یوریا درآمد کرنے کے بعد بھی کھاد کا بحران جاری رہیگا پاکستان کسان اتحاد
مڈل مین کی جانب سے ناجائز منافع خوری کسانوں کیلیے دوسرا بڑا درد سر ہے، خالد محمود کھوکھر
صدر پاکستان کسان اتحاد خالد محمود کھوکھر نے کہا کہ یوریا درآمد کرنے کے بعد بھی کھاد کا بحران جاری رہیگا۔
یوریا کھاد کی عدم دستیابی کے سبب کسانوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے صدر پاکستان کسان اتحاد خالد محمود کھوکھر نے کہا کہ پاکستان کی یوریا کھاد کی طلب 70 لاکھ ایم ٹی ہے جبکہ قیمتوں کو مستحکم رکھنے کیلیے 2 لاکھ ایم ٹی بفر اسٹاک کی بھی ضرورت ہے، تاہم اس کے برعکس 2023 میں یوریا کھاد کی مقامی پیداوار 64 لاکھ ایم ٹی رہی، جس کا مطلب ہے کہ امپورٹ کردہ 2 لاکھ 10 ہزار ایم ٹی ( جو دسمبر 2023 اور جنوری 2024 میں پہنچیں گی) کے بعد بھی ملک کو 6 لاکھ ایم ٹی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں: یوریا کھاد کی ذخیرہ اندوزی اور گرانفروشی کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
انھوں نے کہا کہ مڈل مین کی جانب سے ناجائز منافع خوری کسانوں کیلیے دوسرا بڑا درد سر ہے، جو ایک بیگ پر ایک ہزار روپے تک زیادہ قیمت وصول کر رہے ہیں، جس سے کسانوں کو اندازا120 ارب روپے سے محروم کیا جارہا ہے، جس کی بنیادی وجہ انڈسٹری کی جانب سے مختلف قیمتوں پر کھاد کی فروخت ہے جو کہ حکومت کی جانب سے گیس کی متغیر قیمتوں کو بنیاد بنا کر یوریا کمپنیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ موجودہ حالات میں زراعت کو جاری رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے، خاص کر چھوٹے کسانوں کیلیے جو کہ صنعت کا 90 فیصد ہیں، مشکلات بڑھ گئی ہیں، زراعت کو جاری رکھنے کیلیے یوریا کھاد کی فی بیگ قیمت 3 ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
یوریا کھاد کی عدم دستیابی کے سبب کسانوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے صدر پاکستان کسان اتحاد خالد محمود کھوکھر نے کہا کہ پاکستان کی یوریا کھاد کی طلب 70 لاکھ ایم ٹی ہے جبکہ قیمتوں کو مستحکم رکھنے کیلیے 2 لاکھ ایم ٹی بفر اسٹاک کی بھی ضرورت ہے، تاہم اس کے برعکس 2023 میں یوریا کھاد کی مقامی پیداوار 64 لاکھ ایم ٹی رہی، جس کا مطلب ہے کہ امپورٹ کردہ 2 لاکھ 10 ہزار ایم ٹی ( جو دسمبر 2023 اور جنوری 2024 میں پہنچیں گی) کے بعد بھی ملک کو 6 لاکھ ایم ٹی کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیں: یوریا کھاد کی ذخیرہ اندوزی اور گرانفروشی کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
انھوں نے کہا کہ مڈل مین کی جانب سے ناجائز منافع خوری کسانوں کیلیے دوسرا بڑا درد سر ہے، جو ایک بیگ پر ایک ہزار روپے تک زیادہ قیمت وصول کر رہے ہیں، جس سے کسانوں کو اندازا120 ارب روپے سے محروم کیا جارہا ہے، جس کی بنیادی وجہ انڈسٹری کی جانب سے مختلف قیمتوں پر کھاد کی فروخت ہے جو کہ حکومت کی جانب سے گیس کی متغیر قیمتوں کو بنیاد بنا کر یوریا کمپنیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ موجودہ حالات میں زراعت کو جاری رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے، خاص کر چھوٹے کسانوں کیلیے جو کہ صنعت کا 90 فیصد ہیں، مشکلات بڑھ گئی ہیں، زراعت کو جاری رکھنے کیلیے یوریا کھاد کی فی بیگ قیمت 3 ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔