابق رکن اور ہندو رہنما کانجی رام نے ایکسپریس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسلام آباد میں ہندومیرج رولز منظور ہونے کے بعد امید ہے کہ پنجاب میں ہندومیرج ایکٹ 2017 کے رولزبنانے کے لیے راہ ہموار ہوجائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت شادی کے پھیرے لینے والے ہندو جوڑے کو مقامی پنڈت یا مہاراج سرٹیفکیٹ دیتا ہے اور ایک بیان حلفی جمع کروا نے کے بعد نادرا سے قومی شناختی کارڈ،بچوں کا ب فارم وغیرہ بنوایا جاسکتاہے۔ سکھ برادری کے پاس بھی شادی کی رجسٹریشن کی کوئی قانونی دستاویزنہیں ہوتی۔
کانجی رام نے یہ بھی بتایا کہ ہندودھرم میں مذہبی طورپر طلاق کا کوئی تصور نہیں ہے تاہم اگرمیاں بیوی ایک دوسرے سے علیٰحدگی اختیارکرناچاہیں توپھر عدالت کے ذریعے طلاق لی جاتی ہے۔ سکھ اور مسیحی برادری میں بھی طلاق کے لیے عدالتی راستہ اختیار کیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکن اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق پر کام کرنے والے ایک تحقیقی ادارے سنٹر فار سوشل جسٹس کے بانی پیٹر جیکب نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک کئی اقلیتیں جن میں بہائی اور کیلاشی شامل ہیں ان کے لیے کوئی عائلی قوانین نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی ذمےداری ہے کہ مقامی معروضی حالات اور بین الاقوامی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے ،مرد اور خواتین کے مساوی حقوق کے مطابق قوانین بنائے۔ رولزآف بزنس بنانے کے لیے سوفیصد اتفاق رائے توشاید کبھی بھی ممکن نہیں ہوسکے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ صوبائی محکمہ انسانی حقوق واقلیتی امور کی ذمہ داری تھی کہ وہ کرسچن، سکھ اور ہندومیرج ایکٹ جو مختلف اوقات میں منظور ہوئے ان کے رولزآف بزنس تیار کرتا لیکن اس محکمے کی کارکردگی زیرونظرآتی ہے۔
سابق پارلیمانی سیکرٹری برائے انسانی حقوق واقلیتی امورپنجاب اسمبلی، سردار رمیش سنگھ اروڑہ کہتے ہیں کہ انہوں نے 2018 میں سکھ میرج ایکٹ جسے انندکارج کہا جاتا ہے وہ اسمبلی سے منظور کروالیا تھا لیکن اسی سال چونکہ الیکشن ہوئے اور پھرنئی حکومت آگئی تھی تو اس ایکٹ کے رولزنہیں بنائے جاسکے تھے۔
2018 میں بننے والی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ سکھ میرج ایکٹ جسے اسمبلی نے منظور کرلیا تھا اس کے رولزآف بزنس بناتی لیکن اس طرح چونکہ کریڈٹ انہیں اوران کی جماعت (مسلم لیگ ن) کو جانا تھا اس لیے پی ٹی آئی کی حکومت نے جان بوجھ کر اس کو التوا میں ڈالا،ترامیم کے نام پر اسے دوبارہ اسمبلی میں لیکرگئے اورمنظور کروالیا لیکن چارسال میں رولزآف بزنس نہیں بن سکے۔
صوبائی محکمہ انسانی حقوق واقلیتی امور کے حکام کے مطابق ماضی میں جو رولزآف بزنس بنائے گئے تھے ان پر مختلف کمینوٹیز کے نمائندوں کی طرف سے اعتراضات آئے جس کی وجہ سے اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ لیکن اس حوالے سے کام ابھی جاری ہے۔
رولزآف بزنس منظور ہونے کے بعد پنجاب بھر میں مسیحی برادری کے لیے پادری اوربشپ، سکھ برادری کے لیے گرنتھی جبکہ ہندوکمیونٹی کے لیے پنڈت اورمہاراج رجسٹرڈ کیے جائیں گے۔ انہیں مسلم نکاح خواہوں کی طرح رجسٹر دیے جائیں گے اور ان کے ذریعے کرائی گئی شادیوں کو یونین کونسل میں رجسٹرڈ کیا جائے گا۔
تاہم پنجاب میونسپل ڈیولپمنٹ فنڈ کمپنی ( پی ایم ڈی ایف سی ) نے جرمن ترقیاتی ادارے (GIZ) کے تعاون سے غیر مسلم اقلیتوں کی شادی اور طلاق کی رجسٹریشن سے متعلق قانون سازی کے لیے پنجاب لوکل گورنمنٹ کو آئینی اور تکنیکی معاونت فراہم کرنے کے لیے اقلیتی برادریوں،وزارت انسانی حقوق و اقلیتی امور کے نمائندوں سے بات چیت کرکے تجاویز مرتب کی ہیں۔
پی ایم ڈی ایف سی کے جنرل مینجر محمود مسعود تمنا نے ایکسپریس نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے تجاویز کی دو جلدیں تیار کی ہیں۔ پہلی جلد میں سکھ، مسیحی اور ہندو کمیونٹی کے نمائندوں کی تجاویز، شادی اورطلاق کے موجودہ طریقہ کار پر توجہ دی گئی ہے جبکہ دوسری جلد میں اقلیتوں کی شادیوں اورطلاق سے متعلق عدالتی فیصلوں اوردنیا کے مختلف ممالک کے میں رائج طریقہ کار کا ذکر کیا گیا ہے۔
محمود مسعود تمنا کہتے ہیں کہ صوبائی محکمہ انسانی حقوق واقلیتی امور کے ساتھ مل کر بائی لاز کا ڈرافٹ تیار کیا گیا ہے جسے لوکل گورنمنٹ کے پاس بھیجا جائے گا اور پھر لوکل گورنمنٹ جو کہ مجاز اتھارٹی ہے وہ اس ڈرافٹ کو آنے والی حکومت سے منظور کرائے گی اور پھریہ قانون بن جائے گا۔