دہشت گردی کے خلاف پوری قوم متحد ہو

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم کی یکسوئی بہت ضروری ہے

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم کی یکسوئی بہت ضروری ہے (فوٹو: فائل)

سیکیورٹی فورسز نے ضلع شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں، آپریشن کے دوران شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد اہم دہشت گردکمانڈر سمیت پانچ دہشت گردوں کو جنم واصل کردیا، سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے زیر استعمال اسلحہ اورگولہ بارود بھی برآمد کیا۔

دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق سیکیورٹی فورسزکی جانب سے2023کے دوران ملک بھر میں 18736انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنزکیے گئے، ان آپریشنز کے نتیجے میں 566 دہشت گرد جہنم واصل کیے گئے جب کہ 5161 دہشت گردوں کوگرفتار کیا گیا، پاک فوج کے دو سو ساٹھ سے زائد افسران اور جوانوں سمیت تقریباً ایک ہزار سے زائد افراد نے وطن کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔

ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ دہشت گردی کی نئی لہر نے کروڑوں پاکستانیوں کوگہری تشویش میں مبتلا کردیا ہے، پاکستان پہلے ہی دہشت گردی کی وجہ سے ناقابل تلافی نقصان برداشت کر چکا ہے، ایک لاکھ سے زیادہ پاکستانی شہری شہید ہوئے، جن میں سول و عسکری افراد دونوں شامل ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو 100 بلین ڈالر سے زیادہ مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے سماج میں دہشت گردوں کے سہولت کار موجود ہیں، جو مختلف سیاسی اور مذہبی گروہوں کی شکل میں منظم ہیں جو کبھی کھلے عام اورکبھی بین السطور ان کے نظریات اوران کی سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ گروہ دہشت گردوں کے ذریعے پھیلائے ہوئے خوف سے فائدہ اٹھا کر اپنا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک تو یہ کھلے عام ان دہشت گردوں کے حق میں تھے پھر حالات کو دیکھتے ہوئے ان لوگوں کے لہجے میں مصلحتاً تھوڑا بہت فرق آگیا۔

اب یہ سر عام دہشت گردوں کے حق میں ریلیاں نکالنے اور پریس کانفرنس کرنے کے بجائے ایسے طریقے اور زبان استعمال کرتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ دہشت گردوں کو یہ اپنا اتحادی اس لیے بھی سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ ان کی پاکستان میں ثقافتی دہشت گردی میں ان کے معاون ہیں، یہ چونکہ ہر اس چیز پر حملہ کرتے ہیں جس میں اس دھرتی کی اپنی اوریجنل ثقافت، روایات یا کلچر کی کوئی نشانی باقی ہو۔ ان میں خانقاہوں، درگاہوں سے لے کر اسٹیج اور تھیٹر تک سب شامل ہیں۔ رقص و موسیقی سے لے کرآرٹ، فن وادب سب ان کے نشانے پر ہے۔

دشمن کو پہچاننا بھی مشکل ہے، اس کی وضع قطع، حلیہ و حال، زبان و بیان ہم سے مختلف نہیں۔ مزید مشکل یہ ہے کہ دشمن کو اندر سہولت کار بھی میسر ہیں، یہاں اسے مجاہد سمجھنے والے بھی ہیں۔ جب تک ملک میں دہشت گردی کو نظریاتی توانائی فراہم کرنے والے موجود ہیں، ان کی نگہداشت کرنے والی نرسریاں موجود ہیں جو انسانوں میں بارود بھرتی ہیں،ریاست کو یہ جنگ جیتنا بہت ضروری ہے۔

اس لیے ان فکری کمانڈروں، سہولت کاروں اور نرسریوں کا بندوبست بھی جنگی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے، جس مذہبی جوش و خروش سے یہ جنگجو اور کلچر بنایا گیا تھا، اسی جذبہ سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے، جن علمائے کرام نے جہادی کلچر کے فروغ کا فریضہ سرانجام دیا، وہی جہاد اور دہشت گردی میں فرق واضح کرسکتے ہیں۔ وہی بتا سکتے ہیں کہ جہاد کو فساد بنانے والوں نے کس کو فائدہ پہنچایا، ہزاروں معصوم لوگوں کو قتل کرنے والوں اور امن وامان کو برباد کرنے والوں نے کس کا ایجنڈا آگے بڑھایا۔

فساد کر نے والوں نے اسلام کی خدمت کی ہے یا اس کے اجلے اور حیات بخش تصورکو آلودہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ دنیا کی واحد ریاست جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی، ان جنگجوؤں کے ہاتھوں مسائل کا شکار ہو گئی ہے۔ ہمارے دین میں ہر انسان قابل احترام ہے، اس کی جان، اس کی عزت اور اس کا مال محترم ہے۔ اس کی رائے، اس کا مذہب، عقیدہ، رنگ و نسل کچھ بھی ہو، وہ محترم ہے، وہ محترم ہے۔ اسے مذہب کے نام پر کوئی نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا، اس کی جان، مال اور عزت سے کھیلا نہیں جاسکتا۔

طالبان نے افغانستان پر 2021 میں قبضہ کیا۔ پاکستان کو قوی امید تھی کہ طالبان کے دور اقتدار میں مغربی سرحد محفوظ رہے گی۔ انتہائی تشویشناک امر ہے کہ طالبان کے دور حکومت میں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں 60 فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔

تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد افغان سر زمین سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ کے بعد پاکستان کی تب سیاسی قیادت نے تحریک طالبان پاکستان کے 40 ہزار افراد کو پاکستان کے اندر آنے اور شمالی وجنوبی وزیرستان کے علاقوں میں قیام کی اجازت دے دی۔ عوام کی جان و مال کی حفاظت کے منافی اس فیصلے کا خمیازہ آج سب کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔


پاکستان کے عوام حیران ہیں کہ افغان پاکستان کے خلاف کیوں ہیں؟ پاکستان نے افغانستان کو روسی قبضے سے نجات دلائی۔ امریکا نے جب افغانستان پر قبضہ کیا تو پاکستان نے اپنے افغان بھائیوں کی انسانی بنیادوں پر امداد جاری رکھی۔ لاکھوں افغانوں کی پاکستان میں طویل عرصے تک مہمان نوازی کی۔

تحریک طالبان پاکستان خود کش حملوں کے لیے افغان سرزمین کو استعمال کر رہی ہے، اس کو بھارت کی سرپرستی اور مالی تعاون حاصل ہے۔ بھارت کی علانیہ حکمت عملی ہے کہ پاکستان کے اندرونی استحکام پرکاری ضرب لگائی جائے۔ تحریک طالبان کی خواہش ہے کہ قبائلی علاقوں پر اس کا قبضہ ہو جائے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ دہشت گرد ہمیشہ سیاسی افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

پاکستان میں امیر اور غریب کے درمیان فرق روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ غربت بیروزگاری اور مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔ بداعتمادی اور مایوسی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عوام کو اپنا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے، برین ڈرین غیر معمولی سطح پر پہنچ چکا ہے۔ غیر یقینی حالات ہمیشہ دہشت گردوں کے لیے سازگار ہوتے ہیں۔

دہشت اور خوف کا کھیل کھیلنے والے یہ لوگ سوویت یونین کے خلاف مغربی سرمایہ داری کی جنگ لڑنے کے لیے دنیا بھر سے جمع ہوئے۔ سوویت یونین اپنے اندرونی حالات اور گورباچوف کے آئیڈل ازم کی وجہ سے خود اپنی مرضی سے افغانستان چھوڑ کر چلا گیا، مگر ہم اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے کہ یہ سب ہمارا کیا دھرا ہے۔

ہم نے با آواز بلند یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ جہادی ہمارا عظیم اثاثہ ہیں، ان اثاثوں کی موجودگی میں ہمیں خود کوئی جنگ لڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سوچ کے زیر اثر ہم نے ان کو مزید منظم ہونے اور پھلنے پھولنے دیا۔ یہاں تک کہ یہ لوگ قدیم دیو مالائی کہانیوں کے خوفناک اور طاقتور جن بن گئے۔ یہ لوگ خود کش بمبار تیار کر کے ہم پر چھوڑنے لگیاور بندوقیں ہم پر تان لیں۔

اس کے جواب میں ہم ایک عرصہ تک ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے گریزکرتے رہے۔ یہاں تک کے ہم مزید مسائل کا شکار ہو گئے۔ یہ کھیل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہم دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کے علاوہ دہشت گردوں کی نرسریاں اورکارخانے بند نہیں کرتے۔ ان نرسریوں کی موجودگی میں آپ جتنے دہشت گرد ماریں گے اتنے ہی اور پیدا ہو جائیں گے۔

دہشت گردوں کے پیچھے بے شک غیر ملکی ہاتھ ہو، ان کو تربیت بھی دی جاتی ہو یا مالی وسائل مہیا کیے جاتے ہوں مگر ان لوگوں کے باقاعدہ سیاسی اور مذہبی نظریات ہیں جن کے بغیر وہ اس طرح کی کارروائیاں نہیں کرسکتے۔ کلچر اور روایت پر اس کھلے اور خود کش حملے میں یہ دہشت گرد رجعتی قوتوں کے قدرتی اتحادی ہیں۔ ان کے پیچھے ایک خاص مکتبہ فکر کی سوچ اور وسائل بھی شامل ہیں۔

سول اور عسکری قیادت کا غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں کو پاکستان سے واپس بھیجنے کا فیصلہ دانشمندانہ ہے جو پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں اور دہشت گردوں کے سہولت کار بن رہے ہیں۔ دہشت گردوں کوگلیمرائزکرنے کے بجائے بھیانک بنا کر پیش کیا جائے تو عوام انھیں 'ظلم اور باطل' کے خلاف برسر پیکار 'مجاہد' نہیں سمجھیں گے۔

ان دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لانے کی ضرورت ہے۔یہ جنگ پوری قوم کی جنگ ہے اس لیے سیاسی، مذہبی اور نظریاتی سطح پر تمام طبقات کو یکسو ہو کر اس کے خلاف میدان عمل میں آنا ہو گا۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم کی یکسوئی بہت ضروری ہے۔ غلطیوں سے سبق سیکھ کر پالیسی بنے گی تو کارآمد ہوگی۔ عسکری قیادت پاکستان کی آزادی سلامتی اور اندرونی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے انتہائی اہم کردار ادا کررہی ہے، ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ضرور فتح یاب ہونگے، یہ پوری قوم کا عزم ہے۔
Load Next Story