ریاستی جبر کا مقابلہ کرنے والے شہید 

سلام ہے اس پر جسے سو فیصد یقین تھا کہ اسے پاکستان پہنچنے پر قتل کر دیا جائے گا

www.facebook.com/shah Naqvi

آج سے 16برس پیشتر27دسمبر کو ایک ایسا ہولناک سانحہ پیش آیا کہ جس نے صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ سب صدمے سے ڈوب کر رہ گئے۔ سڑکیں ویران ہو گئیں۔ ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ دہشت خوف سراسیمگی کی فضا پورے ملک پر چھا گئی۔

یہ ایک عالمی سازش تھی جب کسی ملک کے مقبول لیڈر کو جو عوام کے دلوں میں بستا ہو قتل کیا جاتا ہے۔ عوام کے ہیروز کا قتل ایک شاک تھراپی ہے جو ان عوام کو دی جاتی ہے جو ظالم حکمران طبقات کے خلاف بغاوت پر اترآتے ہیں۔ اس طرح انھیں ایک ایسا نفسیاتی وذہنی صدمہ دیا جاتا ہے کہ وہ ایک مدت تک بغاوت نہ کر سکیں۔

سیکڑوں ہزاروں سال کی عالمی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں مل جائیں گی۔ پاکستان کی تاریخ میں قائد اعظم ، محترمہ فاطمہ جناح ، لیاقت علی خان ، ذوالفقار علی بھٹو،بے نظیر اس کی واضح مثالیں ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے طبقے سے بغاوت کرتے ہوئے ان عوام کو جاگیرداروں، سرداروں، سرمایہ داروں اور ظالم حکمران طبقات کے خلاف لاکھڑا کیا جو سیکڑوں سالوں سے عوام کو اپنا غلام بنائے ہوئے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو کا جرم تو ویسے بھی ناقابل معافی تھا کہ انھوں نے صرف مقامی سامراج سے ہی نہیں بلکہ عالمی سامراج سے بھی بغاوت کی تھی۔ جو ایک بہت ہی سنگین جرم تھا کیونکہ اس بغاوت کے اثرات مشرق وسطیٰ سے لے کر پاکستان بھارت تک پھیل جاتے۔ اس طرح پورے خطے سے امریکی سامراجی مفادات کا جنازہ نکل جاتا۔ یوں سوویت یونین کا بھی خاتمہ نہ ہوتا ۔ نہ ہم آج غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام دیکھتے۔ ماضی کا سوویت یونین آج کا روس آج بھی مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔

ایک طرف بھٹو تھا جو اپنے طبقے اشرافیہ کا غدار تھا۔ دوسری طرف ہم عوام میں ایسے بے شمار غدار پائے جاتے ہیں۔ جو ذاتی مفادات کے لیے اپنے طبقے سے غداری کرتے ہیں۔ ایسا آج سے نہیں گزشتہ سیکڑوں ہزاروں برس سے ہو رہا ہے۔

جب عوام بمقابلہ حکمران طبقات کی جنگ ہوتی ہے۔ ان غداروں کے چہروں سے نقاب اتر جاتے ہیں۔ چہرے چھپائے نہیں چھپتے، عوام سے تعلق رکھنے والے یہ لوگ نمک کی کان میں جا کر نمک بن جاتے ہیں۔ مفادات صرف مالی نہیں ہوتے۔ مفادات کی مختلف اشکال ہوتی ہیں۔ جو بظاہر نظر نہیں آتیں۔

میرے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جنھوں نے کمیونسٹ کہلانا تو پسند کیا لیکن عوام کی آزادی اور مفادات کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے ذرہ برابر بھی نہیں ہچکچائے۔ ہر طرح کا ہولناک تشدد برداشت کرتے ہوئے غریب بے بس مظلوم عوام پر اپنی جانیں قربان کر دیں۔


جب بے نظیر کا قتل ہوا تو اس وقت پاکستان اور ہمارے خطے میں دہشت گردی اپنے عروج پر تھی اور ان دہشت گرد گروہوں کا سرپرست امریکا تھا جس طرح وہ آج دہشت گرد اسرائیل کا سرپرست بنا ہوا ہے۔ افغانستان میں امریکی جنگ سے پورے خطے میں دہشت گردی کا لاوا پھوٹ پڑا۔

دہشت گردی کے اس ہتھیار کو امریکا کئی دہائیوں سے مسلسل استعمال کر رہا ہے پاکستان اور عرب ریاستوں پر اپنا ایجنڈا مسلط کرنے کے لیے ۔ اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس نے بے نظیر کو جان کی حفاظت کی گارنٹی دی تھی لیکن ہوا اس کے برعکس کہ انھیں پاکستان بلا کر قتل کروا دیا گیا کیونکہ وہ خطے میں امریکی ایجنڈے پر عملدرآمد میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی تھیں، اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ۔بے نظیر بالکل صحیح سمجھتی تھیں کہ جب تک پاکستان اور خطے میں دہشت گردی ہے دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔

دہشت گردی کے خاتمے سے ہی جمہوریت پنپ اور مضبوط ہو سکتی ہے۔ اس طریقے سے ہی امیر اور غریب کے درمیان فرق کم اور دنیا سے غربت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ جمہوریت کی کمزوری دہشت گردی کے تسلسل میں پنہاں ہے۔ حقیقی جمہوریت امریکا اور مقامی سامراج کے لیے ایک ڈرائونا خواب ہے۔ اس طرح امریکا کا پاکستان پر بالواسطہ قبضہ ختم ہوتا ہے۔

بے نظیر کہتی تھیں ہمیں معلوم ہے کہ کیسے زندہ رہنا اور کیسے مرنا ہے۔ تاریخ شہیدوں سے عبارت ہے۔ تاریخ کا تانابانا انقلاب کے دھاگوں سے بنا جاتا ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کے بچے اس تکلیف دہ عذاب سے بچ سکیں جو انھوں نے اپنے والد کی قید اور قتل کی صورت میں جھیلا تھا لیکن آخر کار وہ بھی سامراجی کارندوں کے ہاتھوں قتل ہو گئیں۔

سلام ہے اس پر جسے سو فیصد یقین تھا کہ اسے پاکستان پہنچنے پر قتل کر دیا جائے گا لیکن پھر بھی ان کی واپسی نے مہیب خطرات میں گھرے پاکستان کو بچا لیا۔ بے نظیر کس قدر حساس تھیں کہ ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی پھانسی پر عملدرآمد سے قبل کہا کرتے کہ میں فکر مند ہوں کہ میری موت کا صدمہ میری بیٹی کیسے برداشت کرے گی کیونکہ وہ تو بچپن میں اپنے پالتو پرندے کی موت پر کئی روز روتی رہی۔

تفصیلات میں جائے بغیر جو خود بڑی ہولناک ہیں ایک نہتی عورت نے ضیا و مشرف آمریت، دو بھائیوں کے پراسرار قتل اور اپنے شوہر کی گیارہ سالہ اسیری کی شکل میں ،اکیلے ہی 30سال ریاستی جبر کا مقابلہ کیا جسکا آغاز اس وقت ہوا جب ان کی عمر صرف24سال تھی۔

پاکستان آنے سے پہلے امریکا میں دوران سفر طیارے کی میزبان نے جب انھیں تندور کی تازہ کوکیز پیش کیں تو انھوں نے پہلے تو ڈائٹنگ کی وجہ سے انکار کیا پھر کہا چلو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مجھے تو چند مہینوں میں مر ہی جانا ہے۔

سلام ہے عالمی تاریخ کے ان تمام شہیدوں پر جنھوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں ریاستی جبر قہر کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں لیکن عوام دشمن حکمرانوں کے سامنے سر نہیں جھکایا۔
Load Next Story