آفتاب آمد دلیلِ آفتاب
ہم نے ہیروشیما کو جب اپنی آنکھوں سے دیکھا تو یقین نہیں آیا کہ یہ وہی شہر ہے جس پر ایٹم بم گرا تھا
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوجائے گی کہ اہداف کا تقرر اور ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔
اِس کے علاوہ یہ بہت ضروری ہے کہ استحکام اور تسلسل برقرار رہے۔ اِن تمام اجزاء ترکیبی کے علاوہ مخلص قیادت کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ مزید برآں مستقل مزاجی بھی ایک ضروری عنصر ہے۔
آئیے!سب سے پہلے چین پر نظر ڈالیں۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب یہ کہا جاتا تھا ''چینی افیونی'' نشہ کی عادی اِس قوم کا حال بہت بُرا اور مستقبل تاریک تھا۔ سب سے بڑا مسئلہ روز افزوں آبادی تھی۔ وسائل مفقود اور مسائل لامحدود تھے۔
پھر یوں ہوا کہ اِس ملک کو مخلص قیادت میسرآگئی جس نے اپنے اہداف مقررکیے اور باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ترقی کی راہ پر قدم بڑھانا شروع کر دیے۔ راستہ میں بڑے بڑے پہاڑ حائل ہوئے لیکن چینیوں نے اپنی مستقل مزاجی کی وجہ سے ہمت نہیں ہاری۔ مصمم عزم اور منزل کو پا لینے کی جستجو اور تڑپ نے اُن کی پیش قدمی کو روکا نہیں۔ اُن کا پختہ یقین تھا کہ :
مُشْکِلے نِیْست کہ آساں نَہ شَوَد
مَرْد بایَد کہ ہَراساں نَہ شَوَد
منزل تک پہنچنے کی راہ میں کانٹے بھی آئے اور طرح طرح کی رکاوٹیں بھی، لیکن کیا مجال جو چینیوں کے قدم لڑکھڑائے ہوں۔ انھوں نے مستقل مزاجی کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھا۔ تاآنکہ انھیں اپنی منزل قریب آتی ہوئی نظر آئی۔ بقولِ شاعر :
اے جذبہ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دوگام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
ماؤزی تُنگ اور چوہ این لائی جیسے قدآور قائدین نے چین میں ایک انقلاب برپا کر دیا اور چینیوں کوگھپ اندھیروں سے نکال کر سورج کی چکا چوند روشنی میں لا کرکھڑا کردیا، جس کے بعد چینیوں نے پلٹ کر پیچھے کی طرف نہیں دیکھا۔ چل سو چل چینیوں کے قدم تیز سے تیز تر ہوگئے اور دنیا اُن کی برق رفتار ترقی کو دیکھ کر حیران اور ششدر رہ گئی۔
چین کے انقلابیوں نے عیش و عشرت کی نہیں بلکہ عام شہریوں کی طرح زندگی گزاری۔ موٹا جھوٹا لباس پہننا اور روکھا سوکھا کھانا اُن کا دستور تھا۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ چینی وزیرِ اعظم اپنے گھر سے اپنے دفتر تک عام سائیکل پر سوار ہوکر آتے جاتے تھے۔ دنیا کے کسی اور ملک میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سادہ زندگی اور بلند خیالات اُن کا نظریہ حیات تھا۔ چین کی بے مثال ترقی کا یہی راز ہے۔
جس قوم میں ایسے عظیم لیڈر پیدا ہوتے ہیں اُس کا کوئی بھی ملک مقابلہ نہیں کرسکتا۔ آج دنیا میں چین کا شمار صفِ اول کے ممالک میں ہوتا ہے۔ چین کی برق رفتار ترقی نے اُسے تیسری عالمی طاقت بنا دیا ہے جس سے امریکا بھی گھبراتا ہے۔
زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں چین پیش پیش نہ ہو۔ زمین تو زمین خلا میں بھی اُس کی برتری کا لوہا پوری دنیا مانتی ہے۔ امریکا اور یورپی ممالک چین کی بڑھتی ہوئی ترقی اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتی ہوئی معیشت سے بُری طرح خائف ہیں۔
امریکا اور یورپی ممالک پر چینی اشیاء کو غلبہ حاصل ہے۔ یہ ممالک چین کی معاشی قوت کو دیکھ کر دانت کِچکِچکاتے ہیں اور اُن کا بس نہیں چلتا کہ وہ چین کے آگے کیا بند باندھیں۔ عالمی شہرت یافتہ فلسفی، مفکر اور دانشور برٹرینڈ رَسل نے اپنے مشہورِ عالم مقالہ بعنوان مشرق کی بیداری نو کے حوالے سے جو پیشگوئی کی تھی چین نے اُس کو حرف بہ حرف درست ثابت کر دیا ہے، اگر وہ آج زندہ ہوتے تو اُن کی خوشی کی کوئی انتہا نہ ہوتی۔ بقول اقبالؔ:
گراں خواب چِینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے
چینیوں کی جفاکشی کی تعریف علامہ اقبالؔ سے زیادہ بھلا اورکون کرسکتا ہے۔
جاپان اور جاپانی قوم کے چرچے ہم نے بہت سنے تھے اور ہماری دلی خواہش تھی کہ جاپان جائیں اور اِسے اور اِس کے پرعزم باسیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں کیونکہ سُنی سُنائی اور آنکھوں دیکھی میں بہت فرق ہوتا ہے۔
اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ شنید کے بُوَد مانند دیدن۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ مبارک گھڑی بھی آئی کہ جب ہماری دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور ہم جاپان چلے گئے۔جاپان اور جاپانیوں کے بارے میں ہم نے جوکچھ سنا تھا درحقیقت وہ بہت کم تھا۔ جاپانی کام کو عشق سمجھتے ہیں اور عشق کے بارے میں ہمارے پیارے اور نیارے شاعر دوست رئیس فروغ نے کیا خوب کہا ہے۔
عشق وہ کار مسلسل ہے کہ ہم اپنے لیے
ایک لمحہ بھی پس انداز نہیں کر سکتے
جاپانیوں کو اپنے کام سے عشق ہے۔ آندھی جائے یا مینہ۔ فیکٹری ہو یا آفس ایک منٹ کی تاخیر کے بغیر وہاں پہنچنا جاپانی کی گھٹی میں شامل ہے۔ روبوٹ کے برابر کام کرنا جاپانیوں کا ہی کمال ہے۔ کیا مجال کہ جاپانی اپنے کام کے اختتام سے پہلے ٹَس سے مَس ہو جائے۔
ہم نے ہیروشیما کو جب اپنی آنکھوں سے دیکھا تو یقین نہیں آیا کہ یہ وہی شہر ہے جس پر ایٹم بم گرا تھا۔ جاپان کے جغرافیہ پر نظر ڈالیں تو یہ ایک عجیب وغریب ملک ہے جو مختلف چھوٹے بڑے دشوارگزار جزائر پر مشتمل ہے اور قدرتی وسائل کی یہاں بہت کمی ہے لیکن جفاکَش جاپانیوں نے اِس کمی کو آڑھے آنے نہیں دیا۔
زندہ قوموں کا یہی کمال ہے جو لازوال ہے۔ اُبھرتے سورج کی سر زمین پر جب ہم نے طلوع آفتاب کا منظر دیکھا تو منہ سے بے ساختہ نکل گیا کہ :
آفتاب آمد دلیلِ آفتاب
قدرتی وسائل سے مالا مال اپنے وطنِ عزیز کا جب جاپان سے موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں شدید شرمندگی محسوس ہوتی ہے جسے ہم نے مسائلستان بنا دیا ہے۔