بلدیاتی شعورکا فقدان
بلدیاتی اداروں کے برعکس کنٹونمنٹس بورڈ کے علاقوں کی صورت حال بہتر ہے اور وہاں قوانین پر عمل بھی ہوتا ہے
بلدیاتی ادارے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے میئر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب صدیقی کو عہدہ سنبھالے 6 ماہ سے زیادہ ہوگئے ہیں اور ان کے ساتھ پیپلزپارٹی نے کراچی کے دیہی علاقے سے تعلق رکھنے والے شخص سلمان مراد کو ڈپٹی میئر منتخب کرا کر کراچی کے دیہی علاقوں کو بھی پہلی بار نمایندگی دی ہے جب کہ ماضی میں منتخب سٹی ناظمین اور میئروں کا تعلق شہری کراچی سے ہی رہا جب کہ دیہی کراچی کے لیے ضلع کونسل کراچی ان کی نمایندگی کرتی رہی ہے۔
پیپلز پارٹی نے اپنی کئی سال سے کی جانے والی منصوبہ بندی کے تحت پہلی بار بلدیہ عظمیٰ میں اپنا میئر منتخب کرا لیا تھا اور اسے مشیر قانون کا عہدہ دینے کے ساتھ بلدیاتی الیکشن سے قبل بلدیہ عظمیٰ کا ایڈمنسٹریٹر مقرر کرکے اس کی بلدیاتی تربیت بھی کرا دی تھی جس کے اختیارات اور اثرورسوخ بھی تمام سابق سرکاری ایڈمنسٹریٹروں سے زیادہ تھا اور پہلی بار پی پی حکومت نے اپنے میئر کو اضافی اختیارات بھی دیے جس سے امید تھی کہ جیالا میئر اپنے شہرکے لیے کچھ کرکے دکھائے گا مگر میئرکی 6 ماہ سے زائد مدت گزر جانے کے بعد کراچی کی حالت میں کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آئی۔
میئر نے اپنے لیے اختیارات تو حاصل کر لیے تھے مگر وہ سندھ حکومت سے کراچی کے لیے خصوصی گرانٹ نہیں لے سکے تھے جب کہ بلدیہ عظمیٰ مالی طور پر مستحکم نہیں۔
کراچی کے شہری علاقے پی ای سی ایچ ایس سے تعلق رکھنے والے میئر کو کراچی کے دیہی علاقے سے یوسی چیئرمین منتخب کرا کر پیپلز پارٹی نے انھیں قانونی میئر بھی بنوا دیا ہے اور اب میئر کی توجہ بلدیہ عظمیٰ کے معاملات پر ہے۔
کراچی میں اب نگراں حکومت ہے اور سندھ کی پی پی کی 15 سال کی طویل حکومت کے دوران سندھ حکومت نے وفاق کی تمام حکومتوں کی طرح کراچی کو اہمیت صرف اپنے سیاسی مفاد کے لیے دی، کراچی کو اس کا وہ حق نہیں دیا جوکراچی کو ملنا چاہیے تھا۔
کراچی 15 سال تک پی پی کی سندھ حکومت کا مالی طور پر مکمل محتاج رہا اور اٹھارہویں ترمیم کے بعد توکراچی وزیر اعلیٰ سندھ کے رحم و کرم پر رہا جنھوں نے آئین کے تحت بلدیہ عظمیٰ کو ضرورت کے مطابق گرانٹ نہیں دی تمام اختیارات اپنے پاس رکھے اور محض چند سڑکیں بنوا کر اہل کراچی پر احسان جتایا کہ یہ سب سندھ حکومت نے بنوائی ہیں اور بعض منصوبوں کا افتتاح پی پی چیئرمین بلاول بھٹو سے کرایا تھا۔
میئر کراچی ہی نہیں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور ان کے تینوں بچے کراچی میں پیدا ہوئے اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو کراچی کے پیدائشی شہری ہیں مگر سندھ کی اپنی 15 سالہ حکومت میں کراچی کا حق ادا نہیں کیا جس طرح لاہور کے شریف خاندان اور پی پی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے لاہور اور ملتان کو ترقی دلا کر کیا اور پی پی کے ہی وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے اپنی ایک سال کی حکومت میں اپنے شہر گوجرخان پر جو توجہ دی تھی اگر اتنی ہی توجہ پیپلز پارٹی نے کراچی پر دی ہوتی تو آج کراچی اس بدحالی کا شکار نہ ہوتا جس کی تباہ حالی پر اہل کراچی ہی نہیں بلکہ کراچی کا احساس رکھنے والے بھی دکھی ہیں۔
پی پی مخالفین کا کہنا ہے کہ اپنی حکومت کے 15سالوں میں پیپلز پارٹی کے قائدین نے نواب شاہ اور لاڑکانہ پر ہی توجہ نہیں دی نہ وہاں ترقی ہوئی جہاں سے وہ منتخب ہوئے تو وہ کراچی پر کیا توجہ دیتے جہاں ان کا ووٹ بینک دہی علاقوں تک محدود ہے اگر کراچی کے پیپلز پارٹی کے قائدین چاہتے تو کراچی کا شہری ووٹ پی پی کا حامی ہوتا۔
کراچی کے علاقے لیاری کو پی پی اپنا گڑھ قرار دیتی ہے مگر لیاری کی حالت کراچی کے دیہی علاقوں سے بھی بدتر ہے جہاں پی پی کا بڑا ووٹ بینک ہے۔ پی پی کی تین حکومتوں میں لیاری کو بھی قابل ذکر ترقی نہیں ملی جو شہری علاقہ ہے اور تمام قومیں وہاں مل جل کر رہ رہی ہیں۔ لیاری میں جن مافیاز نے لیاری کو بدنام کیا اور موجودہ حال میں پہنچایا اس کے ذمے دار بھی پیپلز پارٹی کے رہنما رہے ہیں۔
یوں تو کراچی میں ہر قسم کی مافیاز کی بھرمار ہے، محکمہ بلدیات نے بلدیہ عظمیٰ کے ان تمام اداروں کو اپنے قبضے میں کر رکھا ہے جو سٹی حکومت میں اس کا حصہ تھے جن میں واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، کے بی سی اے، کے ڈی اے، ایم ڈی اے و دیگر وہ ادارے جو بلدیہ عظمیٰ میں ہونے چاہئیں مگر وہ سب سندھ حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔
صفائی و کچرا اٹھانا بلدیاتی اداروں کی ذمے داری ہوتی ہے مگر سندھ حکومت نے یہ بھی ان سے چھین لی تھی اور ایک ادارہ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ بنا کر وہاں بھی اپنے سرکاری افسر تعینات کر دیے تھے اور اب یہ کام بھی بلدیہ عظمیٰ کے پاس نہیں ہے۔
بلدیاتی ادارے خود مافیاز بنے ہوئے ہیں۔ ہر بلدیاتی ادارے میں سیاسی بھرتیوں کے باعث ملازمین اضافی تعداد میں موجود ہیں اور ان اداروں کا بجٹ اپنے ہی ملازمین کی تنخواہوں کے لیے پورا نہیں ہوتا۔ ملازمین کر بروقت تنخواہیں ملتی ہیں نہ ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن اور ان کی رقوم۔ ہر بلدیاتی ادارہ کرپشن کا گڑھ ہے۔
فٹ پاتھوں پر قبضے، تجاوزات کی بھرمار، غیر قانونی تعمیرات، صفائی کی ابتر صورت حال، شہر کی اندرونی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، رات کو تاریکی، کھلے گٹر، سیوریج کے گندے پانی سے زیر آب سڑکیں، شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی عدم فراہمی کی شکایات یہ سب مافیاز کی وجہ سے ہے۔
بلدیاتی اداروں کے برعکس کنٹونمنٹس بورڈ کے علاقوں کی صورت حال بہتر ہے اور وہاں قوانین پر عمل بھی ہوتا ہے مگر بلدیاتی اداروں کے پاس اپنی پولیس تو ہے مگر میونسپل مجسٹریٹوں کے عہدے ختم کیے جا چکے۔ ہر طرف بلدیاتی قوانین کی پامالی عام انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اندرون شہر ماسی مافیاز کچرا بڑھانے میں مصروف، گھروں کی صفائی کے بعد گھریلو کچرا یہ ماسیاں واپس جاتے ہوئے شاپرز میں کہیں بھی رکھ جاتی ہیں یا کھلے گٹروں میں ڈال جاتی ہیں۔
بلدیاتی اداروں میں چیک اینڈ بیلنس سسٹم موجود نہیں۔ شہری گھروں کے آگے مرمتی ملبہ پھیلا کر اپنے گھروں کا راستہ اونچا کر لیتے ہیں خود کچرا پھینک دیتے ہیں ہر طرف بلدیاتی شعور کا فقدان عام ہو چکا ہے۔