کراچی ایک ہی دن میں جھگیوں میں آتشزدگی کا دوسرا بڑا واقعہ
ملیر سٹی کے علاقے میں آگ گزشتہ شب تقریباً ساڑھے بارہ بجے لگی، جس پر 3 گھنٹے کی جدوجہد کے بعد قابو پایا گیا
شہر قائد میں ایک ہی دن میں جھگیوں میں آتش زدگی کا دو واقعات پیش آئے، جس میں درجنوں جھگیاں خاکستر ہو گئیں، تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
تین ہٹی پل کے نیچے جھگیوں میں آگ لگنے کے واقعے کے بعد گزشتہ شب ملیر سٹی کے علاقے بکرا پیڑی انور بلوچ ہوٹل کے عقب میں جمعرات کو رات گئے جھگیوں میں لگنے والی آگ پر فائربریگیڈ کے عملے نے 6 فائرٹینڈر کی مدد سے3 گھنٹے کی جدوجہد کے بعد قابو پالیا ۔واٹر کارپوریشن نے بھی واٹرٹینکر کے ذریعے پانی کی فراہمی آگ بجھنے تک جاری رکھی ۔
آتش زدگی کے نتیجے میں خواتین سمیت 4 افراد جھلس کر زخمی ہوگئے جب کہ 30 سے زائد جھگیاں اور اس میں رکھا بھاری مالیت کا سامان ، متعدد موٹرسائیکلیں چنگچی اور سائیکلیں آگ کی لپیٹ میں آکر مکمل طور پر جل گئیں ۔
ترجمان فائربریگیڈ کے مطابق آگ لگنے کی اطلاع جمعرات کی شب 12 بج کر 19 منٹ پر موصول ہوئی تھی جس کے بعد ابتدائی طور پر3 فائرٹینڈر موقع پر روانہ کیے گئے تھے تاہم آگ کی شدت کو دیکھتے ہوئے مزید 3 فائرٹینڈر موقع پر بھیج دیے گئے جب کہ واٹر کارپوریشن کو بھی اطلاع کر دی گئی تھی تاکہ پانی کی فراہمی جاری رکھی جائے ۔
انہوں نے بتایا کہ تنگ گلیوں اور سرکاری ایمبولینسوں کی گلیوں میں غلط پارکنگ کے باعث فائربریگیڈ کی گاڑیوں کو متاثرہ مقام تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، فائرفائٹرز نے 3 گھنٹے سے زائد کی جدوجہد کے بعد آگ پر قابو پالیا تاہم مزید 2 گھنٹے تک کولنگ کا عمل جاری رکھا گیا ۔ آتش زدگی کے نیتجے میں 30 سالہ سری دیوی اس کا شوہر 35 سالہ سکندر اعظم ولد منشی ، 45 سالہ ریشم زوجہ لال داس اور 25 سالہ راجا ولدیت نارن جھلس کر زخمی ہوگئے ، جنہییں سول اسپتال کے برنس وارڈ منتقل کیا گیا ۔ زخمی ہونے والے راجا کی حالت تشویشناک ہے جب کہ دیگر زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے ۔
متاثرین کا کہنا تھا کہ ان میں سے بیشتر کا تعلق سکھر ، گھوٹکی ، ڈھرکی اور اس کے اطراف کے علاقوں سے ہے۔ تقریباً 15 سال قبل جب سندھ میں سیلاب نے تباہی مچادی تھی تو وہ لوگ سندھ حکومت کی مدد سے کراچی آگئے تھے اور اس علاقے میں حکومت کی جانب سے لگائے گئے کیمپوں میں رہائش اختیار کی تھی۔ بعدازاں انہوں نے کراچی میں مختلف کام شروع کر دیے تھے ۔بیشتر لوگوں نے گلاس برنی ، پرانے کپڑوں ، غبارے ، سبزی اور دیگر کام کیے اور اسی علاقے میں جھگیاں ڈال کر مستقل رہائش اختیار کر لی ۔
جمعرات کی شب تقریباً 12 بجے کے قریب اچانک آبادی میں شور شرابہ ہوا اور بھگدڑ مچ گئی ہر طرف آگ ہی آگ دکھائی دے رہی تھی۔ لوگ اپنے بچوں کو اٹھا کر جان بچانے کے لیےبھاگ رہے تھے جب کہ اطراف کی رہائشی آبادی کے لوگ مدد کے لیے پہنچے۔ اسی اثنا میں فائربریگیڈ ، پولیس ، رینجرز اور ریسکیو کی ایمبولینسیں بھی بڑی تعداد میں پہنچ گئیں۔نائب ناظم کراچی عبد اللہ مراد بلوچ اور ان کی ٹیم بھی موقع پر پہنچ گئی اور امدادی کاموں میں حصہ لیا ۔
متاثرین نے بتایا کہ آگ بجھنے کے بعد جب وہ واپس گئے تو وہاں خالی میدان تھا، جھگیاں اور سارا سامان جل کر خاکستر ہو چکا تھا۔ نصیر نامی شخص نے بتایا کہ اس کے گھر میں 2 لاکھ 30 ہزار روپے اور بیٹی کے جہیز کا سامان رکھا تھا جو سب جل گیا۔ علاوہ ازیں تقریباً 30 جھگیوں میں درجنوں موٹرسائیکلیں ، چنگچی ، سائیکلیں اور رکشے بھی مکمل طور پر جل گئے۔
متاثرین نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ سخت سردی موسم میں ہماری مدد کی جائے۔ واضح رہے کہ اس بستی میں گزشتہ برس بھی آگ لگی تھی، جس میں 50 سے زائد جھگیاں سامان سمیت جل گئی تھیں۔
تین ہٹی پل کے نیچے جھگیوں میں آگ لگنے کے واقعے کے بعد گزشتہ شب ملیر سٹی کے علاقے بکرا پیڑی انور بلوچ ہوٹل کے عقب میں جمعرات کو رات گئے جھگیوں میں لگنے والی آگ پر فائربریگیڈ کے عملے نے 6 فائرٹینڈر کی مدد سے3 گھنٹے کی جدوجہد کے بعد قابو پالیا ۔واٹر کارپوریشن نے بھی واٹرٹینکر کے ذریعے پانی کی فراہمی آگ بجھنے تک جاری رکھی ۔
آتش زدگی کے نتیجے میں خواتین سمیت 4 افراد جھلس کر زخمی ہوگئے جب کہ 30 سے زائد جھگیاں اور اس میں رکھا بھاری مالیت کا سامان ، متعدد موٹرسائیکلیں چنگچی اور سائیکلیں آگ کی لپیٹ میں آکر مکمل طور پر جل گئیں ۔
ترجمان فائربریگیڈ کے مطابق آگ لگنے کی اطلاع جمعرات کی شب 12 بج کر 19 منٹ پر موصول ہوئی تھی جس کے بعد ابتدائی طور پر3 فائرٹینڈر موقع پر روانہ کیے گئے تھے تاہم آگ کی شدت کو دیکھتے ہوئے مزید 3 فائرٹینڈر موقع پر بھیج دیے گئے جب کہ واٹر کارپوریشن کو بھی اطلاع کر دی گئی تھی تاکہ پانی کی فراہمی جاری رکھی جائے ۔
انہوں نے بتایا کہ تنگ گلیوں اور سرکاری ایمبولینسوں کی گلیوں میں غلط پارکنگ کے باعث فائربریگیڈ کی گاڑیوں کو متاثرہ مقام تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، فائرفائٹرز نے 3 گھنٹے سے زائد کی جدوجہد کے بعد آگ پر قابو پالیا تاہم مزید 2 گھنٹے تک کولنگ کا عمل جاری رکھا گیا ۔ آتش زدگی کے نیتجے میں 30 سالہ سری دیوی اس کا شوہر 35 سالہ سکندر اعظم ولد منشی ، 45 سالہ ریشم زوجہ لال داس اور 25 سالہ راجا ولدیت نارن جھلس کر زخمی ہوگئے ، جنہییں سول اسپتال کے برنس وارڈ منتقل کیا گیا ۔ زخمی ہونے والے راجا کی حالت تشویشناک ہے جب کہ دیگر زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے ۔
متاثرین کا کہنا تھا کہ ان میں سے بیشتر کا تعلق سکھر ، گھوٹکی ، ڈھرکی اور اس کے اطراف کے علاقوں سے ہے۔ تقریباً 15 سال قبل جب سندھ میں سیلاب نے تباہی مچادی تھی تو وہ لوگ سندھ حکومت کی مدد سے کراچی آگئے تھے اور اس علاقے میں حکومت کی جانب سے لگائے گئے کیمپوں میں رہائش اختیار کی تھی۔ بعدازاں انہوں نے کراچی میں مختلف کام شروع کر دیے تھے ۔بیشتر لوگوں نے گلاس برنی ، پرانے کپڑوں ، غبارے ، سبزی اور دیگر کام کیے اور اسی علاقے میں جھگیاں ڈال کر مستقل رہائش اختیار کر لی ۔
جمعرات کی شب تقریباً 12 بجے کے قریب اچانک آبادی میں شور شرابہ ہوا اور بھگدڑ مچ گئی ہر طرف آگ ہی آگ دکھائی دے رہی تھی۔ لوگ اپنے بچوں کو اٹھا کر جان بچانے کے لیےبھاگ رہے تھے جب کہ اطراف کی رہائشی آبادی کے لوگ مدد کے لیے پہنچے۔ اسی اثنا میں فائربریگیڈ ، پولیس ، رینجرز اور ریسکیو کی ایمبولینسیں بھی بڑی تعداد میں پہنچ گئیں۔نائب ناظم کراچی عبد اللہ مراد بلوچ اور ان کی ٹیم بھی موقع پر پہنچ گئی اور امدادی کاموں میں حصہ لیا ۔
متاثرین نے بتایا کہ آگ بجھنے کے بعد جب وہ واپس گئے تو وہاں خالی میدان تھا، جھگیاں اور سارا سامان جل کر خاکستر ہو چکا تھا۔ نصیر نامی شخص نے بتایا کہ اس کے گھر میں 2 لاکھ 30 ہزار روپے اور بیٹی کے جہیز کا سامان رکھا تھا جو سب جل گیا۔ علاوہ ازیں تقریباً 30 جھگیوں میں درجنوں موٹرسائیکلیں ، چنگچی ، سائیکلیں اور رکشے بھی مکمل طور پر جل گئے۔
متاثرین نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ سخت سردی موسم میں ہماری مدد کی جائے۔ واضح رہے کہ اس بستی میں گزشتہ برس بھی آگ لگی تھی، جس میں 50 سے زائد جھگیاں سامان سمیت جل گئی تھیں۔