یارِ غار و مزار حضرت سیدنا ابُوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
رسول کریمؐ کے تمام معاملات میں جیسی تصدیق آپؓ نے کی ویسی کسی نے نہیں کی اس لیے آپؓ کو صدیق اکبر کہا جاتا ہے
حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ عام الفیل کے اڑھائی سال بعد اور سرکار مدینہ ﷺ کی ولادت کے دو سال اور چند ماہ بعد پیدا ہوئے۔ آپؓ کی جائے پرورش مکہ مکرمہ ہے۔
حضرت صدیق اکبرؓ بنوتمیم سے تعلق رکھتے تھے۔ نسب کے اعتبار سے آپؓ کا سلسلہ چھٹی پشت میں حضور نبی کریم ﷺ سے جا ملتا ہے۔ والدین نے آپؓ کا نام عبد الکعبہ رکھا لیکن رسول اﷲ ﷺ نے اسے عبداﷲ سے تبدیل فرمایا۔ کنیت ابُوبکر اور لقب صدیق تھا۔ زمانہ جاہلیت میں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا شمار رؤساء قریش میں ہوتا تھا اور دیگر سردار آپؓ سے مختلف اُمور میں مشورے کرتے تھے۔
آپؓ کا پیشہ تجارت تھا، آپؓ صرف تجارت کی غرض سے باہر تشریف لے جاتے تھے، اپنے اعلیٰ اخلاق، صاف گفت گو، زبان کی سچائی اور ایمان داری سے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بے حد نفع کمایا اور تھوڑے ہی عرصے میں آپؓ کا شمار مکہ کے معروف تاجروں میں ہونے لگا۔ جب اسلام کا پیغام ملا تو اسلام کو دُنیا پر ترجیح دی اور صرف اسلام کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دِل پہلے ہی ایمان قبول کرنے کی صلاحیت سے پوری طرح معمور تھا، صرف دعوت ملنے کی دیر تھی اور جو شمع جلنے کے لیے بے تاب تھی فوراً جل اٹھی، چناں چہ حضرت محمد بن عبدالرحمن بن عبداﷲ بن حصین تمیمیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''میں نے جس شخص کو بھی اسلام کی دعوت دی اس نے تردد اور تھوڑا بہت غور و فکر ضرور کیا مگر ابوبکر صدیق ایسے ہیں کہ جب میں نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے بغیر کسی تردد اور غور و فکر کے فوراً کلمہ پڑھ لیا اور اسلام میں داخل ہو گئے۔''
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جیسے ہی اسلام قبول فرمایا اور اس کی تبلیغ کھلے عام شروع کی تو مشرکین مکہ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے جانیں دشمن بن گئے، آپ کو اذیت میں مبتلا کرنا ان کے نزدیک ایک ضروری اَمر تھا لیکن آپؓ نے رسول اﷲ ﷺ کی حفاظت اور ان کی حمایت و مدد کو اساس ایمان قرار دے رکھا تھا اور یہ اساس ہی حقیقی ایمان ہے، یقیناً سچا اور حقیقی مسلمان وہی ہے جو رسول اﷲ ﷺ کی محبت کے مقابل اپنی جان، مال، اولاد وغیرہ کسی چیز کی قطعاً پروا نہ کرے اور نہ ہی دُنیا کی ظاہری عزت و وجاہت اس کی راہ میں حائل ہو۔
آپؓ کا یہ بے مثال کردار آپؓ کی بے نظیر جرأت و بہادری ہے جس کا انہوں نے ہر موقع پر شان دار مظاہرہ فرمایا۔ اﷲ عزوجل کی وحدانیت کا اعلان کرنے کے بعد جب مشرکین نے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اور حسن اخلاق کے پیکر، محبوب رب اکبر ﷺ کو اذیتیں پہنچانا شروع کیں اس وقت آپؓ نے مشرکین کی طرف سے پہنچائی جانے والی تکالیف کو بڑے صبر و تحمل سے برداشت کیا۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایمان لانے کے بعد کفار کے ظلم استبداد کے مقابل میں کوہ گراں کی مانند ڈٹے رہے۔ آپؓ نے ہر معاملے میں صداقت کا عملی مظاہرہ کیا حتیٰ کہ واقعہ معراج اور آسمانی خبروں وغیرہ جیسے معاملات کو جن کو اس وقت کسی کی عقل نے تسلیم نہیں کیا، ان میں بھی فوراً تصدیق فرمائی۔ سرکار مدینہ ﷺ کی تمام معاملات میں جیسی تصدیق آپؓ نے کی ویسی کسی نے نہیں کی اس لیے آپؓ کو صدیق اکبر کہا جاتا ہے۔
آپؓ نہایت ہی خشوع و خضوع سے نماز ادا کرنے کا اہتمام کیا کرتے تھے اور عبادت نہایت احسن انداز میں ادا کرنے کے شائق تھے۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا حددرجہ تقویٰ و اخلاص تھا کہ فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے بھی گرمیوں میں رکھتے تھے۔
آپؓ نہایت ہی غم خوار تھے اور قلبی طور پر اس قدر رحم دل اور حساس تھے کہ کسی مسلمان کو بڑی مصیبت تو کجا چھوٹی سی تکلیف میں دیکھنا بھی آپؓ کو گوارہ نہ تھا' یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کئی ایسے مسلمان غلاموں کو اپنی ذاتی رقم ادا کر کے آزاد کروایا جو اپنے آقا کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بنتے تھے۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہجرت کے وقت حضور نبی کریم ﷺ کی مصاحبت میں رہے' سفر کے دوران ہر قدم پر آپؓ نے حضور نبی کریم ﷺ کا بھرپور انداز میں ساتھ دیا۔ ہجرت کے بعد مسجد نبویؐ کے لیے زمین خرید کر وقف کی۔ طائف، بدر، احد، بنی مصطلق، حدیبیہ، حنین اور فاتح مکہ کے معرکوں میں رسالت مآب ﷺ کی معیت کا شرف ملا اور ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ آپؓ کو امیرالحج مقرر کیا گیا، حضور نبی کریم ﷺ کی علالت کے دوران امامت کا منصب ِ عظیم حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو نصیب ہُوا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فہم و فراست اور معاملہ کے سبب حضور نبی کریم ﷺ آپؓ سے امور مسلمین میں اکثر مشاورت فرمایا کرتے تھے۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ انتہائی نرم مزاج تھے، اگر ان کی اپنی ذات کا معاملہ ہوتا تو عفو و درگزر سے کام لیتے اور کسی کو ذرہ برابر تکلیف نہ پہنچاتے لیکن اگر معاملہ پیارے آقا ﷺ، عظمت اسلام یا مسلمانوں کا ہوتا تو غیرت جوش میں آ جاتی اور قطعاً کسی چیز کی پروا نہ کرتے بل کہ باطل کے سامنے ڈٹ کر اس کا مقابلہ فرماتے۔
راہِ خدا میں ایثار و قربانی میں آپؓ پر کوئی بھی سبقت نہ لے جا سکا۔ ایک موقع پر رسول اﷲ ﷺ نے رومی حملہ کے انسداد کے لیے انفاق سبیل اﷲ کا ارشاد فرمایا تو حضرت عمرؓ نصف مال و متاع لے کر حاضر ہوئے مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے گھر کا سارا اثاثہ پیش کر دیا، پھر جب رسول اﷲ ﷺ نے پوچھا: ''اپنے اہل و عیال کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟'' تو عرض کیا: ''اُن کے لیے اﷲ اور اس کا رسول ﷺ ہی کافی ہیں۔'' حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے اور کہنے لگے: ''میں کبھی بھی ابوبکر صدیقؓ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔''
حضور سید عالم ﷺ کے دنیائے فانی سے ظاہری طور پر پردہ فرمانے کے بعد مہاجرین و انصار صحابہؓ نے باہمی اتفاقِ رائے سے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو پہلا خلیفہ منتخب کرلیا۔ حضور نبی کریم ﷺ کے وصال ظاہری کے بعد تمام صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین شدتِ غم سے نڈھال تھے اور کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا ہوگا۔
ایسے میں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین کے بکھرے ہوئے جذبات کو یک جا کیا اور شیرازۂ اسلام کو منتشر ہونے سے بچایا۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمامِ خلافت ہاتھ میں لینے کے بعد کبھی کسی قسم کا ہنگامہ مسلمانوں میں خلافت کے مسئلے پر پیدا نہیں ہوا، بنوہاشم اور انصار دونوں نے کبھی ان کی مخالفت نہیں کی اور ان کا کوئی فرد مسلح ہو کر یا باغی کی صورت میں ان کے سامنے نہیں آیا اور کسی نے ان کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں کیا۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف تمام خطرات کے باوجود جہاد کیا۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خلافت راشدہ کے پہلے سال کا زیادہ تر حصہ مرتدین اور باغیوں کی بغاوت و ارتداد کو ختم کرنے میں گزرا، بغاوت و ارتداد کے خلاف جنگ و جہاد کے ساتھ مملکت کے انتظامی امور کی طرف بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے توجہ مبذول کیے رکھی اور مدینہ منورہ میں ایک بہترین نظام قائم فرما دیا۔ آپؓ نے نبوت کو حصول اقتدار کا ذریعہ سمجھنے والے کاذب نبیوں کے خلاف جہاد کیا انہیں تباہ و برباد کر دیا۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جھوٹے مدعیانِ نبوت کے خلاف تلوار اٹھا کر اُمت مسلمہ پر قیامت تک کے لیے احسان فرمایا کہ خاتم الانبیاء محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے وہ کاذب و دجال ہے، اس کے خلاف مسلمانوں کو جہاد کرنا چاہیے۔
حضرت صدیق اکبرؓ بنوتمیم سے تعلق رکھتے تھے۔ نسب کے اعتبار سے آپؓ کا سلسلہ چھٹی پشت میں حضور نبی کریم ﷺ سے جا ملتا ہے۔ والدین نے آپؓ کا نام عبد الکعبہ رکھا لیکن رسول اﷲ ﷺ نے اسے عبداﷲ سے تبدیل فرمایا۔ کنیت ابُوبکر اور لقب صدیق تھا۔ زمانہ جاہلیت میں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا شمار رؤساء قریش میں ہوتا تھا اور دیگر سردار آپؓ سے مختلف اُمور میں مشورے کرتے تھے۔
آپؓ کا پیشہ تجارت تھا، آپؓ صرف تجارت کی غرض سے باہر تشریف لے جاتے تھے، اپنے اعلیٰ اخلاق، صاف گفت گو، زبان کی سچائی اور ایمان داری سے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بے حد نفع کمایا اور تھوڑے ہی عرصے میں آپؓ کا شمار مکہ کے معروف تاجروں میں ہونے لگا۔ جب اسلام کا پیغام ملا تو اسلام کو دُنیا پر ترجیح دی اور صرف اسلام کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا دِل پہلے ہی ایمان قبول کرنے کی صلاحیت سے پوری طرح معمور تھا، صرف دعوت ملنے کی دیر تھی اور جو شمع جلنے کے لیے بے تاب تھی فوراً جل اٹھی، چناں چہ حضرت محمد بن عبدالرحمن بن عبداﷲ بن حصین تمیمیؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''میں نے جس شخص کو بھی اسلام کی دعوت دی اس نے تردد اور تھوڑا بہت غور و فکر ضرور کیا مگر ابوبکر صدیق ایسے ہیں کہ جب میں نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے بغیر کسی تردد اور غور و فکر کے فوراً کلمہ پڑھ لیا اور اسلام میں داخل ہو گئے۔''
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جیسے ہی اسلام قبول فرمایا اور اس کی تبلیغ کھلے عام شروع کی تو مشرکین مکہ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے جانیں دشمن بن گئے، آپ کو اذیت میں مبتلا کرنا ان کے نزدیک ایک ضروری اَمر تھا لیکن آپؓ نے رسول اﷲ ﷺ کی حفاظت اور ان کی حمایت و مدد کو اساس ایمان قرار دے رکھا تھا اور یہ اساس ہی حقیقی ایمان ہے، یقیناً سچا اور حقیقی مسلمان وہی ہے جو رسول اﷲ ﷺ کی محبت کے مقابل اپنی جان، مال، اولاد وغیرہ کسی چیز کی قطعاً پروا نہ کرے اور نہ ہی دُنیا کی ظاہری عزت و وجاہت اس کی راہ میں حائل ہو۔
آپؓ کا یہ بے مثال کردار آپؓ کی بے نظیر جرأت و بہادری ہے جس کا انہوں نے ہر موقع پر شان دار مظاہرہ فرمایا۔ اﷲ عزوجل کی وحدانیت کا اعلان کرنے کے بعد جب مشرکین نے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اور حسن اخلاق کے پیکر، محبوب رب اکبر ﷺ کو اذیتیں پہنچانا شروع کیں اس وقت آپؓ نے مشرکین کی طرف سے پہنچائی جانے والی تکالیف کو بڑے صبر و تحمل سے برداشت کیا۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایمان لانے کے بعد کفار کے ظلم استبداد کے مقابل میں کوہ گراں کی مانند ڈٹے رہے۔ آپؓ نے ہر معاملے میں صداقت کا عملی مظاہرہ کیا حتیٰ کہ واقعہ معراج اور آسمانی خبروں وغیرہ جیسے معاملات کو جن کو اس وقت کسی کی عقل نے تسلیم نہیں کیا، ان میں بھی فوراً تصدیق فرمائی۔ سرکار مدینہ ﷺ کی تمام معاملات میں جیسی تصدیق آپؓ نے کی ویسی کسی نے نہیں کی اس لیے آپؓ کو صدیق اکبر کہا جاتا ہے۔
آپؓ نہایت ہی خشوع و خضوع سے نماز ادا کرنے کا اہتمام کیا کرتے تھے اور عبادت نہایت احسن انداز میں ادا کرنے کے شائق تھے۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا حددرجہ تقویٰ و اخلاص تھا کہ فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے بھی گرمیوں میں رکھتے تھے۔
آپؓ نہایت ہی غم خوار تھے اور قلبی طور پر اس قدر رحم دل اور حساس تھے کہ کسی مسلمان کو بڑی مصیبت تو کجا چھوٹی سی تکلیف میں دیکھنا بھی آپؓ کو گوارہ نہ تھا' یہی وجہ ہے کہ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کئی ایسے مسلمان غلاموں کو اپنی ذاتی رقم ادا کر کے آزاد کروایا جو اپنے آقا کے ہاتھوں ظلم و ستم کا نشانہ بنتے تھے۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہجرت کے وقت حضور نبی کریم ﷺ کی مصاحبت میں رہے' سفر کے دوران ہر قدم پر آپؓ نے حضور نبی کریم ﷺ کا بھرپور انداز میں ساتھ دیا۔ ہجرت کے بعد مسجد نبویؐ کے لیے زمین خرید کر وقف کی۔ طائف، بدر، احد، بنی مصطلق، حدیبیہ، حنین اور فاتح مکہ کے معرکوں میں رسالت مآب ﷺ کی معیت کا شرف ملا اور ناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔ آپؓ کو امیرالحج مقرر کیا گیا، حضور نبی کریم ﷺ کی علالت کے دوران امامت کا منصب ِ عظیم حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو نصیب ہُوا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فہم و فراست اور معاملہ کے سبب حضور نبی کریم ﷺ آپؓ سے امور مسلمین میں اکثر مشاورت فرمایا کرتے تھے۔
حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ انتہائی نرم مزاج تھے، اگر ان کی اپنی ذات کا معاملہ ہوتا تو عفو و درگزر سے کام لیتے اور کسی کو ذرہ برابر تکلیف نہ پہنچاتے لیکن اگر معاملہ پیارے آقا ﷺ، عظمت اسلام یا مسلمانوں کا ہوتا تو غیرت جوش میں آ جاتی اور قطعاً کسی چیز کی پروا نہ کرتے بل کہ باطل کے سامنے ڈٹ کر اس کا مقابلہ فرماتے۔
راہِ خدا میں ایثار و قربانی میں آپؓ پر کوئی بھی سبقت نہ لے جا سکا۔ ایک موقع پر رسول اﷲ ﷺ نے رومی حملہ کے انسداد کے لیے انفاق سبیل اﷲ کا ارشاد فرمایا تو حضرت عمرؓ نصف مال و متاع لے کر حاضر ہوئے مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے گھر کا سارا اثاثہ پیش کر دیا، پھر جب رسول اﷲ ﷺ نے پوچھا: ''اپنے اہل و عیال کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟'' تو عرض کیا: ''اُن کے لیے اﷲ اور اس کا رسول ﷺ ہی کافی ہیں۔'' حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے اور کہنے لگے: ''میں کبھی بھی ابوبکر صدیقؓ سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔''
حضور سید عالم ﷺ کے دنیائے فانی سے ظاہری طور پر پردہ فرمانے کے بعد مہاجرین و انصار صحابہؓ نے باہمی اتفاقِ رائے سے آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو پہلا خلیفہ منتخب کرلیا۔ حضور نبی کریم ﷺ کے وصال ظاہری کے بعد تمام صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین شدتِ غم سے نڈھال تھے اور کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا ہوگا۔
ایسے میں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کرام رضوان اﷲ اجمعین کے بکھرے ہوئے جذبات کو یک جا کیا اور شیرازۂ اسلام کو منتشر ہونے سے بچایا۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے زمامِ خلافت ہاتھ میں لینے کے بعد کبھی کسی قسم کا ہنگامہ مسلمانوں میں خلافت کے مسئلے پر پیدا نہیں ہوا، بنوہاشم اور انصار دونوں نے کبھی ان کی مخالفت نہیں کی اور ان کا کوئی فرد مسلح ہو کر یا باغی کی صورت میں ان کے سامنے نہیں آیا اور کسی نے ان کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں کیا۔ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف تمام خطرات کے باوجود جہاد کیا۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی خلافت راشدہ کے پہلے سال کا زیادہ تر حصہ مرتدین اور باغیوں کی بغاوت و ارتداد کو ختم کرنے میں گزرا، بغاوت و ارتداد کے خلاف جنگ و جہاد کے ساتھ مملکت کے انتظامی امور کی طرف بھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے توجہ مبذول کیے رکھی اور مدینہ منورہ میں ایک بہترین نظام قائم فرما دیا۔ آپؓ نے نبوت کو حصول اقتدار کا ذریعہ سمجھنے والے کاذب نبیوں کے خلاف جہاد کیا انہیں تباہ و برباد کر دیا۔
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جھوٹے مدعیانِ نبوت کے خلاف تلوار اٹھا کر اُمت مسلمہ پر قیامت تک کے لیے احسان فرمایا کہ خاتم الانبیاء محمد رسول اﷲ ﷺ کے بعد جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے وہ کاذب و دجال ہے، اس کے خلاف مسلمانوں کو جہاد کرنا چاہیے۔