مہنگائی کے ملکی معیشت و عوام پر منفی اثرات
پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ نگران حکومت بھی مہنگائی قابو کرنے میں ناکام رہی
سال 2023 بدترین مہنگائی کا سال رہا، مہنگائی نے گزشتہ سال کے دوران 37 فی صد کی انتہائی بلند شرح کو عبور کیا جب کہ کھانے پینے کی اشیاء میں اوسطاً 50 فی صد سے زیادہ اضافے کا ریکارڈ بھی اسی سال قائم ہوا۔
پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ نگران حکومت بھی مہنگائی قابو کرنے میں ناکام رہی۔ 2023 کے دوران بجلی، گیس کی قیمت میں اضافے نے مہنگائی کے شکار عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا۔
ملک کے لاکھوں خاندان مہنگائی کی بناء پر زندگی تنگ محسوس کر رہے ہیں۔ نچلا طبقہ تو ہے ہی بیچارہ لیکن اب تو مہنگائی نے متوسط طبقے کی بھی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اب متوسط طبقہ بہت سی اشیا جن میں بکرے اور مرغی کا گوشت، اعلیٰ معیار کے چاول اور دالوں کو اپنے مینیو سے خارج کر چکا ہے۔
آج متوسط طبقے کی اکثریت بینکوں یا انفرادی افراد کی مقروض ہے۔ اپنے بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے اپنے زیورات بڑی تعداد میں فروخت کر رہے ہیں۔
حکومت کے مطابق بجلی کی کمی پر قابو پانے کا صرف یہ طریقہ ہے کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے بجلی گیس کی سبسڈی ختم کردی جائے اور اس کے نرخوں میں اتنا اضافہ کیا جائے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے کشش زیادہ ہو جائے، جو بہرحال ظالمانہ روش ہے۔ ماہرینِ اقتصادیات زرعی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ ناقص حکمت عملی کو قرار دیتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کسانوں کو بنیادی ضروریات مثلاً بیج، کیمیائی کھاد، جراثیم کش ادویات وغیرہ مہنگے داموں ملتی ہیں، یوں فی ایکڑ اخرجات بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔ پھر کھیت سے شہر کی منڈی کے درمیان میں مختلف کردار متحرک ہو جاتے ہیں۔
ضرورت سے زیادہ منافع یا اجارہ داری قائم کرنے کے کمپنیوں یا افراد کے گٹھ جوڑ کو کارٹلائزیشن کہا جاتا ہے ان کا یہ کارٹل بنانے کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا ہوتا ہے دنیا بھر میں حکومتیں اس کارٹل کو توڑنے کے لیے قوانین بناتی ہیں پاکستان میں بھی اس پر مسابقتی کمیشن کا ادارہ موجود ہے لیکن وہ کارٹل مافیا کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے۔
جب آمدن کے مقابلے میں ضروریات زندگی کی قیمتیں بڑھ جائیں تو مہنگائی فروغ پا جاتی ہے۔ زیادہ پیسوں میں تھوڑی چیز میسر ہونے کو بھی معاشیات میں مہنگائی کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہر محکمہ اور ادارہ خطرناک حد تک کرپشن میں مبتلا ہوچکا ہے۔
روپیہ ڈالر کی محکومیت کا شکار ہے اس معاشی افراتفری میں اشیاء کی قیمتوں کا کنٹرول میں رہنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ بے شمار ٹیکس بھی قیمتوں میں اضافے کا موجب بن رہے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی ناجائز بلیک مارکیٹنگ اور رسد میں رکاوٹ بھی مہنگائی کا باعث ہوتی ہے۔
بے دریغ لیے گئے غیر ملکی قرضہ جات بھی معیشتیں کمزورکرتے ہیں، حکومتی اخراجات اور معاشی خسارہ پورا کرنے کے لیے بے تحاشا نوٹ چھاپنے سے بھی افراط زر پھیلتا ہے۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم بھی مہنگائی کو بڑھاوا دیتی ہے کیونکہ دولت مند افراد کم وسائل کے حامل لوگوں کو لوٹنے لگ جاتے ہیں جو مہنگائی کا باعث بنتے ہیں۔
آئے روز بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت نے گیس بھی مہنگی کرنا شروع کر دی ہے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق گھریلو صارفین کے ساتھ ساتھ کمرشل صارفین، ہوٹلوں، کھاد کے کارخانوں، صنعتی صارفین، اسٹیل انڈسٹری پر ہوگا تو پھر ظاہر ہے کہ اس سے عام آدمی بہت متاثر ہوگا۔
ادھر پاکستان ورلڈ ہنگر انڈیکس 125 ممالک میں 102 ویں نمبر پر ہے۔ بنیادی طور پر یہ انڈیکس بھوک کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ زیادہ غذائیت اور وہ بھی بچوں کی غذائی قلت پر مبنی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ روایتی معنوں میں بھوک کا مطلب غذائی اجناس کی دستیابی میں کمی ہے، جو پاکستان میں موجود نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں گزشتہ کچھ عرصہ میں بیروزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے۔ مہنگائی سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے، عوام نفسیاتی مریض بنتے جارہے ہیں اربابِ اختیار کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کیونکہ اب مزید معاشی قتل کی قوم متحمل نہیں ہو سکتی، علاوہ ازیں جس بے رحمی کے ساتھ عوام کی معاشی زندگی اور ان کے معصوم سے مستقبل کے خواب چکنا چور ہوتے رہے ہیں۔
وہ اب بھی ''آرزو صبر طلب اور تمنا بے تاب'' جیسی نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔ بانیانِ پاکستان نے اس ملک کو فلاحی ریاست کے مقصد کے تحت بنایا تھا، اسے مفاد پرست سیاست دانوں اور اشرافیہ کی چراگاہ بنانے سے عوام کے معاشی مسائل مزید بڑھیں گے۔
یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ اربابِ اختیار اٹھتے طوفان کا پیشگی ادراک کرے اور پالیسیوں کو قومی اور عوامی امنگوں سے ہم آہنگ کرنے میں دیر نہ لگائے، اربابِ اختیار بروٹسوں سے خبردار رہے اور قوم کو دلدل سے نکالے، کرپٹ معاشرے میں آزادی کی بقاء بھی ممکن نہیں ہوتی۔
حکومت جب تک اقتصادی استحکام کو ترجیح نہیں دیتی معاشی عدم استحکام ختم نہیں ہو سکتا۔ لوگوں کے ذرایع آمدن پہلے ہی مہنگائی منفی اثرات کے باعث آدھے سے بھی کم ہو چکے ہیں۔
پرائیویٹ اسپتالوں ڈاکٹروں اور اسکولوں کی بڑھتی ہوئی فیسیں اور مہنگی ادویات بھی مہنگائی میں اضافے کا اہم ذریعہ ہیں صحت اور تعلیم دونوں حکومت کی ذمے داری ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں جو سرکاری اسپتال یا اسکول ہیں وہاں علاج معالجہ اور تعلیم کا معیار اس قدر پست ہے کہ عوام ان کے حصول کے لیے پرائیویٹ اداروں کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہیں۔
عوام سے لیے گئے ٹیکسوں کے عوض ریاست نے عوام کو صحت اور تعلیم کی جو معیاری سہولتیں فراہم کرنی ہوتی ہیں ان سہولتوں کی فراہمی بھی اشرافیہ تک محدود ہے ان حالات میں اشرافیہ نے کم آمدنی والے طبقات کو کچل کر رکھ دیا ہے۔
کنزیومر پرائس انڈکس آبادی کے استعمال کی اشیاء کا جو سیٹ بناتی ہے، اسے سی پی آئی باسکٹ کہا جاتا ہے جس کے مطابق ایک پاکستانی شہری ماہانہ 34.58 فیصد کھانے پر 26.68 فیصد مکان کے کرائے بجلی گیس پانی کے بلوں پر خرچ کرتا ہے 8.6 فیصد کپڑوں جوتوں پر 7 فیصد ہوٹلنگ پر 6 فیصد ٹرانسپورٹ کرایوں پر 3.8 فیصد تعلیم پر اور 2.7 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔
ملک میں جاری مہنگائی، بیروزگاری، سیاسی انتشار کے باعث ذہنی مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہونے لگا، ہر سال 40 فیصد سے 55 فیصد تک اضافہ سامنے آ رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس ذہنی بیماری میں ڈپریشن، اداسی، مایوسی، پریشانی، شدید غصہ، چڑچڑا پن، طبیعت میں تیزی، نیند اڑ جانا، الٹے سیدھے خیالات آنا شامل ہیں۔
اس سارے عمل میں مریض ذہنی طور پر مفلوج ہو جاتا ہے، ریکارڈ کے مطابق لاہور میں اس کی شرح ایک فیصد سے زائد ہے جب کہ ڈپریشن کی بیماری اور دیگر کی شرح 10 سے 15 فیصد ہے۔ دوسری جانب ذہنی تناؤ، دباؤ اور نفسیاتی الجھنوں کے باعث پنجاب کے واحد ادارے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ پر دباؤ بہت بڑھ گیا ہے۔
جب کہ ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف اور دیگر سہولتیں وہی ہیں جو کہ پہلے تھیں۔ گزشتہ تین سال میں ہر سال پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں ذہنی مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ عوام بیروزگاری، دن بہ دن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام سے شدید پریشان ہیں اور ملک کو درپیش مسائل میں سے یہ انتہائی اہم سنگین مسئلہ ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اسے دانستہ طور پر نظر انداز کر رہی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے 15 تا 34 سال کے درمیان عمر کے لوگ کے مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ ملک میں بیروزگاری کی سنگین صورتحال کا اندازہ لگانے کے لیے یہ کافی ہے کہ ڈگری یافتہ نوجوان معمولی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے باوجود بھی ایسے نوجوان درجہ چہارم کی سرکاری ملازمت کے لیے درخواستیں دے رہے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک کی ترقی کی رفتار میں بیروزگاری ایک بڑی رکاوٹ ہے۔مہنگائی کی اس خوفناک اور دہشت ناک صورتحال کو دیکھ کر مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ملک اور اس کے عوام کس صورتحال سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ حکومت کی معاشی ٹیم اپنی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لے، ملکی معیشت کی صورتحال بہت خراب ہوچکی ہے، سارا ملک پریشان ہے، سر جوڑ کر بیٹھیں، کوئی صائب حل نکالیں اور عام آدمی کی مشکلات میں کمی لائیں۔
پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ نگران حکومت بھی مہنگائی قابو کرنے میں ناکام رہی۔ 2023 کے دوران بجلی، گیس کی قیمت میں اضافے نے مہنگائی کے شکار عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا۔
ملک کے لاکھوں خاندان مہنگائی کی بناء پر زندگی تنگ محسوس کر رہے ہیں۔ نچلا طبقہ تو ہے ہی بیچارہ لیکن اب تو مہنگائی نے متوسط طبقے کی بھی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اب متوسط طبقہ بہت سی اشیا جن میں بکرے اور مرغی کا گوشت، اعلیٰ معیار کے چاول اور دالوں کو اپنے مینیو سے خارج کر چکا ہے۔
آج متوسط طبقے کی اکثریت بینکوں یا انفرادی افراد کی مقروض ہے۔ اپنے بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے اپنے زیورات بڑی تعداد میں فروخت کر رہے ہیں۔
حکومت کے مطابق بجلی کی کمی پر قابو پانے کا صرف یہ طریقہ ہے کہ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے بجلی گیس کی سبسڈی ختم کردی جائے اور اس کے نرخوں میں اتنا اضافہ کیا جائے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے اس شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے کشش زیادہ ہو جائے، جو بہرحال ظالمانہ روش ہے۔ ماہرینِ اقتصادیات زرعی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی بنیادی وجہ ناقص حکمت عملی کو قرار دیتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کسانوں کو بنیادی ضروریات مثلاً بیج، کیمیائی کھاد، جراثیم کش ادویات وغیرہ مہنگے داموں ملتی ہیں، یوں فی ایکڑ اخرجات بہت زیادہ ہوگئے ہیں۔ پھر کھیت سے شہر کی منڈی کے درمیان میں مختلف کردار متحرک ہو جاتے ہیں۔
ضرورت سے زیادہ منافع یا اجارہ داری قائم کرنے کے کمپنیوں یا افراد کے گٹھ جوڑ کو کارٹلائزیشن کہا جاتا ہے ان کا یہ کارٹل بنانے کا مقصد زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا ہوتا ہے دنیا بھر میں حکومتیں اس کارٹل کو توڑنے کے لیے قوانین بناتی ہیں پاکستان میں بھی اس پر مسابقتی کمیشن کا ادارہ موجود ہے لیکن وہ کارٹل مافیا کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے۔
جب آمدن کے مقابلے میں ضروریات زندگی کی قیمتیں بڑھ جائیں تو مہنگائی فروغ پا جاتی ہے۔ زیادہ پیسوں میں تھوڑی چیز میسر ہونے کو بھی معاشیات میں مہنگائی کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں ہر محکمہ اور ادارہ خطرناک حد تک کرپشن میں مبتلا ہوچکا ہے۔
روپیہ ڈالر کی محکومیت کا شکار ہے اس معاشی افراتفری میں اشیاء کی قیمتوں کا کنٹرول میں رہنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ بے شمار ٹیکس بھی قیمتوں میں اضافے کا موجب بن رہے ہیں۔ ذخیرہ اندوزی ناجائز بلیک مارکیٹنگ اور رسد میں رکاوٹ بھی مہنگائی کا باعث ہوتی ہے۔
بے دریغ لیے گئے غیر ملکی قرضہ جات بھی معیشتیں کمزورکرتے ہیں، حکومتی اخراجات اور معاشی خسارہ پورا کرنے کے لیے بے تحاشا نوٹ چھاپنے سے بھی افراط زر پھیلتا ہے۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم بھی مہنگائی کو بڑھاوا دیتی ہے کیونکہ دولت مند افراد کم وسائل کے حامل لوگوں کو لوٹنے لگ جاتے ہیں جو مہنگائی کا باعث بنتے ہیں۔
آئے روز بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت نے گیس بھی مہنگی کرنا شروع کر دی ہے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق گھریلو صارفین کے ساتھ ساتھ کمرشل صارفین، ہوٹلوں، کھاد کے کارخانوں، صنعتی صارفین، اسٹیل انڈسٹری پر ہوگا تو پھر ظاہر ہے کہ اس سے عام آدمی بہت متاثر ہوگا۔
ادھر پاکستان ورلڈ ہنگر انڈیکس 125 ممالک میں 102 ویں نمبر پر ہے۔ بنیادی طور پر یہ انڈیکس بھوک کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ زیادہ غذائیت اور وہ بھی بچوں کی غذائی قلت پر مبنی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ روایتی معنوں میں بھوک کا مطلب غذائی اجناس کی دستیابی میں کمی ہے، جو پاکستان میں موجود نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں گزشتہ کچھ عرصہ میں بیروزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے۔ مہنگائی سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے، عوام نفسیاتی مریض بنتے جارہے ہیں اربابِ اختیار کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کیونکہ اب مزید معاشی قتل کی قوم متحمل نہیں ہو سکتی، علاوہ ازیں جس بے رحمی کے ساتھ عوام کی معاشی زندگی اور ان کے معصوم سے مستقبل کے خواب چکنا چور ہوتے رہے ہیں۔
وہ اب بھی ''آرزو صبر طلب اور تمنا بے تاب'' جیسی نفسیاتی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔ بانیانِ پاکستان نے اس ملک کو فلاحی ریاست کے مقصد کے تحت بنایا تھا، اسے مفاد پرست سیاست دانوں اور اشرافیہ کی چراگاہ بنانے سے عوام کے معاشی مسائل مزید بڑھیں گے۔
یہ صورتحال تقاضا کرتی ہے کہ اربابِ اختیار اٹھتے طوفان کا پیشگی ادراک کرے اور پالیسیوں کو قومی اور عوامی امنگوں سے ہم آہنگ کرنے میں دیر نہ لگائے، اربابِ اختیار بروٹسوں سے خبردار رہے اور قوم کو دلدل سے نکالے، کرپٹ معاشرے میں آزادی کی بقاء بھی ممکن نہیں ہوتی۔
حکومت جب تک اقتصادی استحکام کو ترجیح نہیں دیتی معاشی عدم استحکام ختم نہیں ہو سکتا۔ لوگوں کے ذرایع آمدن پہلے ہی مہنگائی منفی اثرات کے باعث آدھے سے بھی کم ہو چکے ہیں۔
پرائیویٹ اسپتالوں ڈاکٹروں اور اسکولوں کی بڑھتی ہوئی فیسیں اور مہنگی ادویات بھی مہنگائی میں اضافے کا اہم ذریعہ ہیں صحت اور تعلیم دونوں حکومت کی ذمے داری ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وطن عزیز میں جو سرکاری اسپتال یا اسکول ہیں وہاں علاج معالجہ اور تعلیم کا معیار اس قدر پست ہے کہ عوام ان کے حصول کے لیے پرائیویٹ اداروں کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہیں۔
عوام سے لیے گئے ٹیکسوں کے عوض ریاست نے عوام کو صحت اور تعلیم کی جو معیاری سہولتیں فراہم کرنی ہوتی ہیں ان سہولتوں کی فراہمی بھی اشرافیہ تک محدود ہے ان حالات میں اشرافیہ نے کم آمدنی والے طبقات کو کچل کر رکھ دیا ہے۔
کنزیومر پرائس انڈکس آبادی کے استعمال کی اشیاء کا جو سیٹ بناتی ہے، اسے سی پی آئی باسکٹ کہا جاتا ہے جس کے مطابق ایک پاکستانی شہری ماہانہ 34.58 فیصد کھانے پر 26.68 فیصد مکان کے کرائے بجلی گیس پانی کے بلوں پر خرچ کرتا ہے 8.6 فیصد کپڑوں جوتوں پر 7 فیصد ہوٹلنگ پر 6 فیصد ٹرانسپورٹ کرایوں پر 3.8 فیصد تعلیم پر اور 2.7 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔
ملک میں جاری مہنگائی، بیروزگاری، سیاسی انتشار کے باعث ذہنی مریضوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہونے لگا، ہر سال 40 فیصد سے 55 فیصد تک اضافہ سامنے آ رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس ذہنی بیماری میں ڈپریشن، اداسی، مایوسی، پریشانی، شدید غصہ، چڑچڑا پن، طبیعت میں تیزی، نیند اڑ جانا، الٹے سیدھے خیالات آنا شامل ہیں۔
اس سارے عمل میں مریض ذہنی طور پر مفلوج ہو جاتا ہے، ریکارڈ کے مطابق لاہور میں اس کی شرح ایک فیصد سے زائد ہے جب کہ ڈپریشن کی بیماری اور دیگر کی شرح 10 سے 15 فیصد ہے۔ دوسری جانب ذہنی تناؤ، دباؤ اور نفسیاتی الجھنوں کے باعث پنجاب کے واحد ادارے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ پر دباؤ بہت بڑھ گیا ہے۔
جب کہ ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل اسٹاف اور دیگر سہولتیں وہی ہیں جو کہ پہلے تھیں۔ گزشتہ تین سال میں ہر سال پنجاب انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں ذہنی مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ عوام بیروزگاری، دن بہ دن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام سے شدید پریشان ہیں اور ملک کو درپیش مسائل میں سے یہ انتہائی اہم سنگین مسئلہ ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اسے دانستہ طور پر نظر انداز کر رہی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے 15 تا 34 سال کے درمیان عمر کے لوگ کے مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ ملک میں بیروزگاری کی سنگین صورتحال کا اندازہ لگانے کے لیے یہ کافی ہے کہ ڈگری یافتہ نوجوان معمولی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے باوجود بھی ایسے نوجوان درجہ چہارم کی سرکاری ملازمت کے لیے درخواستیں دے رہے ہیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملک کی ترقی کی رفتار میں بیروزگاری ایک بڑی رکاوٹ ہے۔مہنگائی کی اس خوفناک اور دہشت ناک صورتحال کو دیکھ کر مستقبل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ملک اور اس کے عوام کس صورتحال سے دوچار ہو سکتے ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ حکومت کی معاشی ٹیم اپنی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لے، ملکی معیشت کی صورتحال بہت خراب ہوچکی ہے، سارا ملک پریشان ہے، سر جوڑ کر بیٹھیں، کوئی صائب حل نکالیں اور عام آدمی کی مشکلات میں کمی لائیں۔