خیالی پلاؤ ایک اہم سوال ۔۔۔ اگلا وزیراعظم کون ہوگا

چائے فروخت کرنیوالے کا بیٹا اور جھنوپریوں میں رہنے والے بھارت اور امریکہ میں وزیراعظم بن سکتے ہیں مگر پاکستان میں نہیں


اس ملک میں وزیراعظم تو صرف وہ بن سکتاہے جو کڑوروں کے گھڑی پہنتا ہوں اور جس کی رہائش ہزاروں ایکڑ پر مشتمل ہو۔ جس کے کاروباراور پیسہ باہر کے ملکوں میں ہوں۔ جس کی علاقے میں دہشت ہو اور لوگ اُن کے نا م سے گھبرا جائیں۔

پاکستان میں جس قدر اہمیت حقیقت سے عاری باتوں کی ہوتی ہے اُتنی شاید کسی کی نہیں ہوتی۔ جس کی مثال یہ چند غیر اہم موضوعات ہیں جن کے بارے میں ہمارے یہاں لوگ جاننے کے لیے بڑے بے تاب اور تجسس کا شکار ہوتے ہیں جیسے مثال کے طور پر آ ج حکومت کے خلاف کوئی احتجاج ہوا ہے یا نہیں؟ اور اگر ہوا ہے تو اس میں کتنے لوگ شریک تھے ؟ اچھا تو پھر ان احتجاجوں سے حکومت پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا یہ حکومت ختم ہو جا ئے گی؟ اور اگرحکومت ختم ہوجائے گی توکیا پھر مڈٹرم انتخابات ہونگے یا مارشل لاء لگ جائے گا؟ اور اگر مڈٹرم انتخابات ہونگے تو سب سے اہم ترین سوال یہ ہوگا کہ اگلا وزیر اعظم کون ہو گا؟

یہ وہ سوالات ہیں جو ہمارے ملک کے اکثر و بیشتر اخبارات اورسوشل میڈیا کی شہ سرخیاں کی ذینت ہوا کرتے ہیں جبکہ یہ ٹی وی چینلز میں بریکنگ نیوز کے طور پر چلتے بھی ہیں اور گلی محلوں میں ہر چھوٹے سے بڑے کی زبان سے سنے بھی جا سکتے ہیں۔

اب ظاہر ہے میں بھی اِسی معاشرے کا حصہ ہوں تو مجھے بھی خیال آیا ہے کیا یہ حکومت اپنی مدت پوری کرپائے گی؟ اور ہاں تو یہ تو اچھی بات ہے لیکن اگر کسی بھی وجہ سے جمہورت کسی سازش کا حصہ بن گئی تو پھر کیا ہوگا؟ اور وہی سب سے اہم سوال کہ اگلا وزیراعظم کون ہوگا ۔بس اِسی پریشانی کی حالت میں باہر نکلا اور ایک چائے والے کھوکھے پر گیا اور اس چائے والے سے پوچھا کہ چاچا پاکستان کا اگلا وزیراعظم کون ہو گا ؟اس نے میری طرف دیکھا او ر پھر اپنے چھوٹو کی طرف اشارہ کیا۔ بس یہ دیکھتے ہی میں نے اُس سے کہا کہ تمہارے پاس دو وقت کی روٹی نہیں اور چلے بیٹے کو وزیراعظم بنانے،کہیں تم بے وقوف تو نہیں ہو؟ ۔ یہ بات سُنتے ہی اُس نے میری طرف غصے سے دیکھا اور بولا اوئے کاکے اگر دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست بھارت میں ایک چائے فروش کا بیٹا وزیراعظم بن سکتا ہے تو میرا ببلو کیوں نہیں ۔

بس یہ سُنتے ہی میں آگے کی طرف نکل گیا تو وہاں پر مجھے ایک بزرگ شخص ملے تو موقع کو غنیمت جانتے ہوئے میں نے یہی سوال اُن سے پوچھا ،تو اُنہوں نے کہا کہ ملک میں اگلا وزیراعظم نورے ترکھان کا بیٹا مودھا یا پھر کریم ماچھی کا پوتا دینو کیونکہ یہ دونوں ہی بہت عقلمند اور محنتی ہیں ۔ میں نے اُن بزرگ کی ہتھیلی پر ہاتھ رکھ کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اُن کی طیبعت ٹھیک تو ہے نا۔۔۔ میری اِس حرکت کو دیکھ کر بزرگ نے کہا کہ اگر ابراہم لنکلن اور بارک اوباما جیسے غریب اور جھونپریوں میں رہنے والے دنیا کی سپر پاور امریکہ کے سربراہ بن سکتے ہیں تو پھر یہاں کیوں نہیں؟

بزرگ کی اِس بات نے مجھے مجبور کردیا کہ یہ سوال میں اور لوگوں سے پوچھوں کیونکہ بجا طور پر بھارت میں ایک چائے فروش کا بیٹا اور امریکہ جیسے سُپر پاور میں ابراہم لنکن اور بارک اوباما جیسے غریب افراد وزیراعظم بن سکتے ہیں مگر اُن کو یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ جناب یہ پاکستان ہے پاکستان ۔۔۔۔ بھارت اور امریکہ نہیں ۔۔۔۔ خیر اسی بے چینی میں یہی بات ایک بس کے ڈرائیور سے پوچھ لی۔ اس نے تو کمال ہی کردیا اورخود کو ہی پاکستان کا اگلا وزیراعظم قرار دے دیا اور جب میں وجہ معلوم کی تو اُس نے مجھے وینز ویلا کے موجودہ صدر نکو لس مدورو کا حوالہ دیا کیونکہ جو خود بھی ایک معمولی بس ڈرائیور تھے۔ اِن جوابات کے بعد میرے ذہن میں خیال آیا کہ یہ تمام افراد تو کم تعلیم یافتہ ہیں شاید اِسی لیے مجھے اِس قسم کے نامعقول جوابات دے رہے ہیں لہذا میں نے طے کرلیا اب یہ سوال معاشرے کے کسی پڑھے لکھے فرد سے پوچھوں گا تاکہ کچھ مدبر جواب کا حصول ممکن ہوسکے ۔۔۔ بس ابھی میں یہ بات سوچ ہی رہا تھا اور اگلے ہی لمحے میری ملاقات اپنے ایک استاد سے ہوگئی ۔ میں نے خیروعافیت جاننے کے بعد یقدم وہی سوال اُن سے بھی کردیا جو باقی تمام لوگوں سے کیا تھا اور بہتر جواب کی اُمید کے ساتھ اُن کی طرف دیکھ رہا تھا مگر میں تو حیران ہی ہوگیا جب اُنہوں نے اِس اعلی عہدے کے لیے اپنے ایک غریب اور ذہین شاگرد کا نام آگے کیا کیونکہ وہ اپنے تعلیمی اخراجات پورا کرنے کے لیے خودمحنت مزدوری کرتا ہے اوراُنہوں نے اِس بار وجہ مجھے ترکی کے موجودہ وزیراعظم رجب طیب اردگان دی گئی جو بچپن میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ چیزیں بیچ کر گزارا کیاکرتے تھے۔

اس ساری صورتحال کے بعد میرے ذہن میں ایک عجیب سی کشمکش تھی او ر میں اسی غور و فکر میں مبتلا ہو گیا اور سوچاکہ یہ سارے لوگ باتیں تو ٹھیک کر رہیں مگر جن ملکوں کی مثالیں یہ دے رہیں ہیں ان میں اور پاکستان میں بڑا فرق ہے ۔ ان ملکوں میں جمہوریت حقیقی معنوں میں متعارف ہے اور وہاں پر جمہوریت بڑی مضبوط ہے ۔ وہاں پر ذات اور برداری اور خاندان سے ہٹ کر سوچتے ہیں مگر ہمارے اس مملکت خداد میں جمہوریت تو گھومتی ہی صرف چند لوگوں اور ان کے خاندان کے درمیان ہے ۔ اس ملک میں لوگ پیدائشی وزیراعظم پیدا ہوتے ہیں۔اس ملک کی سیاست میں اصل اہمیت روپے اور پیسے کی نہ کہ ایمانداری اور اچھے کردار کی ۔

اس ملک میں وزیراعظم تو وہ بن سکتاہے جو کڑور کے گھڑی پہنتا ہوں اور جس کی رہائش ہزاروں ایکڑ پر مشتمل ہو۔ جس کے کاروبا ر اور پیسہ باہر کے ملکوں میں ہوں۔ جس کی علاقے میں دہشت ہو اور لوگ اُن کے نام سے گھبرا جائیں۔ اِن ساری خوبیوں کے بغیر اِس وطنِ عزیز میں وزیراعظم بننا محظ ایک خواب ہی ہے اور خواب دیکھنے پر دنیا کے کسی حصے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی پھر چاہے وہ دن میں آئے یا رات میں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں