محمد یوسف کا قومی ٹیم کی کوچنگ کرنے والے سابق کرکٹرز کو مشورہ
کوچنگ اپنے سامنے موجود ٹیلنٹ کو نکھارنے اور اس کی اہلیت کے مطابق کام لینے کا نام ہے، سابق کپتان
سابق کپتان اور قومی انڈر 19 ٹیم کے ہیڈ کوچ محمد یوسف نے سابق کرکٹرز کو اہم مشورہ دے دیا۔
لاہور میں قومی انڈر 19 ٹیم کی ورلڈ کپ کے لیے تیاریوں پر پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے جونیئر ٹیم کی کوچنگ سنبھالنے پر کھل کر بات کی۔ انہوں نے پاکستانی ٹیم کے ساتھ وابستہ رہنے والے سابق قومی کوچز کا نام لیے بغیر کہا کہ جب تک آپ یہ ذہن میں رکھیں گے کہ میں نے اپنے وقت میں یہ پرفارمنس دی اور اسی کی نوجوان کھلاڑیوں سے بھی توقع رکھیں گے، تو دونوں چیزوں کا ایک ساتھ چلنا مشکل ہے۔
محمد یوسف نے کہا کہ ساتھی کرکٹرزجب کوچنگ کریں تو خود کو اپنی ذات سے نکال کر لڑکوں کو سکھائیں۔ آپ کی پرفارمنسز ماضی کا حصہ بن چکیں۔ آپ نے اپنے ٹیلنٹ کے لحاظ سے کھیلا جبکہ کوچنگ اپنے سامنے موجود ٹیلنٹ کو نکھارنے اور اس کی اہلیت کے مطابق کام لینے کا نام ہے۔ جونیئر ٹیم کی کوچنگ کا مقصد لڑکوں کو ابتدائی سطح پر بہتر اپروچ کے ساتھ بہتر کھلاڑی بنانا ہے۔ سینئر ٹیم میں جانے کے بعد آپ کسی کو سکھا کچھ نہیں سکتے صرف فائن ٹیون کرسکتے ہیں۔
محمد یوسف نے کہا کہ اصل کوچنگ جونیئر سطح پر لڑکوں کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ آگے جاکر مستند کھلاڑی کے طورپر پاکستان کی خدمت کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ کوچنگ کی طرف آنے کے لیے یہ شق لاگو کرنی چاہے کہ وہ کم ازکم پچاس ون ڈے کھیلنے کے ساتھ اچھی ٹیسٹ کرکٹ بھَی ضرور کھیلا ہو۔ مختلف صورتحال میں جب تک آپ کو مقابلہ بازی کی کرکٹ کھیلنے کا تجربہ نہیں ہوگا اس وقت کیسے اندازہ ہوگا کہ میدان میں ایک کھلاڑی پر کیا گزرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوچنگ کورسز کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ کرکٹ کھیلنا بھی لازمی ہونا چاہیے، پاکستانی کرکٹ کے مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ جونیئر کرکٹرز کو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ سے دور رکھا جائے، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ سے صرف پیسہ بنایا جاسکتا ہے کوالٹی کرکٹرز تیار نہیں ہوتے۔
سابق کپتان کے نزدیک آسٹریلیا میں ہمیشہ فیلڈنگ کی وجہ سے ہارے ہیں۔ ماضی میں بھی وہ آسانی سے نہیں جیت سکے، آسٹریلوی فٹنس میں ہم اچھے ضرور ہیں مگر فیلڈنگ اچھی ہوتو آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں شکست دی جاسکتی ہے۔ انہوں نے ورلڈ کپ کے لیے ٹیم کی تیاریوں کو اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے اس بات کی امید دلائی کہ پاکستانی ٹیم فائنل کھیلنے اور ورلڈ چیمپئن بننے کی اہلیت رکھتی ہے۔
لاہور میں قومی انڈر 19 ٹیم کی ورلڈ کپ کے لیے تیاریوں پر پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے جونیئر ٹیم کی کوچنگ سنبھالنے پر کھل کر بات کی۔ انہوں نے پاکستانی ٹیم کے ساتھ وابستہ رہنے والے سابق قومی کوچز کا نام لیے بغیر کہا کہ جب تک آپ یہ ذہن میں رکھیں گے کہ میں نے اپنے وقت میں یہ پرفارمنس دی اور اسی کی نوجوان کھلاڑیوں سے بھی توقع رکھیں گے، تو دونوں چیزوں کا ایک ساتھ چلنا مشکل ہے۔
محمد یوسف نے کہا کہ ساتھی کرکٹرزجب کوچنگ کریں تو خود کو اپنی ذات سے نکال کر لڑکوں کو سکھائیں۔ آپ کی پرفارمنسز ماضی کا حصہ بن چکیں۔ آپ نے اپنے ٹیلنٹ کے لحاظ سے کھیلا جبکہ کوچنگ اپنے سامنے موجود ٹیلنٹ کو نکھارنے اور اس کی اہلیت کے مطابق کام لینے کا نام ہے۔ جونیئر ٹیم کی کوچنگ کا مقصد لڑکوں کو ابتدائی سطح پر بہتر اپروچ کے ساتھ بہتر کھلاڑی بنانا ہے۔ سینئر ٹیم میں جانے کے بعد آپ کسی کو سکھا کچھ نہیں سکتے صرف فائن ٹیون کرسکتے ہیں۔
محمد یوسف نے کہا کہ اصل کوچنگ جونیئر سطح پر لڑکوں کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ آگے جاکر مستند کھلاڑی کے طورپر پاکستان کی خدمت کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ کوچنگ کی طرف آنے کے لیے یہ شق لاگو کرنی چاہے کہ وہ کم ازکم پچاس ون ڈے کھیلنے کے ساتھ اچھی ٹیسٹ کرکٹ بھَی ضرور کھیلا ہو۔ مختلف صورتحال میں جب تک آپ کو مقابلہ بازی کی کرکٹ کھیلنے کا تجربہ نہیں ہوگا اس وقت کیسے اندازہ ہوگا کہ میدان میں ایک کھلاڑی پر کیا گزرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوچنگ کورسز کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس کے ساتھ کرکٹ کھیلنا بھی لازمی ہونا چاہیے، پاکستانی کرکٹ کے مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ جونیئر کرکٹرز کو ٹی ٹوئنٹی کرکٹ سے دور رکھا جائے، ٹی ٹوئنٹی کرکٹ سے صرف پیسہ بنایا جاسکتا ہے کوالٹی کرکٹرز تیار نہیں ہوتے۔
سابق کپتان کے نزدیک آسٹریلیا میں ہمیشہ فیلڈنگ کی وجہ سے ہارے ہیں۔ ماضی میں بھی وہ آسانی سے نہیں جیت سکے، آسٹریلوی فٹنس میں ہم اچھے ضرور ہیں مگر فیلڈنگ اچھی ہوتو آسٹریلیا کو آسٹریلیا میں شکست دی جاسکتی ہے۔ انہوں نے ورلڈ کپ کے لیے ٹیم کی تیاریوں کو اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے اس بات کی امید دلائی کہ پاکستانی ٹیم فائنل کھیلنے اور ورلڈ چیمپئن بننے کی اہلیت رکھتی ہے۔