وارداتوں سے تنگ عوام ڈاکوؤں کے مقابلے میں آ گئے
صرف 4 روز میں 7ڈاکوشہریوں کے ہاتھوں ہلاک، گزشتہ برس133افراد دوران ڈکیتی مزاحمت پر مارے جا چکے
شہر قائد میں گزشتہ برس 2023ء کے دوران پولیس کے اعلیٰ افسران کے دعوؤں کے باوجود شہر بھر میں اسٹریٹ کرائمز، گھروں اور دکانوں میں گھس کر لوٹ مار کی وارداتیں عروج پر رہیں۔
اس دوران سفاک ڈاکوؤں نے لوٹ مار کے دوران مزاحمت پر مجموعی طور پر 133 افراد کو فائرنگ سے موت کے گھاٹ اتار کر مقتولین کے لواحقین کو زندگی بھر کے لیے اپنے پیاروں کی یاد میں روتا اور بلکتا چھوڑ دیا۔
لوٹ مار کی وارداتوں سے عاجز مشتعل عوام کی جانب سے وقتاً فوقتاً سڑکوں پر ہی اپنی عدالت لگا کر ڈاکوؤں کو پکڑ کر انھیں منطقی انجام تک پہنچانے کے واقعات بھی پیش آتے رہے لیکن گزشتہ سال دسمبر کے آخری عشرے میں تو عوام کا پارہ انتہاء کو پہنچ گیا اور انھوں نے گزشتہ ماہ 21 دسمبر سے 24 دسمبر تک محض 4 روز میں لوٹ مار کرنے والے 7 ڈاکوؤں کو پکڑ کر تشدد اور فائرنگ کا نشانہ بنا کر انھیں مار ہی ڈالا جو کہ پولیس کی کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
گزشتہ سال 21 دسمبر کو ڈسٹرکٹ ویسٹ کے علاقے اورنگی ٹاؤن سیکٹر ون ڈی قذافی چوک نزد برکت ہسپتال کے قریب ڈاکوؤں نے لوٹ مار کے دوران مزاحمت پر دکاندار 30 سالہ شہروز کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا ، مقتول کو سینے پر لگنے والی گولی جان لیوا ثابت ہوئی۔
واردات کے بعد موقع پر موجود مشتعل افراد نے انتہائی ہمت اور دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھیرا ڈال کر لوٹ مار کی واردات میں ملوث تینوں ڈاکوؤں کو پکڑ لیا اور انھیں تشدد کا نشانہ بنا کر شدید زخمی کر دیا اور اطلاع پر پولیس نے موقع پر پہنچ کر سخت جدوجہد کے بعد شدید زخمی ہونے والے تینوں ڈاکوؤں کو طبی امداد کے لیے ہسپتال پہنچایا تاہم وہ عوامی تشدد کو برداشت نہ کر سکے اور تینوں ڈاکو ہلاک ہوگئے۔
واردات کے دوران دکاندار کے قتل پر علاقہ مکینوں میں شدید اشتعال پھیل گیا اور انھوں نے پولیس کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ میں ڈکیتی کی وارداتیں عروج پر ہیں۔۔
ایک روز قبل 20 دسمبر کو بھی پاکستان بازار کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں نوجوان 25 سالہ راحیل کو موبائل فون چھیننے کے دوران اس کے گھر کے سامنے سینے پر گولی مار کر قتل کیا گیا اور دوسرے روز پھر ایک دکاندار 28 سالہ شہروز کو مزاحمت پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا ، پولیس کی ناقص کارکردگی کا خمیازہ شہریوں کو زندگی کی بازی ہار کر اور زخمی ہونے کے ساتھ مال و اسباب لٹنے کی شکل میں برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
آئی جی سندھ اور نہ ہی کراچی پولیس چیف خود ساختہ میرٹ کے نام پر تعینات کیے جانے والے پولیس افسران سے یہ پوچھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کر رہے کہ آخر شہر میں ہو کیا رہا ہے؟۔
ڈاکوؤں کی فائرنگ سے زندگی کی بازی ہارنے والے دکاندار شہروز کے والد نے انتہائی غم زدہ حالت میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ڈکیتی کی وارداتیں روز کا معمول ہیں، مہینے میں 20 ڈکیتیاں ہمارے روڈ پر ہوتی ہیں ، جب میں دکان پر بیٹھتا تھا تو تین سے چار بار تو میں خود لٹا ہوں اور پچھلے مہینے میں 2 بار ہماری دکان پر ڈکیتی ہوئی ہے۔
عوام کے ہاتھوں 3 ڈاکوؤں کی ہلاکت کے حوالے سے ایس ایچ او اورنگی ٹاؤن علی رضا نے بتایا کہ ڈاکوؤں کے قبضے سے 3 پستول اور پیر آباد تھانے کی حدود سے چھینی گئی 125 موٹر سائیکل برآمد ہوئی ہے جبکہ مارے جانے والے 3 ڈاکوؤں میں سے 2 ڈاکوؤں کی شناخت امجد علی اور سلمان کے نام سے کی گئی جو کہ سائٹ میٹروول کے رہائشی اور ان کا کرمنل ریکارڈ بھی سامنے آیا ہے۔
اورنگی ٹاؤن میں عوام کے ہاتھوں 3 ڈاکوؤں کی ہلاکت کو کچھ گھنٹے ہی گزرے تھے کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ ہی کے علاقے سرجانی ٹاؤن میں سیمنٹ ڈپو کے مالک کی فائرنگ سے 2 ڈاکوؤں کی ہلاکت کا واقعہ سامنے آگیا اور اس واقعہ کی تفصیلات بتائے ہوئے ایس ایچ او سرجانی ٹاؤن امجد کیانی کا کہنا تھا کہ گلشن توفیق میں قائم سیمنٹ ڈپو کے مالک شیر زمان نے پولیس کو بتایا کہ ایک گاہک جو کہ اس کا دوست بھی تھا وہ سیمنٹ کی بوریاں لینے آیا تھا کہ اس دوران موٹر سائیکل پر سوار 2 ڈاکو لوٹ مار کی نیت سے آگئے اور اسلحہ نکال لیا۔
اس دوران اس نے اپنے پستول سے ڈاکوؤں پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ایک ڈاکو موقع پر ہی ہلاک ہوگیا جبکہ دوسرا شدید زخمی ہوگیا جو بعدازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگیا جن کی شناخت مدثر اور علی کے نام سے کی گئی جو کہ سرجانی ٹاؤن کے علاقے علی محمد گوٹھ کے رہائشی تھے اور ان کا بھی کرمنل ریکارڈ سامنے آیا ہے۔
ایک ہی روز شہریوں کے ہاتھوں 5 ڈاکوؤں کی ہلاکت کا ایسا اثر ہوا کہ 22 دسمبر بروز جمعے کو صبح سے لیکر رات گئے تک شہر میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر ایک شہری کے بھی ڈاکوؤں کی فائرنگ سے زخمی ہونے کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا تاہم 24 دسمبر کا دن ایک بار پھر سے ڈاکوؤں پر بھاری رہا اور اس دوران کورنگی کے علاقے غوث پاک روڈ پر ڈاکو لوٹ مار کے بعد فرار ہو رہے تھے کہ عوام نے ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں ڈاکوؤں کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنا ڈالا جس کے نتیجے میں ایک ڈاکو موقع پر ہی ہلاک ہوگیا جبکہ اس کے ساتھی کو پولیس نے شدید زخمی حالت میں گرفتار کر کے اسلحہ ، چھینے ہوئے موبائل فونز اور موٹر سائیکل برآمد کرلی۔
پولیس ابھی اس واقعہ کی تحقیقات ہی کر رہی تھی کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ کے علاقے مومن آباد اورنگی ٹاؤن نمبر 10 النور قبرستان کے قریب اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں سے عاجز عوام ایک بار پھر سے انتہائی متحرک دکھائی دیے اور انھوں نے شہریوں سے لوٹ مار کے بعد فرار ہونے والے موٹر سائیکل پر سوار 2 ڈاکوؤں کا تعاقب کیا اور ایک ڈاکو کو اپنے نرغے میں لیکر تشدد کا نشانہ بنا کر شدید زخمی کر دیا جسے پولیس نے اپنی حراست میں لیکر انتہائی تشویشناک حالت میں عباسی شہید اسپتال پہنچایا جہاں وہ عوامی تشدد برداشت نہ کرتے ہوئے ہلاک ہوگیا جبکہ اس کا ساتھی موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
شہر میں 4 روز کے دوران 7 ڈاکوؤں کی عوام کے ہاتھوں ہلاکت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شہری اسٹریٹ کرمنلز سے کس حد تک عاجز آچکے ہیں اور وہ جان کی پرواہ کیے بغیر ایک موبائل فون کی خاطر شہریوں کو زخمی اور انھیں زندگی سے محروم کرنے والے ڈاکوؤں کا دلیری اور بہادری سے مقابلہ کر کے انھیں منطقی انجام تک پہنچ رہے ہیں اور دوسری جانب پولیس کے اعلیٰ افسران شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں کمی کا دعویٰ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جبکہ زمینی حقائق تو کچھ اور ہی بتا رہے ہیں۔
اس دوران سفاک ڈاکوؤں نے لوٹ مار کے دوران مزاحمت پر مجموعی طور پر 133 افراد کو فائرنگ سے موت کے گھاٹ اتار کر مقتولین کے لواحقین کو زندگی بھر کے لیے اپنے پیاروں کی یاد میں روتا اور بلکتا چھوڑ دیا۔
لوٹ مار کی وارداتوں سے عاجز مشتعل عوام کی جانب سے وقتاً فوقتاً سڑکوں پر ہی اپنی عدالت لگا کر ڈاکوؤں کو پکڑ کر انھیں منطقی انجام تک پہنچانے کے واقعات بھی پیش آتے رہے لیکن گزشتہ سال دسمبر کے آخری عشرے میں تو عوام کا پارہ انتہاء کو پہنچ گیا اور انھوں نے گزشتہ ماہ 21 دسمبر سے 24 دسمبر تک محض 4 روز میں لوٹ مار کرنے والے 7 ڈاکوؤں کو پکڑ کر تشدد اور فائرنگ کا نشانہ بنا کر انھیں مار ہی ڈالا جو کہ پولیس کی کارکردگی پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
گزشتہ سال 21 دسمبر کو ڈسٹرکٹ ویسٹ کے علاقے اورنگی ٹاؤن سیکٹر ون ڈی قذافی چوک نزد برکت ہسپتال کے قریب ڈاکوؤں نے لوٹ مار کے دوران مزاحمت پر دکاندار 30 سالہ شہروز کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا ، مقتول کو سینے پر لگنے والی گولی جان لیوا ثابت ہوئی۔
واردات کے بعد موقع پر موجود مشتعل افراد نے انتہائی ہمت اور دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھیرا ڈال کر لوٹ مار کی واردات میں ملوث تینوں ڈاکوؤں کو پکڑ لیا اور انھیں تشدد کا نشانہ بنا کر شدید زخمی کر دیا اور اطلاع پر پولیس نے موقع پر پہنچ کر سخت جدوجہد کے بعد شدید زخمی ہونے والے تینوں ڈاکوؤں کو طبی امداد کے لیے ہسپتال پہنچایا تاہم وہ عوامی تشدد کو برداشت نہ کر سکے اور تینوں ڈاکو ہلاک ہوگئے۔
واردات کے دوران دکاندار کے قتل پر علاقہ مکینوں میں شدید اشتعال پھیل گیا اور انھوں نے پولیس کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ میں ڈکیتی کی وارداتیں عروج پر ہیں۔۔
ایک روز قبل 20 دسمبر کو بھی پاکستان بازار کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں نوجوان 25 سالہ راحیل کو موبائل فون چھیننے کے دوران اس کے گھر کے سامنے سینے پر گولی مار کر قتل کیا گیا اور دوسرے روز پھر ایک دکاندار 28 سالہ شہروز کو مزاحمت پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا ، پولیس کی ناقص کارکردگی کا خمیازہ شہریوں کو زندگی کی بازی ہار کر اور زخمی ہونے کے ساتھ مال و اسباب لٹنے کی شکل میں برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
آئی جی سندھ اور نہ ہی کراچی پولیس چیف خود ساختہ میرٹ کے نام پر تعینات کیے جانے والے پولیس افسران سے یہ پوچھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کر رہے کہ آخر شہر میں ہو کیا رہا ہے؟۔
ڈاکوؤں کی فائرنگ سے زندگی کی بازی ہارنے والے دکاندار شہروز کے والد نے انتہائی غم زدہ حالت میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ڈکیتی کی وارداتیں روز کا معمول ہیں، مہینے میں 20 ڈکیتیاں ہمارے روڈ پر ہوتی ہیں ، جب میں دکان پر بیٹھتا تھا تو تین سے چار بار تو میں خود لٹا ہوں اور پچھلے مہینے میں 2 بار ہماری دکان پر ڈکیتی ہوئی ہے۔
عوام کے ہاتھوں 3 ڈاکوؤں کی ہلاکت کے حوالے سے ایس ایچ او اورنگی ٹاؤن علی رضا نے بتایا کہ ڈاکوؤں کے قبضے سے 3 پستول اور پیر آباد تھانے کی حدود سے چھینی گئی 125 موٹر سائیکل برآمد ہوئی ہے جبکہ مارے جانے والے 3 ڈاکوؤں میں سے 2 ڈاکوؤں کی شناخت امجد علی اور سلمان کے نام سے کی گئی جو کہ سائٹ میٹروول کے رہائشی اور ان کا کرمنل ریکارڈ بھی سامنے آیا ہے۔
اورنگی ٹاؤن میں عوام کے ہاتھوں 3 ڈاکوؤں کی ہلاکت کو کچھ گھنٹے ہی گزرے تھے کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ ہی کے علاقے سرجانی ٹاؤن میں سیمنٹ ڈپو کے مالک کی فائرنگ سے 2 ڈاکوؤں کی ہلاکت کا واقعہ سامنے آگیا اور اس واقعہ کی تفصیلات بتائے ہوئے ایس ایچ او سرجانی ٹاؤن امجد کیانی کا کہنا تھا کہ گلشن توفیق میں قائم سیمنٹ ڈپو کے مالک شیر زمان نے پولیس کو بتایا کہ ایک گاہک جو کہ اس کا دوست بھی تھا وہ سیمنٹ کی بوریاں لینے آیا تھا کہ اس دوران موٹر سائیکل پر سوار 2 ڈاکو لوٹ مار کی نیت سے آگئے اور اسلحہ نکال لیا۔
اس دوران اس نے اپنے پستول سے ڈاکوؤں پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ایک ڈاکو موقع پر ہی ہلاک ہوگیا جبکہ دوسرا شدید زخمی ہوگیا جو بعدازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہوگیا جن کی شناخت مدثر اور علی کے نام سے کی گئی جو کہ سرجانی ٹاؤن کے علاقے علی محمد گوٹھ کے رہائشی تھے اور ان کا بھی کرمنل ریکارڈ سامنے آیا ہے۔
ایک ہی روز شہریوں کے ہاتھوں 5 ڈاکوؤں کی ہلاکت کا ایسا اثر ہوا کہ 22 دسمبر بروز جمعے کو صبح سے لیکر رات گئے تک شہر میں ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر ایک شہری کے بھی ڈاکوؤں کی فائرنگ سے زخمی ہونے کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا تاہم 24 دسمبر کا دن ایک بار پھر سے ڈاکوؤں پر بھاری رہا اور اس دوران کورنگی کے علاقے غوث پاک روڈ پر ڈاکو لوٹ مار کے بعد فرار ہو رہے تھے کہ عوام نے ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں ڈاکوؤں کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنا ڈالا جس کے نتیجے میں ایک ڈاکو موقع پر ہی ہلاک ہوگیا جبکہ اس کے ساتھی کو پولیس نے شدید زخمی حالت میں گرفتار کر کے اسلحہ ، چھینے ہوئے موبائل فونز اور موٹر سائیکل برآمد کرلی۔
پولیس ابھی اس واقعہ کی تحقیقات ہی کر رہی تھی کہ ڈسٹرکٹ ویسٹ کے علاقے مومن آباد اورنگی ٹاؤن نمبر 10 النور قبرستان کے قریب اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں سے عاجز عوام ایک بار پھر سے انتہائی متحرک دکھائی دیے اور انھوں نے شہریوں سے لوٹ مار کے بعد فرار ہونے والے موٹر سائیکل پر سوار 2 ڈاکوؤں کا تعاقب کیا اور ایک ڈاکو کو اپنے نرغے میں لیکر تشدد کا نشانہ بنا کر شدید زخمی کر دیا جسے پولیس نے اپنی حراست میں لیکر انتہائی تشویشناک حالت میں عباسی شہید اسپتال پہنچایا جہاں وہ عوامی تشدد برداشت نہ کرتے ہوئے ہلاک ہوگیا جبکہ اس کا ساتھی موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
شہر میں 4 روز کے دوران 7 ڈاکوؤں کی عوام کے ہاتھوں ہلاکت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شہری اسٹریٹ کرمنلز سے کس حد تک عاجز آچکے ہیں اور وہ جان کی پرواہ کیے بغیر ایک موبائل فون کی خاطر شہریوں کو زخمی اور انھیں زندگی سے محروم کرنے والے ڈاکوؤں کا دلیری اور بہادری سے مقابلہ کر کے انھیں منطقی انجام تک پہنچ رہے ہیں اور دوسری جانب پولیس کے اعلیٰ افسران شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں کمی کا دعویٰ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جبکہ زمینی حقائق تو کچھ اور ہی بتا رہے ہیں۔