وقت گزر جاتا ہے
آج یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ہم میں سے کون تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑا ہے
سوشل میڈیا کے تیز رفتار دور میں بعض اوقات ایسی تحریریں پڑھنے کو مل جاتی ہیں جو آپ کے حال کو ماضی کے آئینے میں دکھاتی ہیں۔ سوشل میڈیا سے مستعار لی گئی ایسی ہی ایک تحریر قارئین کی نظر کر رہا ہوں۔
طویل لانگ مارچ کے دوران ماؤزے تنگ نے اپنے کامریڈوں سے پوچھا ، ہم کمزور ہوئے ہیں یا طاقت ور؟ ایک کامریڈ نے مایوسی سے کہا کہ پہلے ہم لاکھوں میں تھے، اب ہزاروں میں ہیں، اس کا مطلب ہوا کہ کم زور ہو گئے ہیں۔
ماؤزے تنگ نے مسکرا کر کہا ، نہیں، ہم پہلے سے زیادہ طاقت ور ہو گئے ہیں کیوں کہ جتنے بھی کمزور عناصر تھے، وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے، اب صرف مضبوط افراد رہ گئے ہیں۔ سقراط نے جب زہر کا پیالہ پیا تو ایتھنز کے حکمرانوں نے سکھ کا سانس لیا کہ نوجوانوں کو گمراہ کرنے والا جہنم رسید ہوا، اشرافیہ جیت گئی،سقراط کی دانش ہار گئی۔وقت گزر گیا۔
اسکاٹ لینڈ کی جنگ آزادی لڑنے والے دلاور ولیم والس کو جب انگلینڈ کے بادشاہ ایڈورڈ اوّل نے گرفتار کیا تو اُس پر غداری کا مقدمہ قائم کیا، پھر اُسے پھانسی دے کر لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے۔اُس وقت کا بادشاہ جیت گیا،ولیم والس ہار گیا۔وقت گزر گیا۔گلیلیو نے ثابت کیا کہ زمین اور دیگر سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں تو چرچ نے گلیلیو پر کفر کا فتویٰ لگایا اور اسے غیرمعینہ مدت تک کے لیے قید کی سزا سنا دی،یہ سزا 1633میں سنائی گئی۔
گلیلیو اپنے گھر میں ہی قید رہا اور 1642میں وہیں اُس کی وفات ہوئی، کلیسا کی سوچ جیت گئی ،سائنس ہار گئی۔وقت گزر گیا۔جیو رڈانو برونو پر بھی عقائد سے انحراف کرنے کا مقدمہ بنایا گیا۔ اسے اپنے نظریات سے مکمل طور پر تائب ہونے کے لیے کہا گیا،برونو نے انکار کر دیا، پوپ نے برونو کو کافر قرار دے دیا۔
8 فروری 1600 کو جب اسے فیصلہ پڑھ کر سنایا گیاتو برونو نے تاریخی جملہ کہا''میں یہ فیصلہ سنتے ہوئے اتنا خوفزدہ نہیں ہوںجتنا تم یہ فیصلہ سناتے ہوئے خوفزدہ ہو۔''برونو کی زبان کاٹ دی گئی اور اسے زندہ جلا دیا گیا۔ مذہبی طبقہ جیت گیا، برونو ہار گیا۔وقت گزر گیا۔
عباسی حکمران ابو جعفر منصور نے کئی مرتبہ امام ابو حنیفہ ؒکو قاضی القضاۃ بننے کی پیشکش کی مگر آپ نے ہر مرتبہ انکار کیا، ایک موقع پر دونوں کے درمیان تلخی اس قدر بڑھ گئی کہ منصور کھلم کھلا ظلم کرنے پر اتر آیا،اُس نے انھیں بغداد میں دیواریں بنانے کے کام کی نگرانی اور اینٹیں گننے پر مامور کر دیا۔
مقصد اُن کی ہتک کرنا تھا،بعد ازاں منصور نے امام ابوحنیفہ کو کوڑے مارے اور اذیت ناک قید میں رکھا،بالآخر قید میں ہی انھیں زہر دے کر مروا دیا گیا،سجدے کی حالت میں آپ کا انتقال ہوا،نماز جنازہ میں مجمع کا حال یہ تھا کہ پچاس ہزار لوگ امڈ آئے، چھ مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔منصور جیت گیا،امام ابو حنیفہ ہار گئے۔وقت گزر گیا۔
تاریخ میں ہار جیت کا فیصلہ طاقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا،یونان کی اشرافیہ سقراط سے زیادہ طاقتور تھی مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ سقراط کا سچ زیادہ طاقتور تھا۔ولیم والس کی دردناک موت کے بعد اس کا نام لیوا بھی نہیں ہونا چاہیے تھا مگر آج ابیرڈین سے لے کر ایڈنبرا تک ولیم والس کے مجسمے اور یادگاریں ہیں۔
تاریخ میں ولیم والس امر ہو چکا ہے۔رومن کیتھولک چرچ نے ساڑھے تین سو سال بعد تسلیم کیا کہ گلیلیو درست تھا اور اُس وقت کے پادری غلط تھے۔برونو کو زندہ جلانے والے بھی آج یہ بات مانتے ہیں کہ برونو کا علم اور نظریہ درست تھا ۔
جس ابو جعفر منصور نے امام ابوحنیفہ کو قید میں زہر دے کر مروایا، وہ جب فوت ہوا تو اسے دفنانے کے لیے ایک جیسی سو قبریں کھودی گئیں، ان میں سے کسی ایک قبر میں اسے دفن کر دیا گیا تاکہ لوگوں کو یہ پتہ نہ چل سکے کہ وہ کس قبر میں دفن ہے۔آج سے ایک سو سال بعد ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا،تاریخ ہمیں روندتی ہوئی آگے نکل جائے گی۔
آج یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ہم میں سے کون تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑا ہے اور کون تاریخ کے غلط دوراہے پر ہے۔کون حق کا ساتھی ہے اور کون باطل کے ساتھ کندھا ملائے ہوئے ہے۔کون سچائی کا علمبردار ہے اور کون جھوٹ کی ترویج کر رہا ہے۔
کون دیانت دار ہے اور کون بے ایمان۔ آج سے سو برس بعد البتہ جب کوئی مورخ ہمارا احوال لکھے گا تو وہ ایک ہی کسوٹی پر ہم سب کو پرکھے گا،مگر افسوس کہ اُس وقت تاریخ کا بے رحم فیصلہ سننے کے لیے ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہو گا۔
طویل لانگ مارچ کے دوران ماؤزے تنگ نے اپنے کامریڈوں سے پوچھا ، ہم کمزور ہوئے ہیں یا طاقت ور؟ ایک کامریڈ نے مایوسی سے کہا کہ پہلے ہم لاکھوں میں تھے، اب ہزاروں میں ہیں، اس کا مطلب ہوا کہ کم زور ہو گئے ہیں۔
ماؤزے تنگ نے مسکرا کر کہا ، نہیں، ہم پہلے سے زیادہ طاقت ور ہو گئے ہیں کیوں کہ جتنے بھی کمزور عناصر تھے، وہ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے، اب صرف مضبوط افراد رہ گئے ہیں۔ سقراط نے جب زہر کا پیالہ پیا تو ایتھنز کے حکمرانوں نے سکھ کا سانس لیا کہ نوجوانوں کو گمراہ کرنے والا جہنم رسید ہوا، اشرافیہ جیت گئی،سقراط کی دانش ہار گئی۔وقت گزر گیا۔
اسکاٹ لینڈ کی جنگ آزادی لڑنے والے دلاور ولیم والس کو جب انگلینڈ کے بادشاہ ایڈورڈ اوّل نے گرفتار کیا تو اُس پر غداری کا مقدمہ قائم کیا، پھر اُسے پھانسی دے کر لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے گئے۔اُس وقت کا بادشاہ جیت گیا،ولیم والس ہار گیا۔وقت گزر گیا۔گلیلیو نے ثابت کیا کہ زمین اور دیگر سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں تو چرچ نے گلیلیو پر کفر کا فتویٰ لگایا اور اسے غیرمعینہ مدت تک کے لیے قید کی سزا سنا دی،یہ سزا 1633میں سنائی گئی۔
گلیلیو اپنے گھر میں ہی قید رہا اور 1642میں وہیں اُس کی وفات ہوئی، کلیسا کی سوچ جیت گئی ،سائنس ہار گئی۔وقت گزر گیا۔جیو رڈانو برونو پر بھی عقائد سے انحراف کرنے کا مقدمہ بنایا گیا۔ اسے اپنے نظریات سے مکمل طور پر تائب ہونے کے لیے کہا گیا،برونو نے انکار کر دیا، پوپ نے برونو کو کافر قرار دے دیا۔
8 فروری 1600 کو جب اسے فیصلہ پڑھ کر سنایا گیاتو برونو نے تاریخی جملہ کہا''میں یہ فیصلہ سنتے ہوئے اتنا خوفزدہ نہیں ہوںجتنا تم یہ فیصلہ سناتے ہوئے خوفزدہ ہو۔''برونو کی زبان کاٹ دی گئی اور اسے زندہ جلا دیا گیا۔ مذہبی طبقہ جیت گیا، برونو ہار گیا۔وقت گزر گیا۔
عباسی حکمران ابو جعفر منصور نے کئی مرتبہ امام ابو حنیفہ ؒکو قاضی القضاۃ بننے کی پیشکش کی مگر آپ نے ہر مرتبہ انکار کیا، ایک موقع پر دونوں کے درمیان تلخی اس قدر بڑھ گئی کہ منصور کھلم کھلا ظلم کرنے پر اتر آیا،اُس نے انھیں بغداد میں دیواریں بنانے کے کام کی نگرانی اور اینٹیں گننے پر مامور کر دیا۔
مقصد اُن کی ہتک کرنا تھا،بعد ازاں منصور نے امام ابوحنیفہ کو کوڑے مارے اور اذیت ناک قید میں رکھا،بالآخر قید میں ہی انھیں زہر دے کر مروا دیا گیا،سجدے کی حالت میں آپ کا انتقال ہوا،نماز جنازہ میں مجمع کا حال یہ تھا کہ پچاس ہزار لوگ امڈ آئے، چھ مرتبہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔منصور جیت گیا،امام ابو حنیفہ ہار گئے۔وقت گزر گیا۔
تاریخ میں ہار جیت کا فیصلہ طاقت کی بنیاد پر نہیں ہوتا،یونان کی اشرافیہ سقراط سے زیادہ طاقتور تھی مگر تاریخ نے ثابت کیا کہ سقراط کا سچ زیادہ طاقتور تھا۔ولیم والس کی دردناک موت کے بعد اس کا نام لیوا بھی نہیں ہونا چاہیے تھا مگر آج ابیرڈین سے لے کر ایڈنبرا تک ولیم والس کے مجسمے اور یادگاریں ہیں۔
تاریخ میں ولیم والس امر ہو چکا ہے۔رومن کیتھولک چرچ نے ساڑھے تین سو سال بعد تسلیم کیا کہ گلیلیو درست تھا اور اُس وقت کے پادری غلط تھے۔برونو کو زندہ جلانے والے بھی آج یہ بات مانتے ہیں کہ برونو کا علم اور نظریہ درست تھا ۔
جس ابو جعفر منصور نے امام ابوحنیفہ کو قید میں زہر دے کر مروایا، وہ جب فوت ہوا تو اسے دفنانے کے لیے ایک جیسی سو قبریں کھودی گئیں، ان میں سے کسی ایک قبر میں اسے دفن کر دیا گیا تاکہ لوگوں کو یہ پتہ نہ چل سکے کہ وہ کس قبر میں دفن ہے۔آج سے ایک سو سال بعد ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا،تاریخ ہمیں روندتی ہوئی آگے نکل جائے گی۔
آج یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ہم میں سے کون تاریخ کی صحیح سمت میں کھڑا ہے اور کون تاریخ کے غلط دوراہے پر ہے۔کون حق کا ساتھی ہے اور کون باطل کے ساتھ کندھا ملائے ہوئے ہے۔کون سچائی کا علمبردار ہے اور کون جھوٹ کی ترویج کر رہا ہے۔
کون دیانت دار ہے اور کون بے ایمان۔ آج سے سو برس بعد البتہ جب کوئی مورخ ہمارا احوال لکھے گا تو وہ ایک ہی کسوٹی پر ہم سب کو پرکھے گا،مگر افسوس کہ اُس وقت تاریخ کا بے رحم فیصلہ سننے کے لیے ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہو گا۔