مجموعہ اضداد معاشرہ

ایسا کوئی ہاتھ یا کان بمشکل ملے گا جسے کوئی لمبا چوڑا موبائل چسکا نہ ہو

barq@email.com

کچھ عجیب سی صورت حال ہے سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے کیاکہاجائے ہمارے ارد گرد جو معاشرہ بن رہا ہے اس میں تضادات ہی تضادات ابھر رہے ہیں قدم قدم پر تضادات کی اتنی بھرمار ہوگئی ہے جیسے یہ کوئی معاشرہ نہیں بلکہ تضادات کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہو۔

ایک طرف سنئیے تو غربت، مہنگائی اور بھکاری پن کی چیخیں آسمان تک پہنچ رہی ہے، دوسری طرف دیکھیے تو گلی گلی میں فوڈ اسٹریٹ بن رہی ہیں، طرح طرح کی نعمت ہائے ملکی وغیر ملکی سے بازار پھٹے پڑ رہے ہیں۔

طرح طرح کے شاپنگ مال ، ڈیپارٹمنٹل اسٹور اور اشیائے تعیش کی دکانیں کھل رہی ہیں جہاں ضروریات زندگی کی دکانیں ہوتی تھیں وہاں چمک دار دمک دار لگژریوں کے اسٹورکھل ہے ہیں، یہاں تک کہ پٹرول پمپوں، اڈوں، اسٹاپوں بلکہ خالی جگہوں پر بھی ان اشیا کی دکانیں ہیں جن کی کوئی ضرورت نہیں اور ان کے بغیر بھی زندگی آرام سے کٹ سکتی ہے۔

یہاں تک کہ معمولی ہٹیوں میں بھی اشیائے ضروریہ کے بجائے ٹافیوں، چاکلیٹوں، بسکٹوں، سافٹ ڈرنک (غیرملکی) پیک فوڈزاورہزار اقسام کی بچوں کے چیزوں سے بھرے ہوتے ہیں، آئس کریموں، ملک شیکوں مٹھائیوں، رنگ برنگ چاٹوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا، سڑکوں پر دیکھتے ہیں تو گاڑیوںکی قطاروں میں رخنہ تلاش کرنے کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے، پٹرول پمپ اتنے کہ درمیان میں کوئی خالی جگہ باقی بچی ہی نہیں۔

ایسا کوئی ہاتھ یا کان بمشکل ملے گا جسے کوئی لمبا چوڑا موبائل چسکا نہ ہو۔ اینٹوں کے بھٹے، سمینٹ کے کارخانے، رنگ برنگے ٹائل ہر جا نظر آتے ہیں، ہمارے گاؤں میں ایک ہی معمار تھا وہ بھی اکثر بے روزگار پھرتا تھا مگر اب حالت ہی دوسری ہے۔

یہ تو دنیاوی معاملات کے تضادات ہیں، مذہب کی طرف آئیے تو ہرہرطرف خدا کے نیک بندے ہیں، قدم قدم پر مساجد اورپھر ان میں مدارس اور نمازیوں کی اتنی بھرمار کہ نماز کے وقت باہرسڑکوں پر صفیں کھڑی ہوجاتی ہیں۔

ہم جس سڑک پر گھر آتے جاتے ہیں دو کلومیٹرمیں تیرہ مساجد مکمل ہیں اورتین زیر تعمیر بلکہ زیرچندہ ہیں، ہرایک میں یہ بڑے بڑے لاوڈاسپیکر ۔نیک لوگوں کی اتنی کثرت ہوگئی کہ دس لوگوں میں بمشکل ایک بے ریش ملے گا، تقریباً ہرگھر کاکوئی نہ کوئی فرد مع خواتین کے حاجی وعمرائی ہوتاہے بلکہ کئی گھرانے اورافراد تو ہرسال حج یاعمرے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

کتابوں کی دکانوں میں اکادکا کوئی اورکتاب ملے تو ملے ورنہ سارے دینی کتب۔ تقریباً ہر گلی میں دوچار دینی مدارس تو عام سی بات ہے بلکہ اب تو گھروں میں زنانہ مدرسے بھی کھل چکے ہیں اوردینی سیاسی جماعتوں کی کثرت کاتو ہرکسی کو علم ہے۔

مطلب کہنے کایہ ہے کہ دینی لحاظ سے ہر طرف نورکا ماحول ہے اورکیوں نہ ہو کہ یہ ملک بناہی اسلام کے لیے ہے یہ خود بھی اسلامیہ جمہوریہ اورریاست مدینہ اوردارالحکومت بھی اسلام آباد ہے ۔لیکن دوسری طرف دیکھیے تو ایسی بے راہروئی اورگمراہی باقی نہیں بچی ہے جو دنیا میں ایجاد ہوئی ہو بلکہ یوں کہیے کہ ابلیس نے ایجاد کی ہو اوراس کی یہاں بھرمارنہ ہو۔

اوپر موبائل اورچنگ چی کی برکات سے مردوں اورعورتوں کی ایک دوسرے تک رسانی اتنی آسان کہ جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی ، بازاروں میں خواتینی پراڈکٹس کی جو بھرمارہے ساری خواتین ان کی رسیا۔ آمدنی اٹھنی اورخرچے روپیا۔ ماں باپ اورشوہر کہاں سے لائیں گے۔


اس شاپنگ کے خرچے ۔دیسی بدیسی انگریزی سرکاری وغیرہ سرکاری اسکول بھی ماشاء اللہ بے تحاشا ''مال''تیارکررہے ہیں اورروزگار کاعالم تو سب کو معلوم ہے ، ہمارے اندازے کے مطابق ہرسال دس بیس لاکھ لڑکیاں آزادی نسواں اورتعلیم کے زیورسے مسلح ہوکر نکلتی ہیں اوپر سے بے تحاشا این جی اوزکی ''رہنمائیاں''اورسہولیات ، ایک حشر برپاہے ۔

حشر برپا ہے خانہ دل میں

کوی دیوارسی گری ہے ابھی

کوئی ''دیوار'' سی نہیں بلکہ بہت ساری دیواریں بلکہ چار دیواریاں بے تحاشاگررہی ہیں ۔ دیکھیے کیا کیا ان دیواروں تلے آتا ہے اورکیاکیا حشربرپا ہوتے ہیں اور اب ان اداروں، محکموں اورمقامات عالی ذکر جن کو قانون نافذکرنے والے ادارے ،امن وامان قائم کرنے والے ادارے ، عدل وانصاف فراہم کرنے والے ادارے، جرائم روکنے والے ادارے، منشیات کا انسداد کرنے والے ادارے، کرپشن کو ختم کرنے والے ادارے کہا جاتا ہے۔

ان اداروں کی بہتات رسائی اور ہلہ گلہ کو دیکھ کر تو یہ چاہیے کہ اس ملک میں جرم بدعنوانی اورکرپشن کا نام تک بھی نہ ہو لیکن دیکھیے تو سارے جرائم ان ہی انسدادی (یاامدادی) اداروں کے زیرسایہ پلتے اورپنپتے ہیں بلکہ ایجاد بھی ہوتے ہیں، پشتو کی ایک گالی نما کہاوت ہے ۔

چورکاباپ کوتوال ہوتاہے ۔

کیوں کہ حقیقت میں کوتوال ہی کی اولاد چور ہوتی ہے ، سیاں بھئے کوتوال تو پھر ڈر کاہے کا۔

ہمارے گردوپیش میں ایک شخص نے اپنی بیوہ دیورانی سے جائیداد ہتھیانے کے لیے اس کمال سے قتل کیا کہ چند ہی روزمیں معاملہ ختم ہوگیا، اس نے اپنے بیٹے سے اس عورت کو بے راہ روی کا الزام لگاکر قتل کروایا بلکہ اکثرجاننے والوں کا کہنا ہے کہ خود اسی نے بدست خود اسے گولی ماری اور پھر جاکر تھانے میں اپنے بیٹے پر دعویداری کی یعنی خود ہی مدعی بن گیا ۔بیٹا کہیں ادھر ادھر ہوگیا، کچھ دن گزرے تو مدعی اورمدعاعلیہ کے درمیان صلح ہوگئی اور معاملہ ختم ۔کافی عرصے بعد یہ عقدہ کھلا کہ یہ سب کچھ ایک کوتوال کے زیر ہدایت اورزیر نگرانی ہواتھا ، مناسب فیس لے کر ۔

خیربات پھر اصل موضوع پرلاتے ہیں کچھ عجیب سامجموعہ اضداد معاشرہ بنتا جارہاہے ،ہماراکہ ایک طرف نیکیوں اورنیک ناموں کی بہتات اوردوسری جانب رقص ابلیس۔

دیواستبداد جمہوری قبامیں پائے کوب

تو سمجھتا ہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری
Load Next Story