سرکاری ملازمین کے بچوں کو ترجیحاً نوکری کیوں کیا باقی بچے پاکستانی نہیں چیف جسٹس
سرکاری ملازمین کے بچوں کوترجیحاً نوکری کی خیراتی پالیسی کیوں بنائی جاتی ہے؟ اسے اٹھا کر باہر پھینک دینا چاہیے، ریمارکس
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ سرکاری ملازمین ہی کے بچوں کو ترجیحاً نوکری کیوں دی جاتی ہے؟ کیا باقی بچے پاکستانی نہیں؟
جنرل پوسٹ آفس اسلام آباد میں بھرتی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے کی، جس میں عدالت نے سرکاری ملازمین کے بچوں کو ترجیحی بنیادوں پر بھرتی کرنے پر سوالات اٹھا دیے۔
دوران سماعت چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کیا وزیراعظم کےپاس یہ اختیار ہے کہ خود سے پالیسی تبدیل کرے؟ سرکاری ملازمین کے بچوں کو ترجیحی بنیادوں پر نوکری دینے کی خیراتی پالیسیاں کیوں بنائی جاتی ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ اس طرح کی پالیسی بناکر آئین کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ ہمت پکڑیں اور وزیراعظم کو لکھیں کہ یہ پالیسی غلط ہے۔ ترجیحی بنیادوں پرصرف سرکاری ملازمین ہی کے بچوں کو نوکری کیوں ملے؟ کیا باقی بچے پاکستانی نہیں؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ یہ پالیسی سابقہ حکومت کے دور میں بنی، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پھر کہہ دیں کہ سابقہ حکومت آئین سے بالا تر تھی۔ ایسی پالیسی کو اٹھا کر باہر پھینک دینا چاہیے۔ آئین ہر چیز سے بالا تر ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس معاملے پر حکومت سے ہدایات لینے کی استدعا کردی۔
بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔