اگر مریم نواز جیت گئیں
آئندہ برس کے اوائل میں ہونے والے انتخابات کا مستقبل کیا ہے؟ سوال ایک ہے اور جواب بہت سے
آئندہ برس کے اوائل میں ہونے والے انتخابات کا مستقبل کیا ہے؟ سوال ایک ہے اور جواب بہت سے۔
ایک سینئر اور بہت زیادہ باخبر صحافی نے حکم لگایا ہے کہ ملک کے آئندہ انتخابات متنازع ترین ہوں گے۔دوسری بات یہ کہی کہ ان انتخابات کے نتیجے میں کمزور ترین حکومت وجود میں آئے گی۔
ایک اور بات یہ کہی گئی کہ ان انتخابات کے نتیجے میں پاکستان میں جمہوری روایت مزید کمزور ہو جائے گی۔ایک نکتہ یہ بیان کیا کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت صرف جمہوری آزادیوں کا گلا نہیں گھونٹ دے گی بلکہ صحافتی آزادیاں بھی خواب و خیال ہو جائیں گی۔
یہ بات ایک ایسے صحافی کی زبان سے ادا ہوئی ہے جن کا صحافتی پس منظر شاندار ہے اور وہ اپنے پیشہ دارانہ فرائض کی ادائی کے دوران میں کئی بار آزمائشوں سے دوچار بھی ہوئے ہیں۔ کیا واقعی جیسے وہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں، آنے والے انتخابات متنازع ہوں گے اور ملک کا جمہوری مستقبل خطرے سے دوچار ہو چکا ہے؟
ان خدشات کا جائزہ لینا اور شواہد کی روشنی میں ان کا تجزیہ کر کے کسی نتیجے پر پہنچنا ضروری ہے۔ کیا انتخابات کے ممکنہ نتائج کے بارے میں تشویش بھری یہی ایک بات سامنے آئی ہے یا اس ضمن میں کچھ اور سوالات بھی زیر بحث ہیں۔
چند برس ہوتے ہیں، ایک صاحب نے لکھا تھا کہ اگر فلاں انتخابات میں میں فلاں جماعت جیت گئی اور فلاں جماعت کی حکومت نہ بن سکی تو میں سمجھوں گا کہ اس ملک کا کوئی مستقبل نہیں۔ میں اس ملک سے ہجرت کر جاں گا۔ انتخابات تو اپنے وقت پر ہو گئے لیکن کوئی شرط پوری نہ ہو سکی۔
یعنی ان کی خواہش کے مطابق ان کے غضب کی شکار سیاسی جماعت شکست سے دوچار ہوئی اور نہ ان کی پسندیدہ جماعت کی قسمت جاگی۔ اس کے بعد لوگوں نے بلاوجہ یہ توقع باندھ لی کہ اب فلاں اور فلاں ڈھول تاشوں کے اعلان فرمائیں گے کہ ہم نے اس ملک سے ہجرت فرما لی لیکن ظاہر ہے کہ یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
اب اسی حلقے کی طرف سے ایک دل چسپ دعوی سامنے آیا ہے اور یہ کہا ہے کہنے والے نے کہ اگر مریم نواز شریف فلاں حلقے سے انتخاب میں کھڑی ہو جاتی ہیں اور ان کی ضمانت ضبط نہیں ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہے اور انتخاب میں دھاندلی نہیں دھاندلا ہوا ہے۔ اب واقع یہ ہے کہ مریم نواز میدان میں موجود ہیں۔ وہ جن علاقوں کی نشان دہی کر رہے ہیں، وہ علاقے بھی مریم نواز کے حلقہ انتخاب میں موجود ہیں اور انتخابی جائزوں کے مطابق مریم کی کامیابی کے امکانات بھی واضح ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کی کامیابی داغ دار ہے۔ انتخاب میں دھاندلی ہوئی ہے۔ اس دھاندلی کا ثبوت کیا ہے؟ اس کا ثبوت یہ ہے کہ صحافت کے شعبے میں کئی دہائیوں سے بلند آواز میں بات کرنے، جیسی جلی کٹی بات وہ کہیں، اسے معیار حق قرار دینے اور اختلاف کی پر آواز کو کچل دینے کے خواہش مند برگزیدہ ہستی نے چوں کہ یہ کہہ دیا ہے، اس لیے یہی درست ہے۔
ہماری صحافت کی قسمت بھی خوب ہے، کوئی صحافت کے اسرار و رموز کو سمجھتا ہو یا نہ سمجھتا ہو، اس کی رائے میں توازن ہو یا نہ ہو لیکن اس میں یہ خوبی بحمدللہ موجود ہے کہ لکیر کے فقیر پیرو کاروں اور خدا واسطے کے بیریوں کو گمراہ کیسے کرنا ہے اور اس ملک کے مستقبل سے کھیلنے کے خواہش مندوں کو حقیقت سے دور کر کے اس کے ہاتھ میں پروپیگنڈے کا ہتھیار کیسے دینا ہے۔ اس طرز عمل کا مقصد کیا ہے؟
یہ سمجھنے کے لیے ایسے لوگوں کے انداز فکر سمجھنا ضروری ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو گزشتہ بیس بائیس برس سے اس ملک میں کھلم کھلا آئین کا مذاق اڑاتے رہے ہیں اور انھوں نے جمہوریت کو گالی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اس کے باوجود یہ بزرگ ان لوگوں کی آنکھ کا تارا ہیں جو کل تک یک جماعتی آمریت کے لیے ہاتھ پاں مار رہے تھے اور آج جب وہ خود اپنے شکنجے میں میں پھنس چکے ہیں تو جمہوریت کی دہائی دے رہے ہیں لیکن یہ کیسی جمہوریت ہے جس کی وکالت کرنے والوں کا نہ کوئی اپنا جمہوری تعارف ہے اور نہ آج ان کی حمایت میں وہ جس قسم کے دلائل کا سہارا لے رہے ہیں، وہ جمہوری ہیں۔
صورت حال کا ایک پہلو تو یہ ہے۔ سیاسی بساط پر اس غیر منطقی اور غیر حقیقی طرز عمل کے علاوہ دوسرا منظر ان سوالات کا ہے جن کی تفصیل ابتدائی سطور میں بیان کی گئی ہے۔ اس نوعیت کے سوالات اٹھائے والے دانش وروں کا تعلق اس قبیل کے بزرگوں سے نہیں جو اپنی بات کی ابتدا ہی اس دعوے سے کرتے ہیں کہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا۔ ان لوگوں کا جمہوری تعارف شان دار ہے۔
آمریت اور آزادی اظہار کی طویل جدوجہد کے دوران میں انھوں قربانیاں بھی دیں اور ہمیں وہ اسی جانب کھڑے دکھائی دیے، تاریخ جسے درست قرار دیتی ہے۔ کیا سبب ہے کہ آج اگر ان کی دلیل بھی غیر جمہوری مذاق رکھ ے والے خود پسندوں جیسی دکھائی دیتی ہے؟
اس طرح کی صورت حال میں سادگی کے ساتھ نتائج اخذ کرنے والے سادہ لوح سیاسی جاندار نہایت آسانی کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ اچھا اگر ان جیسے اچھے لوگ یہ بات کہہ رہے ہیں تو پھر یہی بات اچھی ہوگی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارے یہاں سیاسی مغالطے ہمیشہ اسی طرح پیدا ہوئے۔ مثلا موجودہ دور میں ایک مغالطہ یہ ہے کہ اگر سیاست میں سب فریقوں کے لیے برابر کے مواقع پیدا کرنے ہیں تو آسان طریقہ یہ ہے کہ نواز شریف اور عمران خان کو ایک صف میں کھڑا کر دو۔
ایسا مؤقف اختیار کرتے ہوئے ہم بھول جاتے ہیں کہ دونوں افراد کے کردار اور مزاج میں بنیادی فرق ہے۔ جسے ڈان لیکس اور دیگر وجوہات کی بنیاد پر مودی کا یار قرار دیا گیا، وقت نے ثابت کیا کہ ،مؤقف اسی کا درست تھا۔ بعد میں ان ہی عناصر نے جو انھیں مودی کا یار قرار دیا کرتے تھے، وہی بات کہنے لگے جو نواز شریف اس وقت کہا کرتا تھا جسے اس وقت اختیار کر لیا جاتا تو پاکستان بعد میں نہ بدترین سفارتی تنہائی کا شکار ہوتا اور نہ ایسے اقتصادی مسائل پیدا ہوتے جن کی وجہ سے آج ہماری چیخیں نکل رہی ہیں۔
پاکستان جب اس انجام کو پہنچ چکا تو اس بات کی یاد دہانی نہ نواز شریف نے کرائی اور ان کے کسی دوست، ہم خیال اور ان کے کسی سیاسی ساتھی نے بلکہ یہ سب کچھ تسلیم کرنے والے وہی تھے جو نواز شریف کو مودی کا یار کہلوانے کے جتن کیا کرتے تھے۔ ان لوگوں کے اعتراف حقیقت خود ان کی اپنی زبانی سننا ہو تو اسلام آباد سیکیورٹی ڈائیلاگ میں ان کی تقریر ایک بار پھر سن لیں۔ اس کے مقابلے میں آج جنھیں نواز شریف کے برابر کھڑا کرنے کی خواہش کی جا رہی ہے، وہ وہی ہیں جنھوں نے معیشت کو ایک منصوبے کے تحت بگڑنے دیا تاکہ ان کے من کی مراد پوری ہو سکے۔
یاد دہانی کے لیے گزارش ہے کہ نو مئی کی بغاوت تو بعد میں ہوئی جس کے تحت دفاعی اداروں میں بغاوت کے ذریعے دفاعی قیادت کو تبدیل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ اس سے قبل منصوبہ یہ تھا کہ معیشت اتنی خراب کر دی جائے کہ دیوالیہ ہونے کی صورت میں عالمی ادارے مداخلت کر کے آپ کے دفاعی اثاثے اپنی تحویل میں لینے پر مجبور ہو جائیں۔
عمومی سیاسی صورت حال میں یقینا اسی قسم کے عمومی اقدامات اور ماحول درکار ہوتا ہے جن کی سفارش کی جارہی ہے لیکن حالات اگر ویسے ہوں جن کے شواہد ملتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ معمول کا ماحول نہیں ، غیر معمولی بلکہ سنگین صورت حال ہے۔ ایسے غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس قسم کے حالات میں اگر مجرموں کی اپنی صفوں سے محب وطن عناصر اٹھ کر معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیں تو الگ بات ہے ورنہ قومی جرائم سے صرف نظر کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ خلاصہ کلام یہ کہ ملک ایسے سنگین حالات سے دوچار ہو اور ہمارے اہل دانش نہایت سادگی کے ساتھ دو جمع دو چار کرنے پر مصر ہوں تو معلوم نہیں اسے ان کی سادگی کہا جائے گا یا ملک و قوم کی قیمت پر مفرد بات کہنے کا شوق۔