پہلی ترجیح غربت اور مہنگائی کا خاتمہ

بجلی جو انسانی ضرورت کی اہم ترین چیز بن چکی ہے اس کے بل اکثر استعمال کی ہوئی بجلی سے زیادہ بھیج دیے۔۔۔


آئی ایچ سید May 29, 2014
[email protected]

سائسنی نقطہ نظر کے لحاظ سے قوم کے سیاسی رہنماؤں کا کردار انسانی جسم میں موجود ایک دماغ کی مانند ہے، جس طرح سائنسی خطوط پر استوار ایک ذہن انسانی جسم کو درپیش تجربات اور واقعات سے متعلق ایک فوری ردعمل پیدا کرنے میں نہ صرف اس کی رہنمائی کرتا ہے بلکہ اس ردعمل سے پیدا شدہ صورتحال سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کرنے میں اس کی مدد بھی کرتا ہے۔

بالکل اسی طرح سیاسی رہنما بھی پیشے کے اعتبار سے قومی معاملات سے متعلق قوم کو اپنی بصیرت اور فہم و فراست اور عوامی جذبے سے سرشار ہوکر قوم کو درپیش حالات کو مدنظر رکھ کر اپنی دانش مندانہ حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں اور پھر اس حکمت عملی پر عمل پیرا ہوکر عوام الناس کو اس حکمت عملی کے بہترین اور سودمند نتائج حاصل ہونے کا یقین دلاکر ان کی ذہن سازی کرتے ہیں۔ جمہوریت عوامی فلاحی مواقعوں کو فوری طور پر عملی جامہ پہنا کر عوام کو خوشحال اور خودکفیل بنانے کی حکمت عملی پر مبنی سیاسی نظام ہے۔ یہی وہ نظام ہے جس نے قوموں کو پسماندگی سے ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔

جمہوریت اقتدار کے حصول کے بعد عوام کی فوری اور بنیادی ضرورت سے صرف نظر کرکے اشرافیائی ذہنیت کی تخلیق شدہ خواہشات کی تکمیل کا نام نہیں، جمہوریت حقیقتاً ریاست میں موجود ان پریشان حال، بھوکے، پیاسے، بے روزگار، اچھی تعلیم سے محروم، مہنگے ترین علاج کی بدولت خطرناک بیماریوں میں مبتلا اور ناقابل برداشت مہنگائی کی وجہ سے جرائم کی طرف تیزی سے گامزن نوجوانان قوم کے مسائل کے خاتمے پر مبنی ایک عوامی سیاسی نظام ہے۔

قومیں جب شدید مایوسی، ناامیدی، عدم تحفظ اور معاشی بدحالی، غربت و افلاس کی انتہا پر پہنچ جائیں اور مذکورہ بالا سنگین مسائل میں جکڑی ہوئی ہوں تو پھر جمہوری طور پر منتخب حکمران اپنی تمام تر توانائیاں عوام کو لاحق ان سنگین مسائل کو حل کرنے میں صرف کرتے ہیں، وہ اپنی اشرافیائی سوچ اور خواہشات کے تابع ترتیب شدہ حکمت عملی پر عمل کرکے میٹروبس و میٹرو ٹرین، بڑے بڑے موٹر ویز بنانے کے بجائے سب سے پہلے عوام کی بھوک، پیاس، صحت و تعلیم اور مہنگائی سے چھٹکارا دلانے کی حکمت عملی پر گامزن ہوتے ہیں اور ان کے ایجنڈے میں سرفہرست مہنگائی، بے روزگاری اور توانائی کے مسائل حل کرنا ہوتا ہے۔

جس طرح ایک سر درد کے مریض کو پیٹ کے درد کی گولی سے افاقہ ممکن نہیں اسی طرح غربت، بھوک، مہنگائی اور بے روزگاری سے بری طرح متاثر قوم کو فی الحال آپ کے بڑے بڑے اربوں روپوں سے شروع کیے گئے منصوبوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ملکی حکمرانی پر فائز سیاسی شعور سے عاری وفاقی حکمرانوں کو شاید عوام کو لاحق مسائل کا حقیقی احساس ہی نہیں کہ ایک عام آدمی کس طرح اپنی زندگی کے پہیے کو رواں دواں رکھے ہوئے ہے، مسائل ہیں کہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور وسائل دن بہ دن گھٹتے جا رہے ہیں۔ بجلی موجود نہیں، صاف پانی کا حصول ناممکن ٹھہرا، پیسے نہ ہو تو اچھی تعلیم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، رقم کی غیر موجودگی میں ایک بیمار شخص قبر کا فاصلہ تو تیزی سے طے کرسکتا ہے مگر اس کا روبہ صحت ہونا انتہائی مشکل ہے، تنگ دستی کی بدولت قوم کی بیٹیاں بن بیاہی رہ جاتی ہیں۔

چند سال پہلے جو لوگ آٹا چینی، گھی، چاول، دال ہفتے یا مہینے کے حساب سے اکٹھا خریدتے تھے آج روزانہ کے حساب سے خریدنے پر مجبور ہیں۔ بسیں، ویگن، ٹیکسی، رکشا، سی این جی پر ہی چلیں مگر عام آدمی سے کرایہ پٹرول کے حساب سے وصول کیا جاتا ہے۔ کسی بھی قسم کی بیماری میں مبتلا شخص اگر سرکاری اسپتال میں علاج کے لیے جائے تو اسپتال میں موجود بڑے معالج سرکاری اسپتال میں سہولیات کی کمی کا رونا رو کر انھیں اپنے پرائیویٹ اسپتال میں علاج کروانے کا مشورہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

بجلی جو انسانی ضرورت کی اہم ترین چیز بن چکی ہے اس کے بل اکثر استعمال کی ہوئی بجلی سے زیادہ بھیج دیے جاتے ہیں اور جب ان ہزاروں روپے اضافی بلوں کی درستگی کے لیے محکمے سے رابطہ کیا جائے تو جواب ملتا ہے کہ اس بار آپ اس بل کو بھردیں اگلے بل میں اضافی قیمت کو ختم کردیا جائے گا، مگر پھر وہ کبھی بھی ختم نہیں ہوتا، نہ بھرنے کی پاداش میں کنکشن ہی منقطع کردیا جاتا ہے۔ لاکھوں سرکاری ریٹائرڈ ملازمین کی عمر 60 سے 70 سال کے درمیان ہوتی ہے، انھیں شدید ترین گرمی اور سردی میں لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا کیا جاتا ہے، عمر رسیدہ ہونے کی صورت میں چاہے کھڑے کھڑے ان کی زندگی ان کا ساتھ ہی کیوں نہ چھوڑ دے لیکن کسی کو اس زندگی سے کوئی سروکار نہیں سوائے ان کے لواحقین کے۔

انسانی زندگی عطیہ خداوندی ہے اور اسے ہر قیمت پر برقرار رکھنے کا حکم رب العزت نے خود دیا ہے جسے قائم رکھنے کی ذمے داری سب سے پہلے ریاست پر عائد ہوتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اپنی عوام کا دکھ درد بانٹنے والے، ان کے مسائل کا خاتمہ کرنے والے، انھیں عزت فراہم کرنے والے، ان کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے والے موروثی حکمرانوں نے بھی جب تک حکمرانی کے مذکورہ بالا اصولوں پر قائم طرز حکمرانی جاری رکھا انھوں نے عشروں تک اپنے عوام پر حکمرانی کی۔ شاہ طہماسپ صفوی 1576۔1524، جلال الدین محمد اکبر 1605۔1565، ناصرالدین قاچار 1896۔1848، محی الدین اورنگزیب 1707۔1659، سلیمان اعظم قانونی (ترک) 1566۔1520 اور بہلول لودھی 1451-89۔ مذکورہ بالا مثالوں کا مقصد یہ ہے کہ حکمرانی خدائے بزرگ و برتر کا وہ خاص انعام ہے اور یہ صرف ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتا ہے ۔

جو اس کی کائنات میں بنائی ہوئی سب سے اعلیٰ مخلوق ''انسانوں'' کی دعا کے مستحق ہوتے ہیں، ان کے لیے سوچتے ہیں، ان کے مسائل کو حل کرنے کو رب العزت کی طرف سے عائد کردہ فرض سمجھتے ہیں اور اسی خوف خدا کے جذبے سے عوام کو لاحق سنگین مسائل کو جنگی بنیادوں پر حل کرنے کی راہ پر گامزن ہوجاتے ہیں۔لیکن عوام کے مسائل حل کرنے کے نام پر حکمرانی حاصل کرنے والے حکمران جب خدا کے بتائے ہوئے طرز حکمرانی کے بنیادی اصول یعنی عوام اور صرف عوام کی خدمت کے اصول کو بالائے طاق رکھ کر اپنی خواہشات پر مبنی ایجنڈے کی تکمیل میں مگن ہوجائیں تو پھر ایسے حکمرانوں سے حکمرانی کا حق چھین لیا جاتا ہے۔

''حزب اختلاف ہمیں کام نہیں کرنے دے رہی، فوج سویلین بالادستی کو قبول نہیں کر رہی، میڈیا ہم پر بے جا تنقید کر رہا ہے'' جیسے بھونڈے اور بے دلیل جواز کے پیچھے چھپنے کے بجائے عوام کو اس بجٹ میں فوری ریلیف جو عوام الناس کو قابل قبول ہو فراہم کیجیے۔ چونکہ مذکورہ تینوں اسٹیک ہولڈرز مہنگائی سے نجات، بے روزگاری کا خاتمہ، صحت اور تعلیم کی بہترین سہولیات پہنچانے میں کسی بھی قسم کی مزاحمت نہیں کر رہے، لہٰذا عوام کے تیزی سے بگڑتے ہوئے معاشی حالات کا ادراک کیجیے اور ان معاشی حالات کو بہتر کرنے کے لیے اپنی تمام تر ذہنی اور جسمانی کاوشوں کو بروئے کار لائیں، یقین کیجیے کہ عوام شدید غصے میں ہیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ غصہ کسی خونیں انقلاب کو برپا کردے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں