تکنیکی تعلیم ضروری ہے

ملک میں نوجوانوں کے لیے تکنیکی تعلیم کے پروگرام شروع کیے جائیں


شہریار شوکت January 02, 2024
تکنیکی تعلیم کی جانب پیش قدمی سے ہماری قسمت بدل سکتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان کی آبادی کا بیشتر حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ نوجوان ملک و ملت کا مستقبل ہوتے ہیں، جو دماغی و جسمانی لحاظ سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ہمت، جذبہ، ذہانت، قوت و دیگر صلاحیتیں ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہیں۔ مملکتِ خداداد کی یہ خوش نصیبی ہے کہ پاکستان کی آبادی میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ نوجوان کسی بھی ملک کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ قابل اور ہنرمند نوجوان ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔


آج کے سائنسی و ترقی یافتہ دور میں ان ممالک کی معیشت پروان چڑھی ہے، جنہوں نے تکنیکی تعلیم پر خصوصی توجہ دی۔ اسی لیے ماہرین، فنی تعلیم کو کسی بھی ملک کے معاشی استحکام کا ضامن قرار دیتے ہیں۔ بلاشبہ جن ممالک نے فنی تعلیم کو اپنی عمومی تعلیم کا حصہ بناکر اس پر توجہ دی وہاں معاشی ترقی کی رفتار زیادہ ہے۔


دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ ایسے میں ٹیکنالوجی میں جدت آنے سے انسانی اہمیت کم ہورہی ہے، اداروں میں انسانوں کی جگہ مشینیں لے رہی ہیں۔ اس صورتحال میں اگر تعلیم کو جدید طرز پر استوار نہ کیا گیا تو بےروزگاری اور ناامیدی میں اضافہ ہوگا۔ جب کبھی بےروزگاری اور ناامیدی میں اضافہ ہوتا ہے تو امن و امان کی صورتحال خراب ہوتی ہے۔ موجودہ ترقی یافتہ دور میں ان ہی لوگوں کی ملازمت اور روزگار محفوظ ہے جو کسی نہ کسی ہنر کو اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔


دنیا بھر میں کئی پاکستانی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، یہ اوورسیز پاکستانی مملکت کا خاص اثاثہ ہیں اور ملکی معیشت کا استحکام بھی ان پر کسی حد تک منحصر ہے۔ ان افراد میں سے بھی اکثر کم مدتی تکنیکی کورس کرنے کے بعد ہی ملازمت پاتے ہیں۔ چین، جاپان اور ان جیسے ماضی کے کئی تباہ حال ممالک نے بھی اپنے لوگوں کو ہنرمند بناکر ترقی کی منازل کو عبور کیا۔ پاکستان کی معیشت اس وقت انتہائی مشکل میں ہے۔ ملک میں سیاسی عدم اعتماد اور باہمی رسی کشی کی وجہ سے استحکام کی کمی ہے۔ ایسے میں بے روزگاری میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ کارخانے اور دیگر ادارے اپنے نقصان کو ختم یا کم کرنے کی خاطر ملازمین کی تعداد میں کمی کررہے ہیں۔ اس مایوس کن صورتحال میں تعلیم یافتہ نوجوان بھی معاشی مشکلات اور مایوس کن صورتحال سے گزر رہے ہیں۔ لیکن تکنیکی تعلیم رکھنے والے افراد مشکل وقت میں بھی کسی نہ کسی طرح اپنے معمولات زندگی بہتر انداز میں گزار رہے ہیں۔ اس دور میں یہ ثابت ہوگیا کہ واقعی ہنر دولت ہے۔


اہمیت کے حامل پاکستان کے صوبہ سندھ کی آبادی میں نصف فیصد سے زیادہ نوجوان ہیں، جہاں یہ اس صوبے کی خوش بختی ہے وہیں یہ بات بھی حیران کن ہے کہ ان نوجوانوں کی اکثریت بے روزگار ہے۔ نوجوانوں کو ملک بھر میں ملازمتیں فراہم کی جائیں یہ آسان نہیں، لہٰذا بہترین طریقہ کار یہی ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت ہنرمند ہو اور اپنے لیے خود روزگار کے مواقعے حاصل کرے۔ اسی طرح یہ ہنرمند افراد چھوٹے پیمانے کے کاروبار کرکے اپنے روزگار کے حصول کے ساتھ ساتھ دوسرے افراد کےلیے بھی روزگار کا باعث بن سکتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت کی توجہ اس نوجوان افرادی قوت کی جانب بالکل بھی نہیں ہے۔ برائے نام چند پروجیکٹس نوجوانوں کے لیے شروع کیے جاتے ہیں، جن میں سے اکثر کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں اور نوجوان ہمیشہ کی طرح خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔


یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ نہ صرف حکومت کی جانب سے نوجوانوں پر خصوصی توجہ دی جائے اور ملک میں نوجوانوں کے لیے تکنیکی تعلیم کے پروگرام شروع کیے جائیں بلکہ ملک بھر میں ایسی تشہیری مہم کا آغاز کیا جائے جس سے طلبا تکنیکی تعلیم کی اہمیت کو سمجھ سکیں۔ جب تک ملک بھر کے نوجوانوں میں تکنیکی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ملک سے بےروزگاری کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ کورس کرنے والے طلبا کے لیے پالیسی کو مزید سخت بنانا ہوگا تاکہ ان بلامعاوضہ کورسوں کے ساتھ 'مالِ مفت دلِ بے رحم' والا حال نہ ہو۔ حکومت اور عوام مل کر اگر سنجیدگی سے اس جانب توجہ دیں کہ ملک کے نوجوانوں کو تکنیکی تعلیم دی جائے اور ہنرمند بنایا جائے تو وہ وقت دور نہیں جب ہم بھی ترقی کی منازل طے کرجائیں گے۔


ہمیں اپنے اسکولنگ سسٹم درجے کے تعلیم نظام میں بھی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ تکنیکی کورس اسکول لیول پر بھی متعارف کرانا ہوں گے اور نہم و دہم کے طلبا کو بھی رٹا سسٹم سے ہٹا کر تکنیکی تعلیم کی جانب مائل کرنا ہوگا۔ تکنیکی تعلیم ہی سے دنیا نے ترقی کی اور تکنیکی تعلیم کی جانب ہماری پیش قدمی سے ہماری بھی قسمت بدل سکتی ہے، بس اقدامات سنجیدگی سے کرنا ہوں گے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں