’’گلگت سے چترال تک‘‘ ایک فوجی مہم کی داستان

یہ کتاب تاریخ کے ان تمام طالب علموں کےلیے ہے جو برٹش انڈیا کی فوجی مہمات میں دلچسپی رکھتے ہیں


جارج بینن کی انگریزی کتاب ’وتھ کیلی ٹو چترال‘ کا اردو ترجمہ نور شمس الدین نے کیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

1895 میں ریاستِ چترال کے حکمرانوں کی آپسی خانہ جنگی کی وجہ سے خان آف جندول عمرا خان اور محض 27 دن چترال میں منصبِ مہتری پر براجمان ہونے کے بعد افغانستان میں خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے شیر افضل کو ایک بار پھر تختِ چترال پر قابض ہونے کا موقع میسر آیا۔


چترال پر اس وقت امیر الملک مہتر بنے ہوئے تھے، جنھوں نے اپنے بھائی مہتر نظام الملک کو قتل کروا کر خود کو تخت کا حقدار ٹھہرایا تھا۔ ایک تیسری طاقت جو تخت کی اس کھینچا تانی میں سب سے آگے تھی، وہ ریاستِ برطانیہ تھی جو 'گریٹ گیم' کے تحت چترال کی سرزمین کو روس کے برطانوی ہند پر ممکنہ حملے کو روکنے کےلیے استعمال کرنے کی خواہشمند تھی۔ چنانچہ امیرالملک کی کمزور حکومت اور عمرا خان اور شیر افضل کے چترال پر حملے کو روکنے کےلیے برطانوی حکومت نے طاقت کے استعمال کا فیصلہ کرلیا۔


چترال میں موجود انگریز فوج پر عمرا خان اور شیر افضل کے حامیوں نے حملے شروع کردیے اور دیکھتے ہی دیکھتے برطانوی ہند کے سپاہی سیکڑوں کی تعداد میں لقمہِ اجل بن گئے۔ پولیٹیکل آفیسر جارج اسکاٹ رابرٹسن کی قیادت میں انگریز فوج کو چترال کے قلعے میں محصور کردیا گیا۔ چترال کے طول و عرض میں مختلف مقامات پر انگریز فوج پر چھوٹے بڑے حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں کئی انگریز فوجی ہلاک ہوگئے جبکہ کچھ زخمی حالت میں شیر افضل اور عمرا خان کی مشترکہ افواج کے قیدی بن گئے۔


اس تمام تر صورتحال میں برطانوی ہند نے ریاستِ چترال پر فوج کشی کا فیصلہ کرلیا تاکہ عمرا خان اور شیر افضل کو شکست دے کر نہ صرف عالمی طاقتوں کے سامنے اپنی ساکھ بچا سکے بلکہ محصوریں کو قید سے نجات بھی دلا سکے۔ گلگت سے چترال کی طرف مارچ کرنے والی فوج کی قیادت کرنل کیلی کر رہے تھے جس میں دیگر افسران کے ہمراہ گلگت میں تعینات ہونے والے لیفٹیننٹ جارج بینن بھی تھے، جو بعد ازاں میجر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔


جارج بینن نے گلگت سے چترال کی طرف مارچ کرنے والی اس انگریز فوج کی روداد 'وتھ کیلی ٹو چترال' یعنی کیلی کے ساتھ چترال تک میں بیان کی ہے جسے ایک کتاب کی صورت میں 1896 کو برطانیہ میں شائع کیا گیا تھا۔ اس کتاب میں مہم کے آغاز سے اختتام تک کے تمام احوال بشمول راستے کی صعوبتوں، گلگت اور چترال کے سیاسی حالات، موسم کی سختیوں اور انگریز فوج کے چترالیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کو تفصیل سے لکھا گیا ہے۔


گو کہ انگریز افسر نے اس کتاب میں تصویر کا وہی رخ دکھانے کی کوشش کی ہے جس سے 'عظیم برطانوی فوج' کے 'کرامات' اور بہادری ہی ظاہر ہو اور چترال میں مزاحمت کرنے والی فوج کو ناتواں دکھایا جاسکے۔ اس لیے اسے ایک غیر جانبدارانہ تاریخ نویسی تو نہیں کہا جاسکتا تاہم مواد کی کمی کی وجہ سے یہ یک طرفہ رپورٹنگ بھی تاریخ سے شغف رکھنے والے طالب علموں کےلیے کسی تحفے سے کم نہیں۔


چترال سے تعلق رکھنے والے کہنہ مشق اسکالر، نظربایف یونیورسٹی آف قازقستان میں پی ایچ ڈی کے طالب علم نور شمس الدین نے اس مشکل اور قدیم طرزِ انگریزی میں لکھی ہوئی کتاب کو کمالِ فن سے اردو زبان میں ترجمہ کرکے شائع کروایا ہے۔ نیز فوجی اور جنگی اصطلاحات، محاورات، دقیق الفاظ اور اسلوبِ تحریر کو آسان الفاظ میں ترجمہ کرکے نور شمس الدین نے ایک بہترین مترجم ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ مترجم نے لفظی ترجمے پر محاوراتی ترجمے کو فوقیت دی ہے اور تحریر پڑھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ ترجمہ نہیں بلکہ اردو ہی میں لکھی ہوئی کتاب ہے۔ کم و بیش 115 صفات پر مشتمل اس کتاب کا نام 'گلگت سے چترال تک' ہے جسے پڑھتے ہوئے قاری بور نہیں ہوتا بلکہ وہی لطف اٹھاتا ہے جو کسی رومانوی ناول کو پڑھتے ہوئے سنسنی خیز اختتام کی جانب لے جانے والے تجسس سے پیدا ہوتا ہے۔


کتاب 'گلگت سے چترال تک' ایک فوجی مہم کی داستان ہے جس کا ہر پیراگراف گزشتہ سطور سے دلچسپ اور منفرد ہے۔ گلگت سے انگریز افسروں کی روانگی سے لے کر قلعہِ چترال میں یونین جیک کو دی جانے والی سلامی تک، اس کتاب کا ہر باب سنسنی خیز مہم جوئی سے بھرپور ہے۔ مصنف نے جنگی اصولوں کی پامالی کرتے ہوئے دورانِ سفر انگریز فوج کی لوٹ مار کو چھپانے کی حتی الوسع کوشش کی ہے، تاہم ان کی تحریر میں جگہ جگہ اس کا ذکر بطورِ 'جنگی تدبیر' ملتا ہے۔ جارج بینن نے حاکمِ ڑاسپور محمد رفیع کو اپنا دشمن قرار دیا ہے اور ان کے گھر پر حملہ آور ہوکر لوٹ مار کا تذکرہ بے باکی سے کیا ہے۔ تاہم وہ یہ بھی لکھتا ہے کہ ان کے گزشتہ دورۂ چترال میں اسی حاکم نے ان کی مہمان نوازی کی تھی۔ بینن معافی کے طلب گار عوامِ چترال کو قلی بنا کر جنگی سامان کی ترسیل کے کام پر لگانے کا تذکرہ نہایت ہی تکبرانہ انداز میں کرتا ہے، تاہم مزاحمت کرنے والے ان افراد کا تذکرہ نہیں ملتا جنھوں نے سیکڑوں انگریزی فوج کے سپاہیوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا تھا۔


مصنف پوری کتاب میں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ ان کی 500 کی سپاہ پر مشتمل فوج کا سامنا کرنے کے بجائے ہزاروں چترالی بھاگ کھڑے ہوئے، حالانکہ انگریزوں کی ہی لکھی ہوئی مختلف رپورٹس کے مطابق ریاستِ چترال میں مجموعی طور پر 200 سے زائد برطانوی فوج کے سپاہی ہلاک کردیے گئے تھے، جو اس خطے میں اس وقت اعداد و شمار کے مطابق ان کا بہت بڑا جانی نقصان تھا۔


جارج بینن ایک جانب اس قدر حساس نظر آتا ہے کہ اپنے پالتو کتے کی آنکھیں بار بار گرم پانی سے دھوتے ہیں تاکہ وہ 'اسنو بلائنڈنیس' سے بچ سکے تاہم وادی لاسپور میں گشت کے مقام پر اپنی بندوق کا رینج چیک کرنے کےلیے ایک چترالی شخص کو نشانہ بنا کر بے حسی کی انتہا کردیتا ہے۔ جگہ جگہ وہ اپنے ہی ساتھی آفیسر اسٹیوارٹ کا تذکرہ بھی کرتا ہے جو کافی یا چائے کی جگہ بھی چترالیوں کا خون پینے کی سعی کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ ایک مقام پر وہ توپوں کے ذریعے مقامی گھروں کو نشانہ بناکر رینج چیک کرنے کےلیے کرنل کیلی سے درخواست کرتا ہے، جسے کیلی مسترد کردیتا ہے۔


یہ کتاب تاریخ کے ان تمام طالب علموں کےلیے ہے جو برٹش انڈیا کی فوجی مہمات سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسے پڑھنے کے بعد قاری کو ایک منفرد قسم کی مہم جوئی کی داستان سے واقف ہونے کا موقع ملے گا۔ نیز یہ بھی معلوم ہوگا کہ کس طرح حکومتِ برطانیہ برصغیر کی چھوٹی بڑی ریاستوں میں مداخلت کرکے اپنی مرضی کے مطابق سربراہ تعینات کرتے تھے۔ اس فوجی مہم کے بعد ریاستِ چترال کے حالات یکسر طور پر بدل گئے اور علاقے میں مثبت اور منفی دونوں قسم کی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں۔ ریاست کی سرحدات سکڑ گئیں مگر امن و امان قائم ہوا۔ تخت کے حصول کےلیے اندرونی طور پر بغاوت کا سلسلہ گاہے بہ گاہے چلتا رہا، تاہم ریاستِ چترال نے اس واقعے کے بعد سوائے جنگ بریکوٹ کے اور کسی بیرونی حملے کا سامنا نہیں کیا۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں