بالآخر 2023 کا آخری سورج بھی ڈوب گیا اور 2024 کا سورج نئی امیدوں کے ساتھ طلوع ہوچکا ہے۔ پوری قوم کو یہ نیا سال مبارک ہو۔
ہمارے ہاں ہر سال کے آغاز پر یہی بحث چلتی ہے کہ مسلمانوں کا سال تو محرم سے شروع ہوتا ہے، اور اس بحث میں ایڑی چوٹی کا زور ایسے لگایا جاتا ہے کہ سارا دین بس یہی ایک مسئلہ ہے۔ کسی قوم کی ذہنی ابتری کا کیا عالم ہوگا کہ جس کی مستعمل اورعملی تقویم صرف سال کے ایک یا دو دن غلط نظر آتی ہے، وگرنہ آپ کسی سے صرف یہ پوچھ لیں کہ قمری تقویم کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش کیا ہے، یا خاص دنوں کے علاوہ کسی بھی دن کیا قمری تاریخ ہے تو اندازہ ہوجائے گا کہ قوم کا مقصد صرف لایعنی بحث کے موضوعات تلاش کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
چاند اور سورج کارخانہ قدرت میں اپنا اپنا مقام رکھتے ہیں اوران کے بنانے والے نے دونوں کو وقت کی پیمائش کا پیمانہ قرار دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کیا عیسیٰ علیہ السلام کی محبت سے انکار کرکے ایمان بچا سکتے ہیں؟ تیسری اہم بات عرف ہے؛ ساری دنیا میں ذرائع آمد و رفت کی ترتیب، کاغذات اسفار، کانفرنسز، تقاریب عیسوی کیلنڈر کے اردگرد ہیں۔ ہجری، اسلامی یا قمری سال سے محبت اپنی جگہ لیکن دنیا میں عیسوی اورشمسی سال کی حکمرانی ہے۔
کہنے کو دنیا میں بہت سے کیلنڈر رائج ہیں لیکن ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح شمسی یا قمری پیمانے سے جڑ جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تین اقسام کی تقویم رائج ہیں، جن میں سے دو شمسی ہیں اور ایک قمری، یعنی عیسوی، بکرمی اور ہجری۔ روزمرہ کے بنیادی علم میں ہے کہ شمسی سال اس عرصے کے برابر ہوتا ہے، جس میں زمین سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرلیتی ہے۔ یہ عرصہ 365 دن 6 گھنٹے اور 9 منٹ کے برابر ہوتا ہے۔ ہم چونکہ سال کو 365 دنوں کا شمار کرتے ہیں، اس لیے ہمارا سال اصل سال سے کچھ چھوٹا ہوتا ہے اور یہ کمی ہر گزرتے سال کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے شہنشاہ روم جولیس سیزر نے ہر چوتھے سال میں ایک دن کا اضافہ کرکے ہر چوتھا سال 366 دن کا قرار دیا اور اسی سال کو لیپ کاسال کہا جاتا ہے۔
اسی طرح برصغیر میں سن بکرمی بھی شمسی سال ہے۔ یہ صدیوں کے تجربوں کا نچوڑ ہے۔ آج بھی لوگوں کو اپنی زراعت اور مال مویشی کی ترتیب اسی کیلنڈر کے مطابق ترتیب دیتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ سن عیسوی کی طرح اس میں بھی لوند (لیپ) کے سال آتے ہیں۔ اس میں سال کا آغاز فصل پکنے پر یکم بیساکھ کو ہوتا ہے۔ یہ بات اتنی اہم ہے کہ ہندوستان میں گورے سرکار کو مالی سال یکم اپریل سے ہی شروع کرنا پڑا۔
دوسری طرف قمری سال شمسی سال سے قریباً 11 دن کم کا ہوتا ہے۔ اس میں مہینے کی میعاد چاند کے دو طلوعات کا درمیانی وقت ہے۔ یہ وقت 29 یا 30 دن کا ہوتا ہے اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ سال موسموں اور تاریخوں میں بہت سے تغیرات پر منحصر ہوتا ہے، یعنی عید، رمضان اور دوسرے تہوار کبھی دسمبر میں آتے ہیں اور کبھی جون میں۔
اب بات آتی ہے مبارک بادوں کی، چاہے وہ قمری سال کی ہو یا عیسوی سال کی، اگر تو آپ نے پچھلے سال میں جو وعدے، منصوبے، اور اہداف متعین کیے تھے، ان کے حصول میں کسی قدر کامیاب ہوگئے ہیں اور اپنی غلطیوں کی بنیاد پرنیا لائحہ عمل ترتیب دے لیا ہے تو ضرور مبارک باد کے مستحق ہیں، ورنہ اگر ناچنے کا صرف بہانہ چاہ رہے ہیں تو وہ تو بشمول نیا سال کوئی بھی چھوٹا یا بڑا موقع تلاش کیا جاسکتا ہے۔ مبارک برائے مبارک کی مثال اس عید مبارک کی طرح ہے کہ روزے رکھ سکا، نماز پڑھ سکا اور نہ ہی تلاوت کرسکا، اب اتنا بھی کافر تو نہیں کہ عید بھی نہ مناؤں؟
یوم پیدائش اور سال کا آغاز و انجام بہترین اوقات ہیں کہ کی گئی غلطیوں کا محاسبہ کیا جائے اور آنے والے دنوں کےلیے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔ سب ہمیشہ سے سن اور پڑھ رہے ہیں وقت ریت کی مانند ہاتھوں سے نکلتا جاتا ہے لیکن حقیقت میں کوئی بھی ماننے کو تیار نہیں، سب وقت کو ضائع کرنے میں ماہر ہیں، چاہے وہ لایعنی مباحث ہوں، غیر ضروری تعریف و توصیف ہو یا صرف سڑک پر کسی تماشہ گر کا تماشہ ہو۔ دوسری طرف ممکنہ جذباتیت کا کوئی بھی موقع ہو، ہم خالی نہیں جانے دیتے اور عمل سے مکمل پرہیز کو کامیابی کا ذریعہ گردانتے ہیں۔
ہم انفرادی و اجتماعی طور پر صرف چند فیصلے کرلیں اور پھر اس پر قائم ہوجائیں تو سال کیا تبدیلی دنوں میں ممکن ہے، زبان سے نہیں عملی طور پر جھوٹ، بددیانتی، رشوت اور سفارش سے باز آجائیں۔ میرٹ اور حق کا ساتھ دینا شروع کردیں اور حق کے بجائے اپنے فرائض کو اہمیت دیں تو مشکل نہیں کہ وطن عزیز میں آسانیوں کی جانب سفر شروع ہوجائے گا۔ مگر المیہ یہ ہے کہ ان سب نعروں اور وعدوں کے بعد جب بات اپنی ذات یا اپنوں پر آتی ہے تو سارا زور صحیح یا غلط راستہ نکالنے پر صرف ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
آئیے عہد کریں کہ ہم نئے سال میں ایسے کام کریں گے کہ حقیقت میں سال کے اختتام پر مبارک باد کے مستحق قرار پائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔