2023 خیبرپختونخوا پولیس میں خواتین افسران اہم عہدوں پر فائز رہیں
یو این ، امریکا، آسٹریلیا نے کے پی پولیس میں خواتین کی تعیناتی کے اقدام کو سراہا
سال 2023 میں خیبرپختونخوا پولیس میں خواتین پولیس افسران اھم عہدوں پر فائز رہیں۔
پولیس سروسز آف پاکستان گروپ سے پہلی بار خاتون آفیسر عائشہ بطور اے آئی جی جینڈر ہوئیں ۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی بار خاتون آفیسر کو ڈسٹرکٹ پولیس کی سربراہی سپرد کی گئی۔
عالمی ایوارڈ یافتہ خاتون آفیسر سونیا شمروز کو ڈی پی او چترال تعینات کیا گیا ۔ پشاور میں شازیہ شاہد کو ایس پی ٹریفک ، روضیہ الطاف کو ایلیٹ فورس میں بطور خاتون آفیسر کا اہم عہدہ ملا۔ ایس پی انیلا ناز کو خواتین ،جینڈر ایشوز کے لئے بطور اے آئی جی تعینات کیاگیا۔
پہلی بار پشاور کے حیات آباد میں ڈی ایس پی کی جگہ اے ایس پی خاتون آفیسر نایاب رمضان کو اہم عہدہ دیا گیا ، نایاب رمضان ٹریننگ کے دوران مجموعی کارکردگی میں نمایاں پوزیشن حاصل کر چکی ہیں۔
مردان میں اسٹریٹ کرائم کو کنٹرول کے حوالے سے خاتون اے ایس پی ریشم جہانگیر کی تعیناتی سے بہتر نتائج سامنے آئے ۔ پہلی بار مردان میں سرچ اینڈ اسٹرائیک آپریشنز میں خاتون آفیسر نے خود حصہ لیا جبکہ کمیونٹی پولیسنگ کے حوالے سے بھی ریشم جہانگیر کی خدمات کو سراہا گیا۔
خواتین کے مسائل ، ڈی آر سیز کے کردار کے کو اجاگر کرنے کے لئے پشاور میں یونیورسٹی ٹاؤن سرکل میں خاتون پولیس آفیسر نازش کو تعینات کیا گیا جنہوں نے قلیل عرصے میں علاقے میں ڈی آر سیز کی اہمیت پر بہتر کارکردگی دکھائی ۔
یو این ، امریکہ ، آسٹریلیا نے بھی کے پی پولیس میں خواتین تعیناتی کے اقدام کو سراہا ۔ اکیڈمی ٹاپ کرنے والی خاتون پولیس آفیسر پشاور کی اے ایس پی نایاب رمضان نے ایکسپریس کو بتایا کہ دنیا کے بیشتر ممالک کی پولیس میں خاتون اور مرد ملکر کام کرتے ہیں۔ کے پی پولیس میں خواتین افسران کے لئے کام کرنے کے مواقع زیادہ ہیں۔
نیوزی لینڈ میں عالمی پولیس ایوارڈ جیتنے والی خاتون پولیس آفیسر ڈی پی او بٹگرام سونیا شمروز نے بتایا کہ انہوں نے چترال میں خواتین ڈیسک پر خصوصی کام کیا جس سے مقامی طور پر گھریلو تشدد اور خود کشی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ، اس اقدام کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔
آئی جی خیبرپختونخوا اختر حیات خان نے ایکسپریس کو بتایا کہ کے پی پولیس بہادر جوانوں اور افسران کی فورس ہے خیبرپختونخوا پولیس نے خواتین افسران کو نہ صرف بہتر مواقع فراہم کئے بلکہ فیلڈ میں کام کرنے والی خواتین افسران کی حوصلہ افزائی بھی کی۔
خواتین افسران کو گھریلو تشدد ، خواتین کے بنیادی مسائل سے لیکر شعبہ تفتیش میں کام کرنے کے حوالے سے انکی خصوصی تربیت کی گئی اس اقدام سے کمیونٹی پولیسنگ کے بہتر نتائج مرتب ہوئے۔
پولیس سروسز آف پاکستان گروپ سے پہلی بار خاتون آفیسر عائشہ بطور اے آئی جی جینڈر ہوئیں ۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی بار خاتون آفیسر کو ڈسٹرکٹ پولیس کی سربراہی سپرد کی گئی۔
عالمی ایوارڈ یافتہ خاتون آفیسر سونیا شمروز کو ڈی پی او چترال تعینات کیا گیا ۔ پشاور میں شازیہ شاہد کو ایس پی ٹریفک ، روضیہ الطاف کو ایلیٹ فورس میں بطور خاتون آفیسر کا اہم عہدہ ملا۔ ایس پی انیلا ناز کو خواتین ،جینڈر ایشوز کے لئے بطور اے آئی جی تعینات کیاگیا۔
پہلی بار پشاور کے حیات آباد میں ڈی ایس پی کی جگہ اے ایس پی خاتون آفیسر نایاب رمضان کو اہم عہدہ دیا گیا ، نایاب رمضان ٹریننگ کے دوران مجموعی کارکردگی میں نمایاں پوزیشن حاصل کر چکی ہیں۔
مردان میں اسٹریٹ کرائم کو کنٹرول کے حوالے سے خاتون اے ایس پی ریشم جہانگیر کی تعیناتی سے بہتر نتائج سامنے آئے ۔ پہلی بار مردان میں سرچ اینڈ اسٹرائیک آپریشنز میں خاتون آفیسر نے خود حصہ لیا جبکہ کمیونٹی پولیسنگ کے حوالے سے بھی ریشم جہانگیر کی خدمات کو سراہا گیا۔
خواتین کے مسائل ، ڈی آر سیز کے کردار کے کو اجاگر کرنے کے لئے پشاور میں یونیورسٹی ٹاؤن سرکل میں خاتون پولیس آفیسر نازش کو تعینات کیا گیا جنہوں نے قلیل عرصے میں علاقے میں ڈی آر سیز کی اہمیت پر بہتر کارکردگی دکھائی ۔
یو این ، امریکہ ، آسٹریلیا نے بھی کے پی پولیس میں خواتین تعیناتی کے اقدام کو سراہا ۔ اکیڈمی ٹاپ کرنے والی خاتون پولیس آفیسر پشاور کی اے ایس پی نایاب رمضان نے ایکسپریس کو بتایا کہ دنیا کے بیشتر ممالک کی پولیس میں خاتون اور مرد ملکر کام کرتے ہیں۔ کے پی پولیس میں خواتین افسران کے لئے کام کرنے کے مواقع زیادہ ہیں۔
نیوزی لینڈ میں عالمی پولیس ایوارڈ جیتنے والی خاتون پولیس آفیسر ڈی پی او بٹگرام سونیا شمروز نے بتایا کہ انہوں نے چترال میں خواتین ڈیسک پر خصوصی کام کیا جس سے مقامی طور پر گھریلو تشدد اور خود کشی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ، اس اقدام کو عالمی سطح پر سراہا گیا۔
آئی جی خیبرپختونخوا اختر حیات خان نے ایکسپریس کو بتایا کہ کے پی پولیس بہادر جوانوں اور افسران کی فورس ہے خیبرپختونخوا پولیس نے خواتین افسران کو نہ صرف بہتر مواقع فراہم کئے بلکہ فیلڈ میں کام کرنے والی خواتین افسران کی حوصلہ افزائی بھی کی۔
خواتین افسران کو گھریلو تشدد ، خواتین کے بنیادی مسائل سے لیکر شعبہ تفتیش میں کام کرنے کے حوالے سے انکی خصوصی تربیت کی گئی اس اقدام سے کمیونٹی پولیسنگ کے بہتر نتائج مرتب ہوئے۔