کارکردگی پر ووٹ نہ ملنے کے شکوے

پی پی کی پالیسیوں کی وجہ سے ایم کیو ایم وجود میں آئی تھی اور اس نے بھی اقتدار میں صرف اپنے کارکنوں کو ہی نوازا


Muhammad Saeed Arain January 01, 2024
[email protected]

تین بار منتخب ہونے والے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اس بار اپنے ہٹانے والوں سے نہیں بلکہ عوام سے شکوہ کیا ہے کہ وہ اچھی کارکردگی دکھانے والوں کو ووٹ نہیں دیتے۔ میں کراچی اور چترال والوں سے یہ شکایت کروں گا۔

سابق وزیر اعظم نے کارکردگی پر ووٹ نہ ملنے کی شکایت کی ہے وہ کافی حد تک درست بھی ہے۔ ایسی شکایت ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی والوں سے جماعت اسلامی کو بھی ہے جسے کراچی کا بلدیاتی اقتدار میئر عبدالستار افغانی اور سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں ملا تھا اور جماعت اسلامی کے تینوں دور جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف کے تھے اور کراچی میں ایم کیو ایم بننے کے بعد جب بھی ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اسی نتیجے میں کراچی میں جماعت اسلامی کو دو بار اور ایم کیو ایم بننے سے قبل 1979 میں جماعت اسلامی کو اپنا میئر منتخب کرانے کا موقعہ ملا تھا۔

1987 میں ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات میں فاروق ستار کو میئر منتخب کرایا تھا اور ان سے قبل 8 سال میں جماعت اسلامی کے میئر عبدالستار افغانی واحد میئر تھے جو دو بار منتخب ہوئے تھے۔

ایم کیو ایم کے قیام کے بعد پہلی بار فاروق ستار 2001 میں ضلعی نظام میں ایم کیو ایم کے الیکشن میں حصہ نہ لینے سے نعمت اللہ خان سٹی ناظم بنے اور ان کے دور میں کراچی میں ترقیاتی کام بھی ہوئے بلکہ انھوں نے ہی کراچی کی ترقی کا روڈ میپ دیا تھا اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مالی مدد کے بغیر بھی میئر کراچی نے اچھی کارکردگی دکھائی تھی اور کارکردگی ہی کی بنیاد پر جماعت اسلامی کو 2005 کے ضلعی انتخابات میں قوی امید تھی کہ کراچی والے جماعت اسلامی کے یوسی ناظمین کو ووٹ دیں گے مگر ایسا نہیں ہوا کیونکہ ایم کیو ایم نے 18 سال بعد بلدیاتی الیکشن میں حصہ لے کر سید مصطفیٰ کمال کو سٹی ناظم کراچی منتخب کرا لیا تھا جنھیں جنرل پرویز کی مکمل حمایت اور حکومتی مالی مدد بھی ملی تھی اور جماعت اسلامی اپنا ایک ٹاؤن ناظم بھی منتخب نہ کرا سکی تھی۔

جنرل ضیا الحق کے دور میں تین بار اور مشرف دور میں دو بار بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے۔ حیدرآباد میں 1979 میں سید وصی مظہر ندوی اور احد یوسف میئر حیدرآباد منتخب ہوئے تھے اور دونوں کے دور میں حیدر آباد میں ترقیاتی کام بھی ہوئے مگر دونوں اپنی اچھی کارکردگی کے باوجود منتخب نہ ہو سکے تھے۔

سکھر میں اچھی کارکردگی کے باعث 1997 میں میئر منتخب ہونے کے بعد اسلام الدین نے بعد میں اپنی جگہ اپنے بھائی نور الدین شیخ کو میئر منتخب کرا لیا تھا اور خود ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔

اچھی کارکردگی کے باوجود انتخابات میں ناکامی کی ایک مثال میرے اپنے شہر شکار پور کی ہے جہاں پی پی کے بائیکاٹ کے باعث عبدالستار شیخ چیئرمین بلدیہ شکار پور منتخب ہوئے تھے اور میں بھی سٹی کونسلر منتخب ہوا تھا۔

عبدالستار شیخ غیر سیاسی اور کاروباری شخصیت اور سومرو گروپ سے تعلق رکھتے تھے جن کے چار سالہ دور میں شکارپور میں ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے جو خود بھی محنتی اور اچھی شہرت کے مالک تھے مگر اچھی کارکردگی کے باوجود وہ 1997 میں تین حلقوں سے کونسلر کا انتخاب لڑے مگر پیپلز پارٹی کے الیکشن میں حصہ لینے کی وجہ سے ایک حلقے سے بھی کونسلر منتخب نہ ہو سکے تھے۔

2005ء کے ضلعی حکومتوں کے انتخابات میں ایم کیو ایم نے سید مصطفیٰ کمال کو سٹی ناظم کراچی منتخب کرایا جنھیں جنرل پرویز مشرف کا بھرپور تعاون اور وفاقی فنڈ ملا اور ان کے دور میں کراچی کو ترقیاتی کاموں اور مصطفیٰ کمال کی دن رات کی محنت کے باعث کراچی دنیا کے 13 میگا سٹیز میں شامل کیا گیا۔

ضلعی حکومتوں کے بااختیار نظام میں نعمت اللہ خان اور مصطفیٰ کمال کی نظامت میں کراچی میں ریکارڈ ترقی ہوئی جو 2008 میں پیپلز پارٹی کی سندھ اور وفاقی حکومتوں کو پسند نہ آئی اور پی پی کی سندھ حکومت نے 2009میں جنرل مشرف کا بہترین نظام ختم کرکے سندھ کو بے اختیار اور کمزور بلدیاتی نظام دیا جو اب بھی موجود ہے۔

قیام پاکستان کے 76 سالوں میں جنرل ایوب خان کے دور کو ملکی تاریخ میں صنعتی اور مواصلاتی ترقی کا بہترین دور کہا جاتا ہے۔ جنرل ایوب سیاسی شخصیت نہیں فوجی سربراہ تھے جن کے دور میں پاکستان متحدہ پاکستان تھا جس کی دنیا میں عزت تھی۔ ملک میں مہنگائی و بے روزگاری تھی نہ دہشت گردی مگر جمہوریت کے لیے ان کے خلاف ملک گیر تحریک چلی۔ ان کے وزیر خارجہ نے بھی وزیر اعظم بننے کے لیے ملک کو جمہوریت کے ثمرات کا خواب دکھایا تھا۔

آج ملک میں 15 سالوں سے کسی آمر کی نہیں جمہوریت کا نام استعمال کرنے والوں کی حکومت رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر الیکشن لڑیں گے۔ کیا دس سال پہلے کی پی پی کی وفاقی حکومت جس نے ملک کو اندھیروں میں دھکیل دیا تھا جس کے لیے ان کے بعد کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے پی پی دور کے اندھیرے دور کیے۔

سندھ میں پی پی کی 15 سالہ حکومت کی کارکردگی تو یہی نظر آ رہی ہے کہ سندھ کے تمام الیکٹ ایبل وڈیرے، پیر، جاگیردار اکثر پیپلز پارٹی میں ہیں وہی الیکشن لڑیں گے جو پی پی حکومت کی کارکردگی پر نہیں ذاتی اثر و رسوخ پر اپنے ماتحتوں سے ووٹ طلب کریں گے اور سندھی ووٹروں کی اکثریت انھیں بھٹو خاندان سے محبت میں ووٹ دے گی، کارکردگی پر نہیں اور سندھ میں اردو بولنے والے بھی ایم کیو ایم کی کارکردگی پر نہیں بلکہ حق پرستوں کو پی پی حکومت کی شہری علاقوں سے ناانصافیوں اور نظر انداز کیے جانے پر ووٹ دیں گے جس کی ذمے دار سندھ حکومت ہے جس کی کارکردگی دیہی سندھ کو ترجیح دینا ہے جس نے اپنوں ہی کو نوازا۔

پی پی کی پالیسیوں کی وجہ سے ایم کیو ایم وجود میں آئی تھی اور اس نے بھی اقتدار میں صرف اپنے کارکنوں کو ہی نوازا۔ سندھ میں اردو سندھی ووٹ کی تقسیم کی ذمے دار پیپلز پارٹی ہے۔ نواز شریف نے بھی پی پی کی طرح کراچی والوں سے انصاف کیا نہ لاہور کی طرح کراچی کو اپنا سمجھا۔ باقی جو کسر تھی وہ پی ٹی آئی حکومت نے پوری کردی اس لیے صرف کراچی میں صرف امن قائم کرنا اور چترال میں ٹنل بنانا کافی نہیں تھا وہاں دیگر مسائل پر توجہ دی ہوتی تو کارکردگی شمار ہوتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں