بیرونی سرمایہ کاری اور معاشی استحکام
سیاسی و معاشی عدم استحکام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا اور ایک لانگ ٹرم پالیسی بنانا ہوگی
خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی اپیکس کمیٹی نے سرمایہ کاروں کو خاص طور پر ملک کے دور دراز علاقوں میں سہولت فراہم کرنے کے لیے انفرا اسٹرکچر کی ترقی تیزکرنے پر بھی اتفاق کیا۔
اجلاس میں سعودی عرب، قطر کے ساتھ دوطرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات اور کویت کے ساتھ مفاہمت کی یاد داشتوں اور فریم ورک معاہدوں پر دستخط سمیت دوست ممالک کے ساتھ معاشی روابط میں اضافے کو سراہا۔کمیٹی نے اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔
اپیکس کمیٹی کا آٹھواں اجلاس نگران وزیراعظم کی زیر صدارت ہوا، جس میں چیف آف آرمی اسٹاف، وفاقی کابینہ ، صوبائی وزرائے اعلیٰ اور اعلیٰ سطح کے سرکاری حکام نے شرکت کی۔
بلاشبہ پاکستان کی معیشت کے تمام شعبوں میں بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنا نگران حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ حکومت کی توجہ کاروبار دوست ماحول پیدا کرنے پر مرکوز ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان اس وقت استحکام کی راہ پر ہے۔
پاکستانی معیشت پہلے کی نسبت بہتر پوزیشن میں ہے، سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہورہا ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے مثبت خبریں آرہی ہیں۔ پاکستان جنوبی ایشیا میں سرمایہ کاری کا مرکز بننے جا رہا ہے، اس میں بلوچستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے باعث اہم تجارتی مرکز ہو گا اور گوادر اور سی پیک کی اہمیت مسلمہ ہے۔
کسی بھی ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، اس بات کی علامت ہے کہ بیرونی دنیا اس ملک کی معیشت کو سرمایہ کاری کے لیے ایک قابل قدر جگہ سمجھتی ہے اور یہ اس ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔
سرمائے کے استعمال سے حاصل ہونے والے منافع کو انفرا اسٹرکچر کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور صنعتوں کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق مالی سال 2024میں پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں 2.1 فیصد اضافے کی توقع ہے، جو کہ گزشتہ مالی سال 0.17 فیصد تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 2025میں شرح نمو 4.8 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے۔
رپورٹ میں متعدد عوامل کا حوالہ دیا گیا جو معاشی بحالی میں معاون ثابت ہوں گے، جس میں آئی ایم ایف سے قرض، سپلائی میں رکاوٹیں کم کرنا، سیاسی استحکام اور دیگر عوامل شامل ہے۔پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 70 کروڑ ڈالر قرض کی دوسری قسط کی ابتدائی منظوری مل گئی ہے، جس سے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے اور قرضوں کی نادہندگی کو روکنے میں مدد ملے گی۔
موجودہ پروگرام مارچ 2024 میں ختم ہونے کے بعد پاکستان ممکنہ طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ ایک طویل مدتی معاہدے پر بھی بات چیت کرے گا۔اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنائے گی۔
غیرملکی سرمایہ کار اپنے دفاتر اور پیداواری یونٹ یہاں لگا سکتے ہیں اور پاکستان سے دنیا بھر میں اپنی مصنوعات برآمد کر سکتے ہیں۔ پاکستان آئی ٹی انڈسٹری میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے، اگر غیرملکی کمپنیاں اپنے دفاتر یہاں قائم کریں تو باصلاحیت نوجوانوں کو بہتر ملازمتیں میسر آسکتی ہیں۔
موجودہ بحرانوں کا تریاق سب کو معلوم ہے۔ ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا اور اسے وسعت دینا، ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو متحرک کرنا جو کہ جی ڈی پی کے 15 فیصد حصے سے بھی کم ہو چکی ہے اور توانائی کے شعبے کو ٹھیک کرنا جو گردشی قرضوں میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔مالیاتی خسارے کو کم کرنے اور عوامی مالیات کو ذمے داری سے منظم کرنے کے لیے موثر مالیاتی حکمت عملی، منصوبہ بندی اور سب سے بڑھ کر عملدرآمد ضروری ہے۔
ٹیکس وصولی کے طریقہ کار کو بہتر بنانا، اور ٹیکس چوری کو روکے بغیر کوئی بھی ہدف حاصل کرنا مشکل ہو گا۔ صنعتی ترقی کو آسان بنانے اور برآمدی مسابقت کو بڑھانے کے لیے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری، جیسے سڑکیں، بندرگاہیں، اور توانائی کے منصوبوں پر کام کرنا پڑے گا۔
براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور کاروبار کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہو گا۔ تعلیم کا معیار بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ہنر مند افراد کو تیار کرنا نہایت اہم ہے۔پاکستان میں سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک 2028تک زرعی کارپوریٹ فارمنگ میں 6ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرینگے، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت زراعت، معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری ہوگی۔
زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کا آغاز ہو چکا اور ہزاروں ایکڑ اراضی زرعی فارم کے لیے الاٹ کی جاچکی اور اس پر جدید فارمنگ شروع ہو رہی ہے جب کہ معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے شعبے میں بھی بڑے پیمانے پر غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاری متوقع ہے۔
پاکستان میں دوست اور برادر ممالک زرعی شعبے میں اسٹریٹجک سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں گے اور ملک میں کارپوریٹ فارمنگ کا کلچر فروغ پائے گا۔ دورحاضر میں تصورات اور نظریات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔
جنگ اب میدان نہیں ابلاغی اور معاشی محاذ پرلڑی جاتی ہے۔ مضبوط معیشت کسی بھی ملک کو سپرپاور کا درجہ دے سکتی ہے۔
جنوبی ایشیا کے ممالک میں ڈائریکٹ غیرملکی سرمایہ کاری شروع ہوئی اور نئی منڈیوں کی تلاش میں سرگرداں مغربی کمپنیوں نے بھارت چین سمیت خطے کے تمام ممالک میں اپنی فیکٹریاں اور آؤٹ لیٹ بنانے شروع کر دیے، مگر بدقسمتی سے پاکستانی معیشت سیاسی اتار چڑھاؤ اور خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے غیریقینی کا شکار رہی۔
پچھلے کچھ عرصے سے ملک بھر میں ذخیرہ اندوزوں، بجلی و گیس چوروں اور ڈالر اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے جس میں چھوٹے بڑے ہر طرح کے مافیاز کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں ہو رہی ہیں، اس کا واضح طور پر کریڈٹ نگراں حکومت کو جاتا ہے اگر کوئی سیاسی حکومت ہوتی تو شاید اب تک گھٹنے ٹیک چکی ہوتی اس حکومت کے ساتھ پاک آرمی ہر ممکن تعاون کر رہی ہے۔
آرمی چیف کے اس معیشت سدھارو آپریشن نے مافیا کی نیندیں حرام کردی ہیں ڈالر جو بے قابو ہوچکا تھا وہ اب آہستہ آہستہ نیچے آرہا ہے، ملک بھر میں ذخیرہ اندوزوں کی شامت آئی ہے گوداموں کے گودام پکڑے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں بڑھتی مہنگائی میں کمی آئے گی۔
بیشک اس کارروائی کو تب تک طول دیا جائے جب تک اس ملک سے مافیا کا راج ختم نہیں ہوجاتا اور آخری گودام کو خالی نہیں کروایا جاتا۔ آج حکومت ملک چلانے کے لیے اداروں کی نجکاری کرنے پر مجبور ہے آخر ہم کب تک اپنے اثاثے گروی رکھتے رہیں گے اس ملک کو لوٹنے والوں سے ایک ایک پائی کا حساب لیا جائے تو ہمیں کچھ بیچنے کی ضرورت نہیں ہے ،سیاسی و معاشی عدم استحکام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا اور ایک لانگ ٹرم پالیسی بنانا ہوگی۔
اب اس سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ جو قومیں بروقت فیصلے نہیں کرتیں وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں اور ہم جب تک معاشی طور پر مضبوط نہیں ہوں گے ہم ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکیں گے، ہمارے سیاستدان ہوش کے ناخن لیں اور سب اس ملک کے لیے اکٹھے ہوجائیں کیونکہ ملک معاشی طور پر تب ہی مستحکم ہوگا جب اس میں سیاسی طور پر استحکام آئے گا۔
پاکستان کے معاشی استحکام میں بلاشبہ بیرونی سرمایہ کاری کی اہمیت وافادیت سے انکار ممکن نہیں، لیکن ان سطور کے ذریعے ہم حکومت کی توجہ شعبہ سیاحت پر بھی مرکوزکروانا چاہتے ہیں، سیاحت کے لحاظ سے دنیا کے دس بہترین ملکوں میں جانے والے سیاحوں کی تعداد اور ان ملکوں کو حاصل ہونے والی آمدن کا موازنہ اگر پاکستان میں آنیوالے سیاحوں کی تعداد اور آمدن سے کیا جائے تو موخر الذکر آٹے میں نمک کے برابر ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ ملک خوبصورتی، موسموں اور ثقافت کے لیے اپنی مثال آپ ہے۔
جہاں سیاحت کو فروغ دے کر اس تعداد اور آمدن کو کئی گنا بڑھایا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب اقتصادی اصلاحات کے ذریعے حکومتی کارکردگی کو بہتر بناتے ہوئے ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹلائزیشن کو اپنا کر بہت سے مسائل سے نکل سکتے ہیں۔
علاقائی تجارتی معاہدوں کے ذریعے پڑوسی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی استحکام کو اقتصادی پالیسیوں میں ضم کرنا تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کیا جا سکے اور طویل مدتی منصوبوں کو یقینی بنایا جا سکے۔
اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل اور مستقل مزاجی کو یقینی بنانے کے لیے دو طرفہ تعاون کے ساتھ طویل مدتی اقتصادی منصوبوں کو تیار کرنا اور ان پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ اگر ہم یہ فیصلے کرتے ہیں تو مشکل حالات اور بڑی بڑی رکاوٹوں کے باوجود گو کہ پاکستان کے معاشی چیلنجز کثیر جہتی ہیں لیکن اسٹرٹیجک اصلاحات اور اقدامات سے بہتری کے امکانات موجود ہیں۔ سیاسی استحکام، مالیاتی نظم و ضبط، ترقی اور سرمایہ کاری کے فروغ پر توجہ مرکوز کرنے کے کلیدی شعبے ہیں۔
مزید برآں، بدعنوانی، تعلیم، اور سماجی تحفظ جیسے مسائل کو حل کرنا جامع اور لچکدار معیشت کی تعمیر میں معاون ثابت ہوگا۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے حکومت، کاروباری اداروں اور سول سوسائٹی کی جانب سے پائیدار اصلاحات اور ترقی کے عزم کے ساتھ مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہو گی۔
اجلاس میں سعودی عرب، قطر کے ساتھ دوطرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات اور کویت کے ساتھ مفاہمت کی یاد داشتوں اور فریم ورک معاہدوں پر دستخط سمیت دوست ممالک کے ساتھ معاشی روابط میں اضافے کو سراہا۔کمیٹی نے اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔
اپیکس کمیٹی کا آٹھواں اجلاس نگران وزیراعظم کی زیر صدارت ہوا، جس میں چیف آف آرمی اسٹاف، وفاقی کابینہ ، صوبائی وزرائے اعلیٰ اور اعلیٰ سطح کے سرکاری حکام نے شرکت کی۔
بلاشبہ پاکستان کی معیشت کے تمام شعبوں میں بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنا نگران حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ حکومت کی توجہ کاروبار دوست ماحول پیدا کرنے پر مرکوز ہے، جس کے نتیجے میں پاکستان اس وقت استحکام کی راہ پر ہے۔
پاکستانی معیشت پہلے کی نسبت بہتر پوزیشن میں ہے، سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہورہا ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے مثبت خبریں آرہی ہیں۔ پاکستان جنوبی ایشیا میں سرمایہ کاری کا مرکز بننے جا رہا ہے، اس میں بلوچستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے باعث اہم تجارتی مرکز ہو گا اور گوادر اور سی پیک کی اہمیت مسلمہ ہے۔
کسی بھی ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، اس بات کی علامت ہے کہ بیرونی دنیا اس ملک کی معیشت کو سرمایہ کاری کے لیے ایک قابل قدر جگہ سمجھتی ہے اور یہ اس ملک کی معیشت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے۔
سرمائے کے استعمال سے حاصل ہونے والے منافع کو انفرا اسٹرکچر کی تعمیر، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم کو بہتر بنانے، پیداواری صلاحیت بہتر بنانے اور صنعتوں کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق مالی سال 2024میں پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) میں 2.1 فیصد اضافے کی توقع ہے، جو کہ گزشتہ مالی سال 0.17 فیصد تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 2025میں شرح نمو 4.8 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے۔
رپورٹ میں متعدد عوامل کا حوالہ دیا گیا جو معاشی بحالی میں معاون ثابت ہوں گے، جس میں آئی ایم ایف سے قرض، سپلائی میں رکاوٹیں کم کرنا، سیاسی استحکام اور دیگر عوامل شامل ہے۔پاکستان کو بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 70 کروڑ ڈالر قرض کی دوسری قسط کی ابتدائی منظوری مل گئی ہے، جس سے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے اور قرضوں کی نادہندگی کو روکنے میں مدد ملے گی۔
موجودہ پروگرام مارچ 2024 میں ختم ہونے کے بعد پاکستان ممکنہ طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ ایک طویل مدتی معاہدے پر بھی بات چیت کرے گا۔اس بات کو یقینی بنایا جانا ضروری ہے کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنائے گی۔
غیرملکی سرمایہ کار اپنے دفاتر اور پیداواری یونٹ یہاں لگا سکتے ہیں اور پاکستان سے دنیا بھر میں اپنی مصنوعات برآمد کر سکتے ہیں۔ پاکستان آئی ٹی انڈسٹری میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے، اگر غیرملکی کمپنیاں اپنے دفاتر یہاں قائم کریں تو باصلاحیت نوجوانوں کو بہتر ملازمتیں میسر آسکتی ہیں۔
موجودہ بحرانوں کا تریاق سب کو معلوم ہے۔ ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا اور اسے وسعت دینا، ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو متحرک کرنا جو کہ جی ڈی پی کے 15 فیصد حصے سے بھی کم ہو چکی ہے اور توانائی کے شعبے کو ٹھیک کرنا جو گردشی قرضوں میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔مالیاتی خسارے کو کم کرنے اور عوامی مالیات کو ذمے داری سے منظم کرنے کے لیے موثر مالیاتی حکمت عملی، منصوبہ بندی اور سب سے بڑھ کر عملدرآمد ضروری ہے۔
ٹیکس وصولی کے طریقہ کار کو بہتر بنانا، اور ٹیکس چوری کو روکے بغیر کوئی بھی ہدف حاصل کرنا مشکل ہو گا۔ صنعتی ترقی کو آسان بنانے اور برآمدی مسابقت کو بڑھانے کے لیے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں سرمایہ کاری، جیسے سڑکیں، بندرگاہیں، اور توانائی کے منصوبوں پر کام کرنا پڑے گا۔
براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری، ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور کاروبار کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا ہو گا۔ تعلیم کا معیار بلند کرنے کے ساتھ ساتھ ہنر مند افراد کو تیار کرنا نہایت اہم ہے۔پاکستان میں سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک 2028تک زرعی کارپوریٹ فارمنگ میں 6ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرینگے، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت زراعت، معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری ہوگی۔
زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کا آغاز ہو چکا اور ہزاروں ایکڑ اراضی زرعی فارم کے لیے الاٹ کی جاچکی اور اس پر جدید فارمنگ شروع ہو رہی ہے جب کہ معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے شعبے میں بھی بڑے پیمانے پر غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کاری متوقع ہے۔
پاکستان میں دوست اور برادر ممالک زرعی شعبے میں اسٹریٹجک سرمایہ کاری کے مواقع سے فائدہ اٹھائیں گے اور ملک میں کارپوریٹ فارمنگ کا کلچر فروغ پائے گا۔ دورحاضر میں تصورات اور نظریات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔
جنگ اب میدان نہیں ابلاغی اور معاشی محاذ پرلڑی جاتی ہے۔ مضبوط معیشت کسی بھی ملک کو سپرپاور کا درجہ دے سکتی ہے۔
جنوبی ایشیا کے ممالک میں ڈائریکٹ غیرملکی سرمایہ کاری شروع ہوئی اور نئی منڈیوں کی تلاش میں سرگرداں مغربی کمپنیوں نے بھارت چین سمیت خطے کے تمام ممالک میں اپنی فیکٹریاں اور آؤٹ لیٹ بنانے شروع کر دیے، مگر بدقسمتی سے پاکستانی معیشت سیاسی اتار چڑھاؤ اور خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے غیریقینی کا شکار رہی۔
پچھلے کچھ عرصے سے ملک بھر میں ذخیرہ اندوزوں، بجلی و گیس چوروں اور ڈالر اسمگلروں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے جس میں چھوٹے بڑے ہر طرح کے مافیاز کے خلاف بلا امتیاز کارروائیاں ہو رہی ہیں، اس کا واضح طور پر کریڈٹ نگراں حکومت کو جاتا ہے اگر کوئی سیاسی حکومت ہوتی تو شاید اب تک گھٹنے ٹیک چکی ہوتی اس حکومت کے ساتھ پاک آرمی ہر ممکن تعاون کر رہی ہے۔
آرمی چیف کے اس معیشت سدھارو آپریشن نے مافیا کی نیندیں حرام کردی ہیں ڈالر جو بے قابو ہوچکا تھا وہ اب آہستہ آہستہ نیچے آرہا ہے، ملک بھر میں ذخیرہ اندوزوں کی شامت آئی ہے گوداموں کے گودام پکڑے جارہے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں بڑھتی مہنگائی میں کمی آئے گی۔
بیشک اس کارروائی کو تب تک طول دیا جائے جب تک اس ملک سے مافیا کا راج ختم نہیں ہوجاتا اور آخری گودام کو خالی نہیں کروایا جاتا۔ آج حکومت ملک چلانے کے لیے اداروں کی نجکاری کرنے پر مجبور ہے آخر ہم کب تک اپنے اثاثے گروی رکھتے رہیں گے اس ملک کو لوٹنے والوں سے ایک ایک پائی کا حساب لیا جائے تو ہمیں کچھ بیچنے کی ضرورت نہیں ہے ،سیاسی و معاشی عدم استحکام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا اور ایک لانگ ٹرم پالیسی بنانا ہوگی۔
اب اس سوچ کو تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ جو قومیں بروقت فیصلے نہیں کرتیں وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتی ہیں اور ہم جب تک معاشی طور پر مضبوط نہیں ہوں گے ہم ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوسکیں گے، ہمارے سیاستدان ہوش کے ناخن لیں اور سب اس ملک کے لیے اکٹھے ہوجائیں کیونکہ ملک معاشی طور پر تب ہی مستحکم ہوگا جب اس میں سیاسی طور پر استحکام آئے گا۔
پاکستان کے معاشی استحکام میں بلاشبہ بیرونی سرمایہ کاری کی اہمیت وافادیت سے انکار ممکن نہیں، لیکن ان سطور کے ذریعے ہم حکومت کی توجہ شعبہ سیاحت پر بھی مرکوزکروانا چاہتے ہیں، سیاحت کے لحاظ سے دنیا کے دس بہترین ملکوں میں جانے والے سیاحوں کی تعداد اور ان ملکوں کو حاصل ہونے والی آمدن کا موازنہ اگر پاکستان میں آنیوالے سیاحوں کی تعداد اور آمدن سے کیا جائے تو موخر الذکر آٹے میں نمک کے برابر ہے، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ ملک خوبصورتی، موسموں اور ثقافت کے لیے اپنی مثال آپ ہے۔
جہاں سیاحت کو فروغ دے کر اس تعداد اور آمدن کو کئی گنا بڑھایا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب اقتصادی اصلاحات کے ذریعے حکومتی کارکردگی کو بہتر بناتے ہوئے ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹلائزیشن کو اپنا کر بہت سے مسائل سے نکل سکتے ہیں۔
علاقائی تجارتی معاہدوں کے ذریعے پڑوسی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی استحکام کو اقتصادی پالیسیوں میں ضم کرنا تاکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کیا جا سکے اور طویل مدتی منصوبوں کو یقینی بنایا جا سکے۔
اقتصادی پالیسیوں میں تسلسل اور مستقل مزاجی کو یقینی بنانے کے لیے دو طرفہ تعاون کے ساتھ طویل مدتی اقتصادی منصوبوں کو تیار کرنا اور ان پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ اگر ہم یہ فیصلے کرتے ہیں تو مشکل حالات اور بڑی بڑی رکاوٹوں کے باوجود گو کہ پاکستان کے معاشی چیلنجز کثیر جہتی ہیں لیکن اسٹرٹیجک اصلاحات اور اقدامات سے بہتری کے امکانات موجود ہیں۔ سیاسی استحکام، مالیاتی نظم و ضبط، ترقی اور سرمایہ کاری کے فروغ پر توجہ مرکوز کرنے کے کلیدی شعبے ہیں۔
مزید برآں، بدعنوانی، تعلیم، اور سماجی تحفظ جیسے مسائل کو حل کرنا جامع اور لچکدار معیشت کی تعمیر میں معاون ثابت ہوگا۔ ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے حکومت، کاروباری اداروں اور سول سوسائٹی کی جانب سے پائیدار اصلاحات اور ترقی کے عزم کے ساتھ مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہو گی۔