خارجہ پالیسی کی ترجیحات
خارجہ پالیسی کو ملک کے ایک ترقی پسند، معاشی طور پر ترقی یافتہ ریاست کے وژن کے طور پر رہنمائی کرنی چاہیے
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے وزارت خارجہ میں تین روزہ پاکستانی سفیروں کی کانفرنس کے پہلے دن خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مقصد پوری دنیا میں امن اور باہمی مفاد پر مبنی تعلقات قائم کرنا ہے، خارجہ پالیسی کو ملک کے ایک ترقی پسند، معاشی طور پر ترقی یافتہ ریاست کے وژن کے طور پر رہنمائی کرنی چاہیے۔
انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان جموں وکشمیر تنازع کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ہمیشہ حمایت کرتا رہے گا اور فلسطینی کازکی حمایت جاری رکھے گا۔
بلاشبہ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے صائب خیالات کا اظہارکیا ہے، درحقیقت پاکستانی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی کا مقصد اپنے جغرافیائی محل وقوع کو معاشی ترقی کے مواقع میں تبدیل کرنا ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک کی حیثیت سے دنیا کے لیے قابل قبول ہو،کیونکہ پاکستان نے ماضی میں بہت نقصان اٹھایا ہے، لہٰذا بحیثیت ریاست پاکستان فیصلہ کیا گیا ہے کہ اب وہ عالمی سیاست میں کسی بلاک کا حصہ نہیں بنے گا۔ پاکستان کو بیرونی محاذ پر بھی لاتعداد چیلنجزکا سامنا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی علاقائی، جغرافیائی سیاست کے براہِ راست اثرات ہماری قومی سلامتی پر پڑ رہے ہیں۔
مغربی سرحد پر بڑھتے ہوئے دباؤ نے ہماری قومی سلامتی سے متعلق خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ اسلام آباد اور کابل کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات بھی کچھ اچھا خاکہ پیش نہیں کر رہے ہیں۔
غیر قانونی طور پر مقیم افغان تارکینِ وطن کے انخلا اور پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان سرزمین استعمال ہونے کے الزامات کے باعث اسلام آباد اورکابل کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ تجزیہ کارکہتے ہیں کہ اگر طالبان پاکستان کے مطالبات نہیں سنتے اور بڑے حملے جاری رہتے ہیں تو یہ صورتِ حال آیندہ آنے والے ریاستی معاملات کو متاثر کرے گی۔
یہ درست ہے کہ خلیجی ممالک پاکستانی تارکینِ وطن کو روزگار فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ رہے ہیں، ادھر جو چہرہ امریکا کا اب سامنے آیا ہے اور سب دیکھ رہے ہیں، وہ بہت مختلف ہے۔
امریکا کا مسئلہ صرف پاکستان ہی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے ساتھ ہے۔ جس طرح سے امریکا اب اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے وہ پہلے سے بہت مختلف ہے۔ پہلے وہ سپر پاور ہونے کے ناتے دنیا کے ایشوز کو سنبھالتا اور انھیں نمٹاتا تھا، لیکن اب وہ خود ایشوز بنا رہا ہے اور پہلے سے موجود مسائل کو گمبھیر بنا رہا ہے یا ان میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
پاکستان کے لیے فائدہ اس میں ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ ایک حد تک تعلقات کو باہمی احترام کے تحت برقرار رکھے،کیونکہ یہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہو گا کہ ہمارے تعلقات امریکا کے ساتھ خراب ہوں۔
آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک اس وقت تک اقتصادی طور پر مستحکم نہیں ہوسکتا جب تک وہاں سیاسی استحکام نہ ہو۔ چناں چہ ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز خِطے اور داخلی صورتحال کو اپنی سیاست کا محور بناتے ہوئے دور اندیشی پر مبنی فہم و فراست سے کام لیں۔ ہمارا بہت سا قیمتی وقت ضایع ہوچکا ہے اور ہو رہا ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خارجہ پالیسی ہمیشہ مفادات کے تابع ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں پاکستان کو بھی کوئی اِستثناء حاصل نہیں ہے۔
افغانستان کی غیر یقینی صورتحال، ہندوستان کا پاکستان کی طرف متعصبانہ اور مسلسل ہٹ دھرمی کا رویہ، یوکرین کی جنگ کے نتیجے میں جنم لینے والی ہلچل اور مشرق اور مغرب کے مابین بڑھتی ہوئی کشمکش اور سب سے بڑھ کر امریکا اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی مسابقت سے عالمی سیاست میں ایک نئی سرد جنگ کے منڈلاتے خطرات کے تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے نیا سال مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
اِس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بنیادی طور پر جن اہم چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں چین اور امریکا کی باہمی محاذ آرائی کے دوران چین اور اَمریکا کے ساتھ متوازن تعلقات کا قیام، افغانستان کی غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے، ہندوستان کے ساتھ مخالفانہ تعلقات کو سنبھالنے، اسٹرٹیجک اتحادی سعودی عرب اور پڑوسی ایران کے ساتھ متوازن تعلقات کا قیام جب کہ مشرق اور مغرب کے مابین بڑھتی ہوئی کشمکش سے بچاؤ شامل ہیں مگر اَفغانستان میں وقوع پذیر ہونے والے کچھ تازہ واقعات کی بدولت یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو آنے والے دنوں میں مغربی سرحد سے ملحقہ ہمسایہ ملک افغانستان میں موجود داعش اور ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد عناصر سے ٹف ٹائم مل سکتا ہے جب کہ دہشت گرد تنظیمیں افغانستان اور پاکستان جیسے برادر ملکوں میں غلط فہمیاں پیدا کرتے ہوئے باہمی تعلقات میں کشیدگی لاسکتی ہیں۔
افغانستان سے امریکی افواج کے اِنخلا کے بعد افغانستان میں وسیع البنیاد اور پاکستان دوست حکومت کی موجودگی میں افغانستان کے ساتھ دیرپا اور خوشگوار تعلقات کا قیام ایک اہم چیلنج ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین پائیدار تعلقات اسی صورت میں استوار ہوسکتے ہیں جب دونوں ملکوں کے عوام بھی ایک دوسرے کے بارے میں مثبت تاثرات رکھیں۔
پاکستان کی مغربی سرحد پر لگائی گئی باڑ کو اکھاڑنے اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے حالیہ واقعات spoilers کے طور پرکردار ادا کر رہے ہیں جن سے کامیابی سے نمٹنا پاکستان اور افغانستان دونوں کے مفاد کے لیے بہتر ہے۔
امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات کا قیام شروع دِن سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو رہا ہے اور اب بھی پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے لیکن اَمریکا کی چین کے ساتھ جاری تصادم کی پالیسی سے اِسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین تعلقات لامحالہ متاثر ہوں گے، اگرچہ پاکستان اِن دو بڑی طاقتوں کی عداوت میں پھنسنے سے بچنا چاہتا ہے، ماضی میں امریکا اور سابقہ سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کا حصہ بن کر پاکستان نے ناقابلِ تلافی نقصان اٹھایا ہے۔
پاکستان کے چین کے ساتھ اِنتہائی گہرے تعلقات ہیں جن میں وقت گزرنے کے ساتھ پختگی آئی ہے۔ چین پاکستان اِقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے منصوبے کے آغاز کے بعد چین اور پاکستان کے باہمی اسٹرٹیجک تعلقات میں ایک ٹھوس اِقتصادی جہت بھی شامل ہوگئی ہے، جس کے نتیجے میں دیرینہ باہمی تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں، تاہم اِن تعلقات کو تروتازہ رکھنے کے لیے مسلسل رابطوں اور مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی قسم کے اَن دیکھے نقصان سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔
سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی اہلکاروں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بھی فول پروف انتظامات کرنے اور چینی خدشات کو دورکرنے کی ضرورت ہے۔ سی پیک عہدِ حاضر کے سب سے بڑے اقتصادی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ اِنی شی ایٹوو (Belt and Road Initiative) کا اہم جزو ہے جس کی بروقت تکمیل نہ صرف پاکستان کو اقتصادی اور تزویراتی طور پر مضبوط بنائے گی بلکہ چین کے شراکت داری والی ترقی کے نعرہ کا عملی نمونہ ہوگی۔
تاہم، اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اور چین کے مابین اہم امور پر ہمہ وقت ادارہ جاتی مشاورت جاری رہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنا بھی رواں سال کا ایک مشکل چیلنج ہوگا کیونکہ مودی حکومت مقبوضہ کشمیر سمیت ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے متعلق جارحانہ اور متعصبانہ پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
کشمیریوں اور پاکستان کے احتجاج کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیریوں کو آباد کرنے کی پالیسی کو آگے بڑھایا جارہا ہے تاکہ وہاں پر کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے، جب کہ دونوں پڑوسیوں کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی بحالی کے دوبارہ عزم کے علاوہ کسی محاذ پرکوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اِن حالات میں ہندوستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا قیام بہرحال ایک مشکل کام ہے۔ عالمی سیاست میں جاری موجودہ سیاسی کشمکش اور اثرورسوخ کی دوڑ میں پاکستان کے لیے غیرجانبداری برقرار رکھتے ہوئے ایک متوازن اپروچ اِختیار کرنا ایک اہم اور مشکل چیلنج ہے جس سے عملیت پسندی کے اصولوں اور قومی مفاد کے مطابق نمٹا جائے اور کسی بھی قسم کی مثالیت پرستی کے بجائے حقیقت پسندی پر مبنی پالیسی اختیار کرنا چاہیے کیونکہ حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان کسی سیاسی یا اخلاقی مہم جوئی کا شکار ہوئے بغیر اپنے قومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
تناؤکا اعصاب شکن عفریت چوبیس کروڑسے زاید ہم وطنوں کو حصار میں جکڑے ہوئے ہے۔ عجیب کھینچا تانی کا سلسلہ جاری ہے۔
ایک جانب ملکی معیشت کی بہتری کے دعوے ہیں اور دوسری جانب عوام بدستور شدید مہنگائی اور بے روزگاری کی اندھی گلی میں دیواروں سے ٹکریں مار رہے ہیں، وہ ایسا پاکستان بننے کے شدت سے منتظر ہیں جس میں عوام کو آسودگی ملے، مہنگائی اور بے روزگاری ختم ہو، سیاست میں مستقل ٹھہراؤ کی کیفیت پیدا ہو، ملک سیاسی انتشارکی دلدل سے نکلے اور عوام اطمینان کا سانس لیں۔
معیشت کے استحکام کے لیے اس وقت وسیع البنیاد مصالحت، خیر سگالی، دور اندیشی، مفاہمت،گلوبل وژن، داخلی استقامت اور سمت سازی کے ساتھ انقلابی، غیر روایتی اور دلیرانہ فیصلہ سازی کی ضرورت ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان جموں وکشمیر تنازع کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ہمیشہ حمایت کرتا رہے گا اور فلسطینی کازکی حمایت جاری رکھے گا۔
بلاشبہ وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے صائب خیالات کا اظہارکیا ہے، درحقیقت پاکستانی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلی کا مقصد اپنے جغرافیائی محل وقوع کو معاشی ترقی کے مواقع میں تبدیل کرنا ہے۔
اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان ایک امن پسند ملک کی حیثیت سے دنیا کے لیے قابل قبول ہو،کیونکہ پاکستان نے ماضی میں بہت نقصان اٹھایا ہے، لہٰذا بحیثیت ریاست پاکستان فیصلہ کیا گیا ہے کہ اب وہ عالمی سیاست میں کسی بلاک کا حصہ نہیں بنے گا۔ پاکستان کو بیرونی محاذ پر بھی لاتعداد چیلنجزکا سامنا ہے۔ تیزی سے تبدیل ہوتی علاقائی، جغرافیائی سیاست کے براہِ راست اثرات ہماری قومی سلامتی پر پڑ رہے ہیں۔
مغربی سرحد پر بڑھتے ہوئے دباؤ نے ہماری قومی سلامتی سے متعلق خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ اسلام آباد اور کابل کے درمیان بگڑتے ہوئے تعلقات بھی کچھ اچھا خاکہ پیش نہیں کر رہے ہیں۔
غیر قانونی طور پر مقیم افغان تارکینِ وطن کے انخلا اور پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں افغان سرزمین استعمال ہونے کے الزامات کے باعث اسلام آباد اورکابل کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ تجزیہ کارکہتے ہیں کہ اگر طالبان پاکستان کے مطالبات نہیں سنتے اور بڑے حملے جاری رہتے ہیں تو یہ صورتِ حال آیندہ آنے والے ریاستی معاملات کو متاثر کرے گی۔
یہ درست ہے کہ خلیجی ممالک پاکستانی تارکینِ وطن کو روزگار فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ رہے ہیں، ادھر جو چہرہ امریکا کا اب سامنے آیا ہے اور سب دیکھ رہے ہیں، وہ بہت مختلف ہے۔
امریکا کا مسئلہ صرف پاکستان ہی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کے ساتھ ہے۔ جس طرح سے امریکا اب اپنے آپ کو دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے وہ پہلے سے بہت مختلف ہے۔ پہلے وہ سپر پاور ہونے کے ناتے دنیا کے ایشوز کو سنبھالتا اور انھیں نمٹاتا تھا، لیکن اب وہ خود ایشوز بنا رہا ہے اور پہلے سے موجود مسائل کو گمبھیر بنا رہا ہے یا ان میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
پاکستان کے لیے فائدہ اس میں ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ ایک حد تک تعلقات کو باہمی احترام کے تحت برقرار رکھے،کیونکہ یہ ہمارے حق میں بہتر نہیں ہو گا کہ ہمارے تعلقات امریکا کے ساتھ خراب ہوں۔
آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک اس وقت تک اقتصادی طور پر مستحکم نہیں ہوسکتا جب تک وہاں سیاسی استحکام نہ ہو۔ چناں چہ ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ سیاسی اسٹیک ہولڈرز خِطے اور داخلی صورتحال کو اپنی سیاست کا محور بناتے ہوئے دور اندیشی پر مبنی فہم و فراست سے کام لیں۔ ہمارا بہت سا قیمتی وقت ضایع ہوچکا ہے اور ہو رہا ہے۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خارجہ پالیسی ہمیشہ مفادات کے تابع ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں پاکستان کو بھی کوئی اِستثناء حاصل نہیں ہے۔
افغانستان کی غیر یقینی صورتحال، ہندوستان کا پاکستان کی طرف متعصبانہ اور مسلسل ہٹ دھرمی کا رویہ، یوکرین کی جنگ کے نتیجے میں جنم لینے والی ہلچل اور مشرق اور مغرب کے مابین بڑھتی ہوئی کشمکش اور سب سے بڑھ کر امریکا اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی مسابقت سے عالمی سیاست میں ایک نئی سرد جنگ کے منڈلاتے خطرات کے تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے نیا سال مشکل دکھائی دے رہا ہے۔
اِس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کو بنیادی طور پر جن اہم چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں چین اور امریکا کی باہمی محاذ آرائی کے دوران چین اور اَمریکا کے ساتھ متوازن تعلقات کا قیام، افغانستان کی غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے، ہندوستان کے ساتھ مخالفانہ تعلقات کو سنبھالنے، اسٹرٹیجک اتحادی سعودی عرب اور پڑوسی ایران کے ساتھ متوازن تعلقات کا قیام جب کہ مشرق اور مغرب کے مابین بڑھتی ہوئی کشمکش سے بچاؤ شامل ہیں مگر اَفغانستان میں وقوع پذیر ہونے والے کچھ تازہ واقعات کی بدولت یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کو آنے والے دنوں میں مغربی سرحد سے ملحقہ ہمسایہ ملک افغانستان میں موجود داعش اور ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد عناصر سے ٹف ٹائم مل سکتا ہے جب کہ دہشت گرد تنظیمیں افغانستان اور پاکستان جیسے برادر ملکوں میں غلط فہمیاں پیدا کرتے ہوئے باہمی تعلقات میں کشیدگی لاسکتی ہیں۔
افغانستان سے امریکی افواج کے اِنخلا کے بعد افغانستان میں وسیع البنیاد اور پاکستان دوست حکومت کی موجودگی میں افغانستان کے ساتھ دیرپا اور خوشگوار تعلقات کا قیام ایک اہم چیلنج ہے کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین پائیدار تعلقات اسی صورت میں استوار ہوسکتے ہیں جب دونوں ملکوں کے عوام بھی ایک دوسرے کے بارے میں مثبت تاثرات رکھیں۔
پاکستان کی مغربی سرحد پر لگائی گئی باڑ کو اکھاڑنے اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے حالیہ واقعات spoilers کے طور پرکردار ادا کر رہے ہیں جن سے کامیابی سے نمٹنا پاکستان اور افغانستان دونوں کے مفاد کے لیے بہتر ہے۔
امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات کا قیام شروع دِن سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم جزو رہا ہے اور اب بھی پاکستان امریکا کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتا ہے لیکن اَمریکا کی چین کے ساتھ جاری تصادم کی پالیسی سے اِسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین تعلقات لامحالہ متاثر ہوں گے، اگرچہ پاکستان اِن دو بڑی طاقتوں کی عداوت میں پھنسنے سے بچنا چاہتا ہے، ماضی میں امریکا اور سابقہ سوویت یونین کے مابین سرد جنگ کا حصہ بن کر پاکستان نے ناقابلِ تلافی نقصان اٹھایا ہے۔
پاکستان کے چین کے ساتھ اِنتہائی گہرے تعلقات ہیں جن میں وقت گزرنے کے ساتھ پختگی آئی ہے۔ چین پاکستان اِقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے منصوبے کے آغاز کے بعد چین اور پاکستان کے باہمی اسٹرٹیجک تعلقات میں ایک ٹھوس اِقتصادی جہت بھی شامل ہوگئی ہے، جس کے نتیجے میں دیرینہ باہمی تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں، تاہم اِن تعلقات کو تروتازہ رکھنے کے لیے مسلسل رابطوں اور مشاورت کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی قسم کے اَن دیکھے نقصان سے بچاؤ ممکن ہو سکے۔
سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی اہلکاروں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بھی فول پروف انتظامات کرنے اور چینی خدشات کو دورکرنے کی ضرورت ہے۔ سی پیک عہدِ حاضر کے سب سے بڑے اقتصادی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ اِنی شی ایٹوو (Belt and Road Initiative) کا اہم جزو ہے جس کی بروقت تکمیل نہ صرف پاکستان کو اقتصادی اور تزویراتی طور پر مضبوط بنائے گی بلکہ چین کے شراکت داری والی ترقی کے نعرہ کا عملی نمونہ ہوگی۔
تاہم، اہم بات یہ ہے کہ پاکستان اور چین کے مابین اہم امور پر ہمہ وقت ادارہ جاتی مشاورت جاری رہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنا بھی رواں سال کا ایک مشکل چیلنج ہوگا کیونکہ مودی حکومت مقبوضہ کشمیر سمیت ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے متعلق جارحانہ اور متعصبانہ پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
کشمیریوں اور پاکستان کے احتجاج کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیریوں کو آباد کرنے کی پالیسی کو آگے بڑھایا جارہا ہے تاکہ وہاں پر کشمیریوں کو اقلیت میں تبدیل کیا جاسکے، جب کہ دونوں پڑوسیوں کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کی بحالی کے دوبارہ عزم کے علاوہ کسی محاذ پرکوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اِن حالات میں ہندوستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا قیام بہرحال ایک مشکل کام ہے۔ عالمی سیاست میں جاری موجودہ سیاسی کشمکش اور اثرورسوخ کی دوڑ میں پاکستان کے لیے غیرجانبداری برقرار رکھتے ہوئے ایک متوازن اپروچ اِختیار کرنا ایک اہم اور مشکل چیلنج ہے جس سے عملیت پسندی کے اصولوں اور قومی مفاد کے مطابق نمٹا جائے اور کسی بھی قسم کی مثالیت پرستی کے بجائے حقیقت پسندی پر مبنی پالیسی اختیار کرنا چاہیے کیونکہ حقیقت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ پاکستان کسی سیاسی یا اخلاقی مہم جوئی کا شکار ہوئے بغیر اپنے قومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
تناؤکا اعصاب شکن عفریت چوبیس کروڑسے زاید ہم وطنوں کو حصار میں جکڑے ہوئے ہے۔ عجیب کھینچا تانی کا سلسلہ جاری ہے۔
ایک جانب ملکی معیشت کی بہتری کے دعوے ہیں اور دوسری جانب عوام بدستور شدید مہنگائی اور بے روزگاری کی اندھی گلی میں دیواروں سے ٹکریں مار رہے ہیں، وہ ایسا پاکستان بننے کے شدت سے منتظر ہیں جس میں عوام کو آسودگی ملے، مہنگائی اور بے روزگاری ختم ہو، سیاست میں مستقل ٹھہراؤ کی کیفیت پیدا ہو، ملک سیاسی انتشارکی دلدل سے نکلے اور عوام اطمینان کا سانس لیں۔
معیشت کے استحکام کے لیے اس وقت وسیع البنیاد مصالحت، خیر سگالی، دور اندیشی، مفاہمت،گلوبل وژن، داخلی استقامت اور سمت سازی کے ساتھ انقلابی، غیر روایتی اور دلیرانہ فیصلہ سازی کی ضرورت ہے۔