کچھ زبان دانی کے بارے میں

ہمارے بچپن میں محلّوں کے تھڑوں پر کچھ ’’باؤجی‘‘ لوگ بآواز بلند اخبار پڑھا کرتے تھے۔۔۔

nusrat.javeed@gmail.com

پاکستان کے وزیر اعظم اس ہفتے کے آغاز میں جب دلّی میں تھے تو ہمارے کچھ ٹیلی ویژن والوں نے اپنی اسکرینوں پر دونوں ملکوں کے ''تجزیہ کاروں'' کے درمیان مکالمے کا اہتمام بھی کیا۔ دونوں اطراف کے درمیان گفتگو تو ہرگز نہ ہو پائی۔ حب الوطنی کے بے تحاشہ جذباتی اظہار ضرور دیکھنے کو ملے۔ مکالمہ اصل میں ٹاکرا بن گیا۔ ایک دوسرے کو الزامات کے شور میں دبانے کا مقابلہ۔ ایسے چند پروگرام دیکھتے ہوئے لیکن مجھے دریافت یہ بھی ہوا کہ بھارتی تجزیہ کار شُدھ ہندی میں بات کریں تو پاکستانی سمجھ نہیں پاتے۔

ہمارے لوگ پھر بھی شاید اس لیے اپنی بات بھارتی لوگوں تک پہنچا پائے کہ بجائے خالص اُردو کے وہ خارجہ اور دفاعی امور کا تذکرہ کرتے ہوئے زیادہ تر انگریزی اصطلاحات استعمال کرتے رہے۔ ہو سکتا ہے اُردو زبان کو خالص رکھنے کی لگن میں مبتلا لوگوں کو یہ بات پسند نہ آئے۔ مگر ابلاغ کا ایک ادنیٰ طالب علم ہوتے ہوئے میں نے اسے اُردو زبان کی طاقت سمجھا۔ آخر کو یہ لشکر کی زبان ہے۔ بات سمجھانے کو کسی اور زبان میں موجود الفاظ کو اپنانے سے ہرگز نہیں گھبراتی۔ عربی، ترکی اور فارسی کے بعد اگر اس نے انگریزی کو بھی ابلاغ میں آسانی کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے تو اس میں برائی کیا ہے۔

اُردو زبان تو خیر بقول داغؔ ''آتے آتے آتی ہے''۔ بھارت اور پاکستان کی پنجابی بھی اب ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن رہی ہے۔ 2012ء میں دو دن کے لیے امرتسر گیا تو بازار میں کسی مشکل کا سامنا نہ ہوا۔ ہونا بھی نہیں چاہیے تھا کہ امرتسر مشکل سے لاہور سے صرف آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ بہت دِقت مگر اس وقت ہوئی جب کچھ ادبی اور ثقافتی تقریبات میں حصہ لینے کا موقعہ ملا۔

پنجابی ان تقریبات کی زبان تھی۔ ان میں چند موضوعات پر بھارتی دانشوروں نے جو مقالے پڑھے ان میں سے اکثر میری سمجھ میں نہ آئے۔ حتیٰ کہ ایک صاحب جنہوں نے شیخوپورہ کے قریبی جنڈیالہ کے وارث شاہ کی شان میں جو کچھ فرمایا اس کا صرف 50 فیصد ہی میری سمجھ میں آیا۔ اسی تقریب سے لوٹنے کے بعد میں نے اس کالم میں اس خدشے کا اظہار کر ڈالا تھا کہ شاید لاہور اور امرتسر میں پیدا ہو کر جوان ہونے والی ہماری آیندہ نسلوں کو ایک دوسرے سے ''پنجابی'' میں گفتگو کرتے ہوئے بھی کسی مترجم کی ضرورت محسوس ہوا کرے گی۔

پاکستان اور بھارت میں پنجابی یا اُردو/ہندی میں مکالمے سے کہیں زیادہ فکر لیکن مجھے اب اس بات پر ہو رہی ہے کہ میں اس کالم میں جو الفاظ لکھتا ہوں وہ ہمارے ہی قارئین کی اکثریت کو سمجھ آتے ہیں یا نہیں۔ کسی بھی اخبار نویس کے لیے یہ ایک بہت ہی اہم سوال ہے۔ اخبار پڑھنے کے لیے تھوڑا بہت خواندہ ہونا یقینا ضروری ہے مگر بالآخر اخبار بھی ماس میڈیا کا ایک حصہ ہے۔ اس میں لکھی تحریر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو فوراََ سمجھ آ جانا چاہیے۔


ہمارے بچپن میں محلّوں کے تھڑوں پر کچھ ''باؤجی'' لوگ بآواز بلند اخبار پڑھا کرتے تھے۔ اس فری سروس کی بدولت قطعی اَن پڑھ لوگوں کو بھی پتہ چل جاتا کہ ان دنوں خبروں میں کن مسائل اور چیزوں کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ مجھے یاد ہے 1980ء کے مارچ میں برطانیہ کے ایک مشہور کالم نگار سے میری ملاقات ہوئی تو میں اس سے اچھی تحریر کے بارے میں Tips لینے میں مصروف رہا۔ باتیں تو اس نے بہت ساری بتائیں لیکن جو بات میں اب تک نہیں بھول سکا وہ اس کا اصرار تھا کہ کسی اخبار کا سب سے کامیاب لکھاری وہ ہوتا ہے جس کی تحریر پڑھتے ہوئے کوئی قاری کسی بھی مقام پر لغت سے رجوع کرنے پر خود کو مجبور نہ پائے۔

مجھے ہرگز خبر نہیں کہ میری تحریر اس کالم نگار کے بتائے معیار پر پورا اُترتی ہے یا نہیں۔ مگر یہ کالم لکھنے کی صبح مجھے ایک نوجوان قاری کی ای میل دیکھنا پڑی۔ میں نے ایک کالم میں ''انبوہ بیپر (Beeper) فروشاں'' لکھ ڈالا تھا۔ قواعد کے اعتبار سے یہ ایک بودہ فقرہ تھا کہ میں نے انبوہ اور فروشاں والے فارسی الفاظ کے درمیان انگریزی کا Beeper ٹھونس دیا۔ Beeper کو فارسی میں تو دور کی بات ہے مجھے آج تک پتہ نہیں چل سکا کہ اُردو میں کیا کہا جا سکتا ہے۔ ''صدا'' کا لفظ لکھو تو شاید خبر کی جگہ فقیر کی صدا کی طرح سنائی دے گی۔ ویسے بھی ڈنگ ٹپاؤ کالم نگاروں کے پاس وقت کی ہمیشہ قلت ہوتی ہے۔

فصیح زبان لکھنے کی مشقت سے گزرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ مجھے ای میل بھیجنے والے نے ''انبوہ'' کا مطلب پوچھا۔ اس کی مہربانی۔ میں نے شکریے کے ساتھ اس کو بتا دیا کہ ہجوم۔ مگر اسے اپنا جواب بھیجنے کے بعد خوفزدہ ہو کر سوچنے لگا کہ نہ جانے کتنے لوگوں کو نجانے کتنی بار میرے نجانے کتنے استعمال شدہ الفاظ سمجھ میں نہ آئے ہوں گے۔ ایسا سوچتے ہوئے مجھے یہ بھی یاد آ گیا کہ ابھی تک میں چند موضوعات پر کیوں نہیں لکھ پایا ہوں۔ صرف اس وجہ سے کہ میں ان میں جن افراد اور ان کے پیشوں کا ذکر کرنا چاہتا تھا شاید آج کے قارئین انھیں سمجھ ہی نہ پائیں۔

لاہور ریلوے اسٹیشن سے دائیں ہاتھ مڑیں تو نولکھا تھانے سے گزرتے ہوئے آپ کے دائیں ہاتھ دو موریہ اور ایک موریہ پُل آئیں گے۔ آخری پل کے سامنے آپ بائیں ہاتھ مڑیں تو لاہور کے بارہ دروازوں اور ایک موری والے پرانے لاہور کو گھیرے میں لیتا سرکلر روڈ آ جاتا ہے۔ اس پر چلتے رہیں تو دہلی دروازے سے پہلے یکی دروازہ ہے۔ اس دروازے کے شروع میں ایک مزار ہے۔ یہ ذکی پیر کی قبر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یکی دروازہ ان کے نام پر ہے جو ذکی سے یکی ہو گیا۔ یہ پیر صاحب کسی جنگ میں لڑتے لڑتے مارے گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے ان کا سر کٹا۔ مگر کٹے سر کے باوجود ان کا دھڑ تلوار گھماتا گھماتا کافی دور جا کر زمین پر گرا۔ یکی دروازے کے منہ پر جو مزار ہے وہاں ان کا سر دفن ہے۔

مجھے اس مزار سے زیادہ اس کے انواح میں موجود کچھ دکانوں کے بارے میں لکھنا تھا۔ جہاں ایک بڑے مزے دار کردار ''پھجاّ نال بند'' بیٹھا کرتا تھا۔ پھجاّ تو ظاہر ہے اصل میں فضل دین تھا اور نال بند اصل میں نعل بند۔ اب نعل عربی کا لفظ ہے۔ لغوی معنی اس کے ہیں جوتا یا پاپوش۔ مگر یہ نعل جس کا میں ذکر کر رہا ہوں سرکلر روڈ پر تانگوں میں جتے گھوڑوں کے پاؤں میں میخوں سے ٹھونکی جاتی تھی۔ لوہے کے ایک سرخ ٹکڑے کو دہکتی آگ والی بھٹی سے نکال کر مسلسل ٹھونک کر انگریزی حرف "U" والی صورت دینے کے بعد اس نعل کو پانی کی بالٹی میں پہلے ٹھنڈا کیا جاتا اور پھر گھوڑوں کے پاؤں میں اسے ٹھونکنے کا عمل شروع ہوتا۔

میں پھجّے کا ذکر نعل بندی کے پیشے کا تذکرہ کیے بغیر کر ہی نہیں سکتا۔ مگر یہ ذکر ابھی تک اس لیے نہیں کر پایا کہ میرے قارئین کی اکثریت کو شاید اس پیشے کی بابت علم نہیں ہو گا۔ قارئین کی بات تو چھوڑیں مجھے خود گھنٹوں لگے اس لفظ کو یاد کرنے جو اس چھوٹے تالاب نما سہولت کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جو متمول لوگ لاہور کے دروازوں کے باہر کسی گھنے درخت کے نیچے گھوڑوں کے لیے پینے کے پانی کو فراہم کرنے کے لیے بنوایا کرتے تھے۔ کم از کم 20 افراد کو فون کرنے کے بعد بھی اس کا نام معلوم نہ کر پایا اور بالآخر میرے اپنے ہی ذہن میں اچانک اُبھرا کہ گھوڑوں کی سیوا کے لیے بنائی اس سہولت کو ''ہودی'' کہا جاتا تھا۔
Load Next Story