کڑوی گولیاں
غربت کا عفریت مختلف ملکوں میں مختلف رنگ میں عمل پیرا ہے۔ غرض بھارت چونکہ بڑا ملک ہے۔۔۔
اگست 1947 میں جب برصغیر کو آزادی نصیب ہوئی تو دونوں جانب رہبران قوم تھے ایک طرف پنڈت جواہر لعل نہرو ، جو انگریزی اور فارسی زبان پر دسترس رکھتے تھے جوش ملیح آبادی کی انقلابی شاعری کے معترف، ہندو مسلم کی سطح سے بلند لیڈر ۔دوسری جانب قائد اعظم محمد علی جناح وسیع النظر، خطیب عظیم، ملت کے پاسباں اسی لیے دونوں لیڈروں کے زاویۂ نگاہ میں اختلاف تھا مگر دونوں لیڈران برصغیر کی تاریخی حیثیت سے واقف تھے مگر صد افسوس کہ کشمیر جنت نظیر کا مسئلہ ان کی زندگی میں حل نہ ہوا۔
فائر بندی کے بعد دونوں لیڈران زیادہ گفتگو نہ کرسکے ،کیونکہ ہماری بدقسمتی تھی کہ قائد اعظم جلد رحلت فرما گئے۔ بعد ازاں خان لیاقت علی خاں نہرو کے مقابل تھے اور عالمی میدان سیاست کے یہ بھی عظیم کھلاڑی تھے چونکہ روس بھارت کا بڑا حلیف تھا اس لیے لیاقت علی خان کو امریکا کی طرف سے جانا ہی پڑا اور خود کو امریکی عالمی جنگ جو سرد جنگ تھی معاہدہ وارسا اور معاہدہ نیٹو کی جنگ ۔ اس میں پاکستان امریکی عالمی مفادات کا ساتھی بنتا گیا۔
مگر جب امریکا نے 1952 میں پاکستان میں اپنے لیے ہوائی اڈے مانگے تو لیاقت علی خان نے انکار کردیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان کسی ایک ملک کا کاسہ لیس بن جائے مگر جل دہی ان کو اس خودمختاری کی سزا ملی اور سیاسی منظر نامے سے ان کو غائب کردیا گیا پھر آنے والوں نے بڈابیر کا ہوائی اڈا امریکی افواج کے حوالے کردیا۔ جہاں سے 1962 میں یوٹو (U2)اڑا اور روسی توپوں نے مار گرایا۔ پھر کیا تھا سرد جنگ میں پاکستان امریکا کا اتحادی قرار پایا اور 1970 کی جنگ میں بنگلہ دیش کرہ ارض پر ایک آزاد ملک بن کے ابھرا۔
کہاں کشمیر کی متوقع آمد کی بات تھی وہ تو گئی دور، رہ گئی بات مشرقی پاکستان کی یہ سانحہ بھارت کبھی تنہا نہ کرپاتا۔ روس کے کاندھوں پر یہ کامیاب ہوا۔ چونکہ روس اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ تھے اور بنگلہ دیش کی جنگ قومی آزادی کی جنگ تصور کی جاتی تھی اس لیے روس نے اپنے عالمی منشور کے تحت اس جنگ کی حمایت کی کشمیر پر بھارت کا کلیم (Claim) روسیوں نے مانا ۔باوجود اس کے کہ جوزف اسٹالین نے دو قومی نظریے کی حمایت کی مگر وقت گزرنے کے بعد روسیوں نے اس نظریے کی حمایت سے دستبرداری کا اعلان اور اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا۔ اور مذہب کو قوم کا درجہ دینے سے دوری اختیارکرلی اور بنگلہ دیش ان کو ایک جیتا جاگتا ثبوت مل گیا کہ ایک ہی خدا و رسول کو ماننے والے ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما تھے۔
اس لیے قوم کے لیے جو فارمولا سویت یونین نے بنایا تھا اس پر دو قومی نظریہ پورا نہ اترتا تھا۔ لہٰذا روس اور پاکستان کے مابین فکری خلیج وسیع تر ہوتی گئی اور جب افغانستان میں نورمحمد ترہ کئی کی قیادت میں کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی تو امریکا نے بہ آسانی پاکستان کو اپنا حلیف بنالیا اور خوب استعمال کیا آخر کار روسیوں کی شکست اور پورے سویت یونین میں گلا سنوٹ کی تحریک نے روسی ریاستوں کو آزاد کردیا۔ روس کی عالمی سیاست سے واپسی اور کمیونسٹ نظریات کی عالمی پیمانے پر شکست ہوئی اور ہزاروں ایٹمی میزائل اور خلائی قوت ہونے کے باوجود وہ لخت لخت ہوگیا اور عالمی سیاست سے وہ غائب ہوگیا ۔
کشمیر پر اس کا کوئی موقف نہ رہا کیونکہ وہ اپنی ساکھ کھوچکا تھا اور نہ بھارت کی حکومت کا وہ اتنا حامی رہا۔ دویم بھارت کی سرمایہ دارانہ حکومت مغربی دنیا کی حاشیہ بردار ہوگئی روس کا اس سے محض تجارتی مفاد ہے یہ الگ بات رہی کہ بھارت کا ابتدائی ڈھانچہ جس پر اس کی معیشت کی بنیاد کھڑی ہے وہ روس کا تیار کردہ ہے مگر اب بھارت مغربی دنیا کا ایک رول ماڈل ہے جس کو اس وقت روس اور امریکا کی حمایت حاصل ہے۔ لہٰذا عالمی پیمانے پر بھارت ڈپلومیسی کی بنیاد پر عالمی رائے عامہ پاکستان کے خلاف ہموار کرچکا ہے اور کشمیریوں کی جنگ آزادی دنیا کی نظر میں دہشت گردی کی ایک شکل ہوکر رہ گئی ہے اور کشمیر کی جدوجہد پاکستان میں دہشت گردی اور مختلف فرقوں کا ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل نے کشمیر کی جنگ آزادی کو نسلی فساد اور منافرت کی جنگ کی شکل میں پیش کردیا ہے ۔
چنانچہ کشمیر میں بسنے والے لوگ بھی اس جنگ کے اصل مقاصد اور تشہیر کرنے میں ناکام رہے ہیں کشمیریوں سے اگر کوئی ذاتی ہمدردی اور حمایت موجود ہے تو وہ پاکستانی عوام ہیں کشمیر کی جنگ بھارت کے لیے تو آبی جنگ اور مخصوص جنگی مقاصد کی بہترین زمین ہے اسی لیے پاکستان اس کو شہ رگ اور بھارت اس کو اٹوٹ انگ کہتا ہے کشمیر کی مخصوص جنگی اہمیت کو دونوں ممالک اپنے اعتبار سے سمجھتے ہیں۔ لہٰذا تقسیم ہند سے آج تک دونوں ممالک حالت جنگ میں ہیں اور ایٹم بم اور اسلحہ جات اور فوجی اخراجات اسی وجہ سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ایسی صورت میں دونوں ممالک کے اقتصادی حالات کیونکر بہتر ہوسکتے ہیں بھارت فی الحال اسی پر نازاں ہے کہ وہاں 60 فیصد مڈل کلاس پیدا ہوگیا ہے مگر وہ یہ بھول گیا کہ 40 فیصد غریب 60 فیصد امیروں پر اپنی حکمت عملی تنظیم، اتحاد سے ٹاٹا اور رئلائنس گروپ کو بندوق کی نوک پر جلد یا بدیر قابو کرلیں گے، چھتیس گڑھ، تلنگانہ، بہار، جھاڑکھنڈ میں ماؤ نواز حملہ آور گروپوں میں غریب و محروم طبقات شامل ہو رہے ہیں۔
غربت کا عفریت مختلف ملکوں میں مختلف رنگ میں عمل پیرا ہے۔ غرض بھارت چونکہ بڑا ملک ہے اس لیے وہ پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرنے میں لگا ہے ، بغیر حملہ کیے وہ ان اہداف پر گامزن ہے، جس کو گجراتی قوم وانیے کی ٹکور کہتے ہیں اس کا مشاہدہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے حکومت نے کیا کیا کچھ کیا بہرحال ان زمینی حالات میں پاکستانی حکومت کیا کرسکتی تھی، یا تو وہ تنہا بیٹھ جائے اور اپنے ہر بارڈر کو غیر مستحکم کردے جیساکہ ابھی حلف برداری کی تقریب میں افغان صدر کرزئی نے فساد کی فضا پیدا کرنے کے لیے ایک شوشہ چھوڑا کہ افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں پر حملے میں پاکستان ملوث ہے کہاں یہ ایک حلف برداری کی تقریب تھی۔
جس میں کرزئی نے اشتعال انگیز باتیں کیں دراصل افغان صدر ڈیورنڈ لائن کا شوشہ چھوڑنے کا عندیہ دے رہے ہیں ایسی صورت میں آخر پاکستانی حکومت کیا کرے۔ پاکستان کے محل وقوع اور جانے والے حکمرانوں نے جو معیار سیٹ کیے ہیں ان ہی میں رہتے ہوئے عمل کرنا پڑ رہا ہے وزیر اعظم نواز شریف آخر کریں تو کیا کریں۔ وہ چاہتے ہیں کہ 60 یا 70 لاکھ لوگوں کے لیے تقریباً پونے دو ارب لوگوں کی جانوں کو تو داؤ پر نہیں لگا سکتے دویم معیشت کی بیماری کا علاج بھی کرنا ہوگا یہ بات ہر صاحب بصیرت جانتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں کوئی اہم گفتگو ممکن نہ تھی بلکہ یہ گفتگو کا آغاز ہوسکتا ہے۔ غالباً وہ چاہتے ہیں کہ یورپین ورلڈ کے طرز پر علاقے کو سنواریں۔
کراچی سے جو سیلانی چلے وہ کھٹمنڈو پہ ٹھہرے علاقے میں ٹھہراؤ سکون اور بہتری آئے معیشت کی بحالی روابط کی بہتری امن کا پائیدان ہے۔ لہٰذا زیادہ توقعات آسان نہیں مگر بعض چینلوں نے امن و آشتی کو اپنے کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے جو صحافتی آداب کے خلاف ہے دوسری جانب جنگی جنون بھی پیدا کرنا اقوام کے خلاف سازش ہے۔ مگر پاک بھارت امن سے پہلے پاکستان کے اپنے شہروں میں امن ضروری ہے تاکہ بیمار معیشت صحت مند ہوسکے جون آنے کو ہے دیکھیں عوام کو کتنی کڑوی گولیاں مزید نگلنی پڑتی ہیں۔ بالکل اسی طرح پاک بھارت تعلقات کی بھی چند کڑوی گولیاں نگلنی پڑیں گی۔
فائر بندی کے بعد دونوں لیڈران زیادہ گفتگو نہ کرسکے ،کیونکہ ہماری بدقسمتی تھی کہ قائد اعظم جلد رحلت فرما گئے۔ بعد ازاں خان لیاقت علی خاں نہرو کے مقابل تھے اور عالمی میدان سیاست کے یہ بھی عظیم کھلاڑی تھے چونکہ روس بھارت کا بڑا حلیف تھا اس لیے لیاقت علی خان کو امریکا کی طرف سے جانا ہی پڑا اور خود کو امریکی عالمی جنگ جو سرد جنگ تھی معاہدہ وارسا اور معاہدہ نیٹو کی جنگ ۔ اس میں پاکستان امریکی عالمی مفادات کا ساتھی بنتا گیا۔
مگر جب امریکا نے 1952 میں پاکستان میں اپنے لیے ہوائی اڈے مانگے تو لیاقت علی خان نے انکار کردیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان کسی ایک ملک کا کاسہ لیس بن جائے مگر جل دہی ان کو اس خودمختاری کی سزا ملی اور سیاسی منظر نامے سے ان کو غائب کردیا گیا پھر آنے والوں نے بڈابیر کا ہوائی اڈا امریکی افواج کے حوالے کردیا۔ جہاں سے 1962 میں یوٹو (U2)اڑا اور روسی توپوں نے مار گرایا۔ پھر کیا تھا سرد جنگ میں پاکستان امریکا کا اتحادی قرار پایا اور 1970 کی جنگ میں بنگلہ دیش کرہ ارض پر ایک آزاد ملک بن کے ابھرا۔
کہاں کشمیر کی متوقع آمد کی بات تھی وہ تو گئی دور، رہ گئی بات مشرقی پاکستان کی یہ سانحہ بھارت کبھی تنہا نہ کرپاتا۔ روس کے کاندھوں پر یہ کامیاب ہوا۔ چونکہ روس اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ تھے اور بنگلہ دیش کی جنگ قومی آزادی کی جنگ تصور کی جاتی تھی اس لیے روس نے اپنے عالمی منشور کے تحت اس جنگ کی حمایت کی کشمیر پر بھارت کا کلیم (Claim) روسیوں نے مانا ۔باوجود اس کے کہ جوزف اسٹالین نے دو قومی نظریے کی حمایت کی مگر وقت گزرنے کے بعد روسیوں نے اس نظریے کی حمایت سے دستبرداری کا اعلان اور اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا۔ اور مذہب کو قوم کا درجہ دینے سے دوری اختیارکرلی اور بنگلہ دیش ان کو ایک جیتا جاگتا ثبوت مل گیا کہ ایک ہی خدا و رسول کو ماننے والے ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما تھے۔
اس لیے قوم کے لیے جو فارمولا سویت یونین نے بنایا تھا اس پر دو قومی نظریہ پورا نہ اترتا تھا۔ لہٰذا روس اور پاکستان کے مابین فکری خلیج وسیع تر ہوتی گئی اور جب افغانستان میں نورمحمد ترہ کئی کی قیادت میں کمیونسٹ حکومت قائم ہوئی تو امریکا نے بہ آسانی پاکستان کو اپنا حلیف بنالیا اور خوب استعمال کیا آخر کار روسیوں کی شکست اور پورے سویت یونین میں گلا سنوٹ کی تحریک نے روسی ریاستوں کو آزاد کردیا۔ روس کی عالمی سیاست سے واپسی اور کمیونسٹ نظریات کی عالمی پیمانے پر شکست ہوئی اور ہزاروں ایٹمی میزائل اور خلائی قوت ہونے کے باوجود وہ لخت لخت ہوگیا اور عالمی سیاست سے وہ غائب ہوگیا ۔
کشمیر پر اس کا کوئی موقف نہ رہا کیونکہ وہ اپنی ساکھ کھوچکا تھا اور نہ بھارت کی حکومت کا وہ اتنا حامی رہا۔ دویم بھارت کی سرمایہ دارانہ حکومت مغربی دنیا کی حاشیہ بردار ہوگئی روس کا اس سے محض تجارتی مفاد ہے یہ الگ بات رہی کہ بھارت کا ابتدائی ڈھانچہ جس پر اس کی معیشت کی بنیاد کھڑی ہے وہ روس کا تیار کردہ ہے مگر اب بھارت مغربی دنیا کا ایک رول ماڈل ہے جس کو اس وقت روس اور امریکا کی حمایت حاصل ہے۔ لہٰذا عالمی پیمانے پر بھارت ڈپلومیسی کی بنیاد پر عالمی رائے عامہ پاکستان کے خلاف ہموار کرچکا ہے اور کشمیریوں کی جنگ آزادی دنیا کی نظر میں دہشت گردی کی ایک شکل ہوکر رہ گئی ہے اور کشمیر کی جدوجہد پاکستان میں دہشت گردی اور مختلف فرقوں کا ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل نے کشمیر کی جنگ آزادی کو نسلی فساد اور منافرت کی جنگ کی شکل میں پیش کردیا ہے ۔
چنانچہ کشمیر میں بسنے والے لوگ بھی اس جنگ کے اصل مقاصد اور تشہیر کرنے میں ناکام رہے ہیں کشمیریوں سے اگر کوئی ذاتی ہمدردی اور حمایت موجود ہے تو وہ پاکستانی عوام ہیں کشمیر کی جنگ بھارت کے لیے تو آبی جنگ اور مخصوص جنگی مقاصد کی بہترین زمین ہے اسی لیے پاکستان اس کو شہ رگ اور بھارت اس کو اٹوٹ انگ کہتا ہے کشمیر کی مخصوص جنگی اہمیت کو دونوں ممالک اپنے اعتبار سے سمجھتے ہیں۔ لہٰذا تقسیم ہند سے آج تک دونوں ممالک حالت جنگ میں ہیں اور ایٹم بم اور اسلحہ جات اور فوجی اخراجات اسی وجہ سے اہمیت کے حامل ہیں۔ ایسی صورت میں دونوں ممالک کے اقتصادی حالات کیونکر بہتر ہوسکتے ہیں بھارت فی الحال اسی پر نازاں ہے کہ وہاں 60 فیصد مڈل کلاس پیدا ہوگیا ہے مگر وہ یہ بھول گیا کہ 40 فیصد غریب 60 فیصد امیروں پر اپنی حکمت عملی تنظیم، اتحاد سے ٹاٹا اور رئلائنس گروپ کو بندوق کی نوک پر جلد یا بدیر قابو کرلیں گے، چھتیس گڑھ، تلنگانہ، بہار، جھاڑکھنڈ میں ماؤ نواز حملہ آور گروپوں میں غریب و محروم طبقات شامل ہو رہے ہیں۔
غربت کا عفریت مختلف ملکوں میں مختلف رنگ میں عمل پیرا ہے۔ غرض بھارت چونکہ بڑا ملک ہے اس لیے وہ پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کرنے میں لگا ہے ، بغیر حملہ کیے وہ ان اہداف پر گامزن ہے، جس کو گجراتی قوم وانیے کی ٹکور کہتے ہیں اس کا مشاہدہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لیے حکومت نے کیا کیا کچھ کیا بہرحال ان زمینی حالات میں پاکستانی حکومت کیا کرسکتی تھی، یا تو وہ تنہا بیٹھ جائے اور اپنے ہر بارڈر کو غیر مستحکم کردے جیساکہ ابھی حلف برداری کی تقریب میں افغان صدر کرزئی نے فساد کی فضا پیدا کرنے کے لیے ایک شوشہ چھوڑا کہ افغانستان میں بھارتی قونصل خانوں پر حملے میں پاکستان ملوث ہے کہاں یہ ایک حلف برداری کی تقریب تھی۔
جس میں کرزئی نے اشتعال انگیز باتیں کیں دراصل افغان صدر ڈیورنڈ لائن کا شوشہ چھوڑنے کا عندیہ دے رہے ہیں ایسی صورت میں آخر پاکستانی حکومت کیا کرے۔ پاکستان کے محل وقوع اور جانے والے حکمرانوں نے جو معیار سیٹ کیے ہیں ان ہی میں رہتے ہوئے عمل کرنا پڑ رہا ہے وزیر اعظم نواز شریف آخر کریں تو کیا کریں۔ وہ چاہتے ہیں کہ 60 یا 70 لاکھ لوگوں کے لیے تقریباً پونے دو ارب لوگوں کی جانوں کو تو داؤ پر نہیں لگا سکتے دویم معیشت کی بیماری کا علاج بھی کرنا ہوگا یہ بات ہر صاحب بصیرت جانتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں کوئی اہم گفتگو ممکن نہ تھی بلکہ یہ گفتگو کا آغاز ہوسکتا ہے۔ غالباً وہ چاہتے ہیں کہ یورپین ورلڈ کے طرز پر علاقے کو سنواریں۔
کراچی سے جو سیلانی چلے وہ کھٹمنڈو پہ ٹھہرے علاقے میں ٹھہراؤ سکون اور بہتری آئے معیشت کی بحالی روابط کی بہتری امن کا پائیدان ہے۔ لہٰذا زیادہ توقعات آسان نہیں مگر بعض چینلوں نے امن و آشتی کو اپنے کاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے جو صحافتی آداب کے خلاف ہے دوسری جانب جنگی جنون بھی پیدا کرنا اقوام کے خلاف سازش ہے۔ مگر پاک بھارت امن سے پہلے پاکستان کے اپنے شہروں میں امن ضروری ہے تاکہ بیمار معیشت صحت مند ہوسکے جون آنے کو ہے دیکھیں عوام کو کتنی کڑوی گولیاں مزید نگلنی پڑتی ہیں۔ بالکل اسی طرح پاک بھارت تعلقات کی بھی چند کڑوی گولیاں نگلنی پڑیں گی۔