بی بی کا پیغام پی پی کے نام آخری حصہ
وہ جو بے نظیر کی زندگی سے حسد کرتے تھے، کیا انھیں ان کی رخصت پر رشک نہیں آیا؟
بے نظیر مسکراتے ہوئے میری طرف متوجہ ہوئیں۔ تاخیر سے پہنچنے پر معذرت کی اور کہنے لگیں کہ میرے پاس وقت کم ہے۔ میرا کہنا تھا کہ میرے پاس سوالات زیادہ ہیں۔ چند منٹ کے اندر ہم دونوں نے یہ طے کرلیا کہ وہ مجھے تھوڑا سا زیادہ وقت دیں گی۔
میں نے ان سے پہلا سوال یہ کیا کہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کے بعد ان کے کیا احساسات تھے؟ بی بی کا کہنا تھا کہ میں سمجھتی ہوں کہ میری کامیابی صرف پاکستانی خواتین کی نہیں بلکہ مسلم دنیا کی خواتین کی کامیابی ہے۔
سب سے پہلے اسلام لانے والی ہستی بی بی خدیجہ کی تھی جو کہ ایک عورت تھیں۔ اسلام کا وہ نقطہ نظر جو خواتین کے لیے ہے، وہ سامنے نہیں آیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ میری کامیابی نے ظاہر کر دیا ہے کہ مسلمان عوام اس بارے میں کیا سوچتے اور سمجھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک قدامت پسند طبقے کا تعلق ہے تو وہ عورتوں کے خلاف ہے، لیکن ایسے لوگ مغرب اور دوسرے ملکوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔
میں نے دیکھا کہ کئی مسجدوں میں امام حضرات نے جمعہ کی نماز میں میرے بارے میں غلط اور جھوٹے بیانات دیے اور ایسا سارے ملک میں ہوا، انھوں نے ذاتی حملے کیے۔ اس وقت میں سوچتی تھی کہ مسجد میں بیٹھ کر یہ جھوٹ کیوں بولا جارہا ہے۔ اس سے بڑی زیادتی اسلام کے ساتھ اور بھلا کیا ہوسکتی ہے؟ مگر جہاں تک عام پاکستانی کا تعلق ہے تو اس نے یہ نہیں دیکھا کہ بے نظیر بھٹو ایک عورت ہے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں پاکستانی عورتیں اس جبر سے کیسے نجات حاصل کرسکتی ہیں؟اس بارے میں ان کی دو ٹوک رائے تھی کہ جب تک حکومت آگے بڑھ کر خواتین کی مدد نہیں کرے گی اس وقت تک پاکستانی خواتین کی مشکلات کم نہیں ہوںگی۔
جب میں وزیر اعظم تھی تو میں نے خواتین کے کھیلوں پر پابندی ختم کردی تھی۔ میں نے فرسٹ ویمن بینک قائم کیا کیونکہ یہ میرا ایمان ہے کہ جب تک عورت معاشی طور پر، مالی طور پر آزاد نہ ہو وہ اپنے فیصلے خود نہیں کرسکتی۔ اگر ایک عورت کو میاں مارتا ہے تو وہ اسے چھوڑ کر کدھر جائے۔ جب تک عورت مالی طور پر آزاد نہ ہو تو اپنے بارے میں آزادی سے فیصلے نہیں کرسکتی۔
میں نے پوچھا کہ کیا آپ بھی یہ خواہش رکھتی ہیں کہ بلاول اور بختاور بڑے ہوکر سیاست کو اختیارکریں؟ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے بچوں کے کیریئرکا فیصلہ نہیں کروں گی، جو ان کو پسند آئے وہی ان کے لیے بہتر ہوگا۔
میں یہ ضرور چاہوں گی کہ جب تک وہ بڑے ہوں اس وقت تک ہمارے ملک میں ایسا معاشرہ قائم ہوچکا ہو جہاں ہر آدمی عزت کے ساتھ سیاست میں حصہ لے سکے۔ کیونکہ اس وقت اتنی غنڈہ گردی ہے، اتنا تشدد ہے کہ بہت سے شریف لوگ ڈر کے مارے سیاست سے دور چلے جاتے ہیں۔ میری یہی خواہش ہے کہ کچھ نہ کچھ تبدیلی آئے تاکہ ہر ایک سیاست میں حصہ لینے کا شوق رکھے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ مسز مارگریٹ تھیچر کو چار دن میں اور آپ کو چند گھنٹوں میں پرائم منسٹر ہاؤس سے رخصت ہونا پڑا۔ اب مسز مارگریٹ تھیچر اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتی ہیں۔ کبھی کبھی تو انھیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ آج کون سا دن ہے۔
تو آپ کے کیا احساسات ہیں ، وزارت عظمیٰ سے ہٹنے کے بعد، کیا آپ کو بھی تنہائی یا خالی پن کا احساس ہوتا ہے؟ میرا سوال سن کر وہ مسکرائیں اور کہنے لگیں، نہیں کبھی نہیں۔ میں تو وزارت عظمیٰ سے ہٹنے کے بعد بھی ہر وقت مصروف ہوں۔
جہاں تک پرائم منسٹر ہاؤس خالی کرنے کی بات ہے تو پاکستان کے قانون کے مطابق مجھے اجازت تھی کہ میں ایک مہینہ رہ سکوں مگر اس قانون کے باوجود جب میری برطرفی کا پانچ بجے اعلان ہوا تو انھوں نے لوگوں کو بھیجا اور پرائم منسٹر ہاؤس میں جو کھانا رات کے لیے پک رہا تھا وہ دیگچیاں تک اٹھا کر لے گئے۔ یہ باتیں بندے کا امتحان ہوتی ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ امتحان اﷲ تعالیٰ کے پیاروں کو پیش آتے ہیں۔
کھانے، لباس اور خوشبو کے بارے میں اپنی پسند بتاتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ کھانوں میں مجھے سب سے زیادہ دال پسند ہے۔ خواہ وہ کوئی سی بھی ہو مگر تھوڑی سی کھٹی ہو۔ میٹھا بھی شوق سے کھاتی ہوں اورکپڑوں کے بارے میں زیادہ جھنجھٹ میں نہیں پڑتی۔
مجھے سفید رنگ زیادہ پسند ہے ویسے کوئی سا بھی کپڑا پہن لیتی ہوں۔ پرفیوم کا میں اتنا زیادہ شوق نہیں رکھتی۔ بھٹو صاحب '' شالیمار '' استعمال کرتے تھے تو میں بھی شالیمار استعمال کرتی ہوں۔ مگر اس وقت میں جو پرفیوم استعمال کرتی ہوں وہ نینارشی ہے۔ وہ والی شیشی جس پر دو چڑیاں بنی ہوئی ہیں۔
اس وقت مجھے شیام بھاٹیا کی کتاب '' الوداع شہزادی'' یاد آرہی ہے جو ان کے قتل کے چند مہینوں بعد شایع ہوئی اور جس نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔ سندھ کے شہر میرپورخاص کے شیام بھاٹیا اور لاڑکانہ کی بے نظیر بھٹوکی پہلی ملاقات آکسفورڈ میں ہوئی جہاں دونوں پڑھ رہے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت کے آخری دنوں میں ایک طویل اور عذاب ناک جلا وطنی کے دن گزار کر جب وہ پاکستان واپس آئیں تو انھوں نے لاہور میں لاکھوں کے پرجوش ہجوم سے تاریخی خطاب کیا۔ اپریل1986 کے اس تاریخی دن شیام کئی دوسرے دوستوں کے ساتھ ان کے ساتھ تھا اور اپنی آنکھوں سے پاکستانی تاریخ کے ایک اہم واقعے کو دیکھ رہا تھا۔
وہ اہم واقعہ جس نے دنیا کو یہ بتایا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے رہنے والوں کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ لاہورکی یہ وہی سڑکیں تھیں جن پر صرف 9 برس پہلے ان کے باپ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 9 ستارے کہلانے والی ملک بھر کی مذہبی جماعتیں اکٹھے ہوکر جلسے اور جلوس کر رہی تھیں اور انھیں اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف کے اشارے پر اقتدار سے محروم کرنے کا کھیل مہارت سے کھیل رہی تھیں۔
اس لاہور میں اس شخص کی بیٹی پاکستانی سیاست کے افق پر نئے چاند کی طرح طلوع ہو رہی تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے جس کا عدالتی قتل کیا تھا، جس کے حامیوں سے جیلیں بھردی تھیں، لوگوں کی پشت پر پڑنے والے تازیانوں کی گونج لاہور کی فضاؤں میں ابھی باقی تھی اور صرف نوبرس بعد ایک نوجوان اور پرجوش لڑکی اپنے باپ کے خون اور اپنی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہونے والے مظالم کا حساب لینے کے لیے آپہنچی تھی۔
میری ایک ہندوستانی دوست نے مجھے بتایا تھا کہ ''میں نے بے نظیر بھٹو کو اسی دلی میں سنا تھا جب انھوں نے 1971ء میں بھٹو صاحب کے ساتھ ہندوستان کے سفرکو یاد کیا تھا اور کہا تھا کہ حالانکہ ہمارے دونوں ملکوں کو دشمن سمجھا جارہا تھا لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہندوستان کے لوگوں نے کس گرم جوشی اور محبت سے میرا سواگت کیا تھا۔
بے نظیرنے اپنی اس تقریر میں یونائیٹڈ نیشنز کے قریب بنے ہوئے اس چھوٹے سے '' امن پارک''کا ذکر کیا تھا جس میں ایک تختی پر یہ الفاظ کندہ ہیں کہ '' ہمیں اپنی تلواروں کو ہل بنا لینا چاہیے اور اپنے نیزوں کو ڈانگ سے بدل لینا چاہیے۔ کسی بھی قوم کو کسی دوسری قوم کے خلاف تلوار نہیں اٹھانی چاہیے اور نہ انھیں کبھی بھی جنگ کی تربیت حاصل کرنی چاہیے۔''
وہ جو بے نظیر کی زندگی سے حسد کرتے تھے، کیا انھیں ان کی رخصت پر رشک نہیں آیا؟ کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ان کے ماتم دار تابوت سے سر ٹکرا کر دھاڑیں مار رہے تھے۔ بچوں کی طرح رو رہے تھے۔
ان کے تابوت کو چھونے کی آرزو میں ایک دوسرے پر گر پڑتے تھے۔ شفیق احمد عرف گوگا اور ظہیر احمد جیسے لوگ۔ شمع جل بجھی اور پروانے بھی اس پر نثار ہوگئے۔ بی بی کو سفید لباس پسند تھا، وقت رخصت ان کے سفید کفن پر لہو کے چھینٹے تھے، وہ بچوں کی شادی اپنی پسند سے کرنا چاہتی تھیں لیکن زندگی نے انھیں اتنی مہلت بھی نہ دی کہ وہ انھیں تعلیم مکمل کرتے دیکھ سکیں۔ انھیں نینارشی کی خوشبو پسند تھی اور اب وہ مٹی کی خوشبو اوڑھ کرسوتی ہیں اور ان کے قاتل عیش کرتے ہیں۔
آنے والے عام انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی اور تمام جمہوری قوتوں کو بی بی یہ پیغام دے رہی ہیں کہ جمہوریت، رواداری اور امن کے جن مشترک آدرشوں کے لیے میں نے اپنی جان نذرکی ہے کیا آپ سب اس کا مان رکھیں گے؟
میں نے ان سے پہلا سوال یہ کیا کہ مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کے بعد ان کے کیا احساسات تھے؟ بی بی کا کہنا تھا کہ میں سمجھتی ہوں کہ میری کامیابی صرف پاکستانی خواتین کی نہیں بلکہ مسلم دنیا کی خواتین کی کامیابی ہے۔
سب سے پہلے اسلام لانے والی ہستی بی بی خدیجہ کی تھی جو کہ ایک عورت تھیں۔ اسلام کا وہ نقطہ نظر جو خواتین کے لیے ہے، وہ سامنے نہیں آیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ میری کامیابی نے ظاہر کر دیا ہے کہ مسلمان عوام اس بارے میں کیا سوچتے اور سمجھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک قدامت پسند طبقے کا تعلق ہے تو وہ عورتوں کے خلاف ہے، لیکن ایسے لوگ مغرب اور دوسرے ملکوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔
میں نے دیکھا کہ کئی مسجدوں میں امام حضرات نے جمعہ کی نماز میں میرے بارے میں غلط اور جھوٹے بیانات دیے اور ایسا سارے ملک میں ہوا، انھوں نے ذاتی حملے کیے۔ اس وقت میں سوچتی تھی کہ مسجد میں بیٹھ کر یہ جھوٹ کیوں بولا جارہا ہے۔ اس سے بڑی زیادتی اسلام کے ساتھ اور بھلا کیا ہوسکتی ہے؟ مگر جہاں تک عام پاکستانی کا تعلق ہے تو اس نے یہ نہیں دیکھا کہ بے نظیر بھٹو ایک عورت ہے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں پاکستانی عورتیں اس جبر سے کیسے نجات حاصل کرسکتی ہیں؟اس بارے میں ان کی دو ٹوک رائے تھی کہ جب تک حکومت آگے بڑھ کر خواتین کی مدد نہیں کرے گی اس وقت تک پاکستانی خواتین کی مشکلات کم نہیں ہوںگی۔
جب میں وزیر اعظم تھی تو میں نے خواتین کے کھیلوں پر پابندی ختم کردی تھی۔ میں نے فرسٹ ویمن بینک قائم کیا کیونکہ یہ میرا ایمان ہے کہ جب تک عورت معاشی طور پر، مالی طور پر آزاد نہ ہو وہ اپنے فیصلے خود نہیں کرسکتی۔ اگر ایک عورت کو میاں مارتا ہے تو وہ اسے چھوڑ کر کدھر جائے۔ جب تک عورت مالی طور پر آزاد نہ ہو تو اپنے بارے میں آزادی سے فیصلے نہیں کرسکتی۔
میں نے پوچھا کہ کیا آپ بھی یہ خواہش رکھتی ہیں کہ بلاول اور بختاور بڑے ہوکر سیاست کو اختیارکریں؟ اس بارے میں ان کا کہنا تھا کہ میں اپنے بچوں کے کیریئرکا فیصلہ نہیں کروں گی، جو ان کو پسند آئے وہی ان کے لیے بہتر ہوگا۔
میں یہ ضرور چاہوں گی کہ جب تک وہ بڑے ہوں اس وقت تک ہمارے ملک میں ایسا معاشرہ قائم ہوچکا ہو جہاں ہر آدمی عزت کے ساتھ سیاست میں حصہ لے سکے۔ کیونکہ اس وقت اتنی غنڈہ گردی ہے، اتنا تشدد ہے کہ بہت سے شریف لوگ ڈر کے مارے سیاست سے دور چلے جاتے ہیں۔ میری یہی خواہش ہے کہ کچھ نہ کچھ تبدیلی آئے تاکہ ہر ایک سیاست میں حصہ لینے کا شوق رکھے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ مسز مارگریٹ تھیچر کو چار دن میں اور آپ کو چند گھنٹوں میں پرائم منسٹر ہاؤس سے رخصت ہونا پڑا۔ اب مسز مارگریٹ تھیچر اپنے آپ کو تنہا محسوس کرتی ہیں۔ کبھی کبھی تو انھیں یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ آج کون سا دن ہے۔
تو آپ کے کیا احساسات ہیں ، وزارت عظمیٰ سے ہٹنے کے بعد، کیا آپ کو بھی تنہائی یا خالی پن کا احساس ہوتا ہے؟ میرا سوال سن کر وہ مسکرائیں اور کہنے لگیں، نہیں کبھی نہیں۔ میں تو وزارت عظمیٰ سے ہٹنے کے بعد بھی ہر وقت مصروف ہوں۔
جہاں تک پرائم منسٹر ہاؤس خالی کرنے کی بات ہے تو پاکستان کے قانون کے مطابق مجھے اجازت تھی کہ میں ایک مہینہ رہ سکوں مگر اس قانون کے باوجود جب میری برطرفی کا پانچ بجے اعلان ہوا تو انھوں نے لوگوں کو بھیجا اور پرائم منسٹر ہاؤس میں جو کھانا رات کے لیے پک رہا تھا وہ دیگچیاں تک اٹھا کر لے گئے۔ یہ باتیں بندے کا امتحان ہوتی ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ امتحان اﷲ تعالیٰ کے پیاروں کو پیش آتے ہیں۔
کھانے، لباس اور خوشبو کے بارے میں اپنی پسند بتاتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ کھانوں میں مجھے سب سے زیادہ دال پسند ہے۔ خواہ وہ کوئی سی بھی ہو مگر تھوڑی سی کھٹی ہو۔ میٹھا بھی شوق سے کھاتی ہوں اورکپڑوں کے بارے میں زیادہ جھنجھٹ میں نہیں پڑتی۔
مجھے سفید رنگ زیادہ پسند ہے ویسے کوئی سا بھی کپڑا پہن لیتی ہوں۔ پرفیوم کا میں اتنا زیادہ شوق نہیں رکھتی۔ بھٹو صاحب '' شالیمار '' استعمال کرتے تھے تو میں بھی شالیمار استعمال کرتی ہوں۔ مگر اس وقت میں جو پرفیوم استعمال کرتی ہوں وہ نینارشی ہے۔ وہ والی شیشی جس پر دو چڑیاں بنی ہوئی ہیں۔
اس وقت مجھے شیام بھاٹیا کی کتاب '' الوداع شہزادی'' یاد آرہی ہے جو ان کے قتل کے چند مہینوں بعد شایع ہوئی اور جس نے دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔ سندھ کے شہر میرپورخاص کے شیام بھاٹیا اور لاڑکانہ کی بے نظیر بھٹوکی پہلی ملاقات آکسفورڈ میں ہوئی جہاں دونوں پڑھ رہے تھے۔
جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت کے آخری دنوں میں ایک طویل اور عذاب ناک جلا وطنی کے دن گزار کر جب وہ پاکستان واپس آئیں تو انھوں نے لاہور میں لاکھوں کے پرجوش ہجوم سے تاریخی خطاب کیا۔ اپریل1986 کے اس تاریخی دن شیام کئی دوسرے دوستوں کے ساتھ ان کے ساتھ تھا اور اپنی آنکھوں سے پاکستانی تاریخ کے ایک اہم واقعے کو دیکھ رہا تھا۔
وہ اہم واقعہ جس نے دنیا کو یہ بتایا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کے رہنے والوں کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ لاہورکی یہ وہی سڑکیں تھیں جن پر صرف 9 برس پہلے ان کے باپ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف 9 ستارے کہلانے والی ملک بھر کی مذہبی جماعتیں اکٹھے ہوکر جلسے اور جلوس کر رہی تھیں اور انھیں اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف کے اشارے پر اقتدار سے محروم کرنے کا کھیل مہارت سے کھیل رہی تھیں۔
اس لاہور میں اس شخص کی بیٹی پاکستانی سیاست کے افق پر نئے چاند کی طرح طلوع ہو رہی تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے جس کا عدالتی قتل کیا تھا، جس کے حامیوں سے جیلیں بھردی تھیں، لوگوں کی پشت پر پڑنے والے تازیانوں کی گونج لاہور کی فضاؤں میں ابھی باقی تھی اور صرف نوبرس بعد ایک نوجوان اور پرجوش لڑکی اپنے باپ کے خون اور اپنی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہونے والے مظالم کا حساب لینے کے لیے آپہنچی تھی۔
میری ایک ہندوستانی دوست نے مجھے بتایا تھا کہ ''میں نے بے نظیر بھٹو کو اسی دلی میں سنا تھا جب انھوں نے 1971ء میں بھٹو صاحب کے ساتھ ہندوستان کے سفرکو یاد کیا تھا اور کہا تھا کہ حالانکہ ہمارے دونوں ملکوں کو دشمن سمجھا جارہا تھا لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہندوستان کے لوگوں نے کس گرم جوشی اور محبت سے میرا سواگت کیا تھا۔
بے نظیرنے اپنی اس تقریر میں یونائیٹڈ نیشنز کے قریب بنے ہوئے اس چھوٹے سے '' امن پارک''کا ذکر کیا تھا جس میں ایک تختی پر یہ الفاظ کندہ ہیں کہ '' ہمیں اپنی تلواروں کو ہل بنا لینا چاہیے اور اپنے نیزوں کو ڈانگ سے بدل لینا چاہیے۔ کسی بھی قوم کو کسی دوسری قوم کے خلاف تلوار نہیں اٹھانی چاہیے اور نہ انھیں کبھی بھی جنگ کی تربیت حاصل کرنی چاہیے۔''
وہ جو بے نظیر کی زندگی سے حسد کرتے تھے، کیا انھیں ان کی رخصت پر رشک نہیں آیا؟ کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ان کے ماتم دار تابوت سے سر ٹکرا کر دھاڑیں مار رہے تھے۔ بچوں کی طرح رو رہے تھے۔
ان کے تابوت کو چھونے کی آرزو میں ایک دوسرے پر گر پڑتے تھے۔ شفیق احمد عرف گوگا اور ظہیر احمد جیسے لوگ۔ شمع جل بجھی اور پروانے بھی اس پر نثار ہوگئے۔ بی بی کو سفید لباس پسند تھا، وقت رخصت ان کے سفید کفن پر لہو کے چھینٹے تھے، وہ بچوں کی شادی اپنی پسند سے کرنا چاہتی تھیں لیکن زندگی نے انھیں اتنی مہلت بھی نہ دی کہ وہ انھیں تعلیم مکمل کرتے دیکھ سکیں۔ انھیں نینارشی کی خوشبو پسند تھی اور اب وہ مٹی کی خوشبو اوڑھ کرسوتی ہیں اور ان کے قاتل عیش کرتے ہیں۔
آنے والے عام انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی اور تمام جمہوری قوتوں کو بی بی یہ پیغام دے رہی ہیں کہ جمہوریت، رواداری اور امن کے جن مشترک آدرشوں کے لیے میں نے اپنی جان نذرکی ہے کیا آپ سب اس کا مان رکھیں گے؟