تین پارٹیوں کی تین صوبائی حکومتیں

سندھ میں اپنوں کو نوازنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشیر اور معاونین بھر لیے گئے ہیں


Muhammad Saeed Arain May 29, 2014

ملک میں اس وقت تین بڑے صوبوں میں ملک کی تین بڑی پارٹیوں کی حکومتیں قائم ہیں جن کے عرصہ اقتدار کو ایک سال مکمل ہونے کو ہے مگر تینوں پارٹیاں اپنے صوبوں میں مثالی حکومت قائم نہیں کرسکی ہیں۔

اٹھارویں ترمیم کے بعد اب موجودہ صوبائی حکومتیں ماضی کے مقابلے میں وسیع اختیارات کی حامل اور صوبائی خودمختاری کے معاملے میں مکمل آزاد ہیں اور اب ان پر وفاق کی طرف سے خطرے کی تلوار بھی نہیں لٹک رہی اور نہ ہی وفاق ان کے معاملے میں غیر آئینی مداخلت کر رہا ہے۔ اس قدر مضبوط اور بااختیار ہونے کے باوجود تینوں بڑی پارٹیوں کی حکومتیں نہ اچھی کارکردگی پیش کر سکی ہیں نہ گڈگورننس کی کوئی اچھی مثال قائم کرسکی ہیں۔

پنجاب اور سندھ میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکومتیں ہیں اور دونوں پارٹیوں کے وہی وزیر اعلیٰ ہیں جو پہلے بھی تھے اور چاروں صوبوں میں پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں گزشتہ 6 سالوں میں قابل قدر ترقی ہوئی ہے۔ موجودہ ایک سال میں تو کہا جاسکتا ہے کہ پنجاب کو وفاق اور وزیر اعظم کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وفاقی حکومت کی طرف سے پنجاب کی حکومت کو سب سے زیادہ اہمیت ملنے کی وجہ سے باقی تین صوبوں میں احساس کمتری جنم لے چکا ہے۔

اپوزیشن کی طرف سے وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں میں صرف پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو لے کر جانے پر بھی تنقید ہوئی ہے جو کسی حد تک درست بھی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو عام انتخابات میں کامیابی بلاشبہ پنجاب سے زیادہ ملی اور اس کامیابی میں پنجاب کے گزشتہ دور کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا سب سے اہم کردار بلاشبہ تھا اور انھیں وفاقی حکومت اور اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کی بھی اتنی حمایت حاصل نہیں تھی جتنی سندھ کو تھی۔

وفاق میں پی پی کی حکومت اور سندھ بلکہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت کی وجہ سے سندھ کی حکومت کو مثالی کارکردگی پیش کرنی چاہیے تھی مگر ایسا نہیں ہوا اور صدر مملکت اپنے ہی صوبے کو ترقی دلاسکے اور نہ گزشتہ پانچ سالوں میں سندھ میں گڈگورننس پیش کی جاسکی۔ سندھ میں دیگر محکموں کو چھوڑ کر اگر صرف محکمہ تعلیم ہی کی کارکردگی دیکھی جائے تو انتہائی شرمناک تھی۔ سابق وزیر تعلیم سندھ پیر مظہر الحق جو موجودہ وزیر تعلیم کی طرح سینئر وزیر بھی تھے اور محض بلند و بانگ دعوے ہی کرتے تھے مگر ان کے دور میں تعلیمی میدان میں سندھ کو جتنا نقصان ہوا اتنا نقصان تو بلوچستان میں بھی نہیں ہوا۔

پانچ سالہ تعلیمی کرپشن کا اعتراف تو سندھ کے موجودہ وزیر تعلیم نے بھی کیا ہے اور اپنی ہی پارٹی کے وزیر تعلیم کی کرپشن اور من مانیوں کی سزا موجودہ وزیر تعلیم کو مل رہی ہے اور وہ اپنی ہی حکومت میں محکمہ تعلیم میں موجود برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔پی پی پی کی گزشتہ حکومت میں کرپشن اور بدانتظامی کا واضح ثبوت یہ ہے کہ محکمہ تعلیم میں گزشتہ پانچ سالوں میں اساتذہ کی ایک ہزار چار سو خالی جگہوں پر چھ ہزار جعلی بھرتیاں ہوئی تھیں اور محکمہ تعلیم میں 5 سال کرپشن، من مانی اور لاقانونیت کا بازار گرم رہا تھا مگر وزیر اعلیٰ سندھ ایسے وزیر تعلیم کو ہٹا بھی نہ سکے تھے۔ گزشتہ 5 سالوں میں صوبہ کے پی کے میں عوامی نیشنل پارٹی اور پی پی کی حکومت تھی اور اے این پی کے رہنماؤں کی کرپشن کی کہانیاں عالمی سطح پر مشہور ہوئی تھیں۔

بلوچستان کی مخلوط حکومت اور اس کے پی پی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ کی انتہائی خراب کارکردگی کے باعث پی پی کی وفاقی حکومت کو اپنی ہی حکومت ختم کرکے گورنر راج لگانا پڑا تھا۔ پنجاب واحد صوبہ تھا جس میں وزیروں کی بھرمار نہیں تھی اور باقی تینوں صوبوں میں وزیروں، مشیروں، معاونین خصوصی اتنی بڑی تعداد میں اپنوں کو نوازنے کے لیے رکھے گئے تھے کہ جن کی تعداد کی ماضی میں کوئی مثال نہیں تھی۔

سندھ میں اپنوں کو نوازنے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشیر اور معاونین بھر لیے گئے ہیں مگر اس ایک سال میں بھی وہی حالت ہے جو گزشتہ 5 سالوں میں رہی تھی۔ کے پی کے میں تبدیلی لانے کا عمران خان نے بہت شور مچایا تھا مگر تبدیلی برائے نام ہی نظر آئی ہے۔ صحت کا انصاف کے نام پر پولیو ویکسین پلوانے پر توجہ ضرور ہوئی ہے مگر تعلیم اور صحت کے معاملے میں وہ تبدیلی کہیں نظر نہیں آرہی جس کے دعوے کیے گئے تھے۔

کے پی کے میں سب سے بڑی بدنامی تحریک انصاف کے حصے میں یہ آئی ہے کہ عمران خان کے اعلان کے مطابق کے پی کے میں تین ماہ میں تو کیا ایک سال میں بھی بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جاسکے ہیں اور عمران خان اپنے اعلان پر عمل نہ کراسکے۔ عمران خان نے ایبٹ آباد کے حالیہ جلسے میں پھر کہا ہے کہ آیندہ تین ماہ میں کے پی کے میں تبدیلی نظر آئے گی۔ کے پی کے میں صوبے میں تو نہیں البتہ صوبائی کابینہ میں ضرور تبدیلیاں ہوئی ہیں مگر حکومت کے مخالفین اب بھی دعوے کر رہے ہیں کہ کے پی کے میں وزیروں نے کرپشن کی ہے۔ عمران خان کے اعلان کے مطابق کے پی کے پولیس کو سیاسی دباؤ سے آزاد کردیا گیا ہے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف پہلے کی طرح مستعد نظر نہیں آرہے۔

پنجاب پولیس میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی بلکہ مسائل پہلے سے بڑھ گئے ہیں۔ ٹریفک وارڈنز سے متعلق بھی شکایات بڑھی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنے کامیاب میگا پروجیکٹ کے بعد چین کے تعاون سے لاہور میں اب میٹرو ٹرین چلانے کا اعلان کیا ہے۔ میٹرو بس کے منصوبے نے مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں مقبولیت دلائی تھی اب میٹروبس سسٹم راولپنڈی، فیصل آباد اور ملتان میں بھی لانے پر عمل شروع ہے مگر لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف عوام سفری سہولتیں ہی نہیں مانگتے بلکہ تعلیم،صحت، سمیت بنیادی سہولتیں بھی مانگتے ہیں۔

پنجاب چاروں صوبوں کے مقابلے میں پہلا صوبہ ہے جہاں میٹرو بس کے بعد میٹرو ٹرین بھی آجائے گی مگر پنجاب کے عوام کو بھی سندھ اور کے پی کے کی طرح عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کا بلدیاتی نظام 2014 میں بھی ملنے کا امکان نہیں ہے۔ صرف بلوچستان کا یہ ریکارڈ قائم ہے جہاں حالات بہتر نہ ہونے کے باوجود بلدیاتی انتخابات کرائے گئے تھے اور اب دوسرا مرحلہ جاری ہے۔

تینوں بڑی پارٹیوں کی تینوں حکومتوں میں امن وامان کی صورت حال اطمینان بخش ہے نہ وہاں مہنگائی پر کنٹرول کے لیے کچھ کیا گیا ہے ، عوام کے لیے بڑھتی ہوئی مہنگائی اہم مسئلہ ہے جس سے عوام سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں اور مہنگائی روکنے میں تمام صوبائی حکومتیں ناکام ہیں۔

تبدیلی لانے کی زیادہ ذمے داری تحریک انصاف کی ہے جس سے عوام کو بڑی توقعات تھیں۔ پی پی اور (ن) لیگ کے مقابلے میں تحریک انصاف چاہے تو کے پی کے میں مثالی حکومت کا قیام عملی طور پر عمل میں لاکر دکھا سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں