مستقل حکمران کا نظریہ
روزروز کے نئے نئے ڈنگروں، گینگوں اور ٹڈی دلوں نے ہمارے اس کھیت کو ’’کعصف ماکول‘‘ بنا دیا ہے
جناب نوازشریف نے بڑا اچھا بیان دیا ہے ہم تو اس بیان کو پڑھ کر اس وقت تک عش عش کرتے رہے جب تک ''غش'' نہیں کھا گئے اورمنہ سے بے اختیار یہ نہیں نکلا کہ
دیکھنا تقریرکی لذت کہ اس نے جو کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل ہے
بلکہ ہم نے تو جانا کہ یہ ''ہی'' ہمارے دل میں تھا اورہے بلکہ الفاظ کے کچھ ردوبدل کے ساتھ ہم ہمیشہ یہی کہتے بھی رہے ہیں کہ فرماتے ہیں کہ آئے دن وزیراعظم بدلیں تو ملک کیسے چلے گا ؟ بالکل کم سے کم چار سو بیس فی صد درست۔ یہ تو ایک بچہ بلکہ گڈرئیے اورچرواہے کابچہ بھی جانتا ہے کہ اگر ایک کھیت پر روزانہ نئے نئے چرندوں کے ''دل'' چھوے جانے لگیں تو بیچارے کھیت کا تو پاکستان ہوجائے گا اس سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ کھیت کو ایک ہی چرواہے کے حوالے کیاجائے کہ
سپر دم بتو مایہ خویش را
تو دانی حساب کم وبیش را
کھیت ایک ہی شخص کے حوالے ہوتو وہ اس کے پانی کھاد کابھی خیال رکھے، پرانے اور اجنبی جانوروں سے رکھوالی بھی کرے گا اورگھاس بھی اس خیال سے احتیاط کرکے کاٹے گا کہ گھاس جلدی جلدی بڑھ جائے، جڑوں تک نہیں کاٹے گا، چوروں کاخیال بھی رکھے گا اورمینڈوں میں سوراخ ہوں تو ان کو بھی بند کرے گا کہ پانی ضایع ہوکر دوسرے کھیتوں میں نہ جائے۔مرشد نے بھی کہا ہے کہ
فراغت کس قدر رہتی مجھے تشویش مرہم سے
بہم گر صلح کرتے یارہ ہائے دل نمکدان پر
لیکن روزروزکے نئے نئے ڈنگروں، گینگوں اور ٹڈی دلوں نے ہمارے اس کھیت کو ''کعصف ماکول'' بنا دیا ہے ۔ لیکن روزروزاگر نئے نئے ''دل'' ریوڑ ، گلے ، اورغول کسی کھیت میں اگر چرے بغیر صرف گزرنا بھی شروع کردیں تو کھیت میں ککھ بھی نہیں رہے گا۔
بجز پرواز ناز شوق کیا باقی رہا ہوگا
قیامت اک ہوائے تند گورغریباں پر
بلکہ ہم تو صرف ایک مستقل وزیراعظم ہی کے حق میں نہیں کچھ آگے بڑ ھ کر ایک بادشاہ کے حوالے کرنے کے حق میں ہیں ۔ ویسے بھی حالت تقریباً عملاً اورحقیقتاً ایسی ہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ بادشاہوں ، شہزادوں اورملکاؤں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
اس لیے باری باری کا بخاربن کرآتے ہیں چرتے ہیں روندتے ہیں اور اپنے پیچھے صرف گوبر یا کاغذی اخراجات چھوڑ جاتے ہیں ، جانے والے ترے قدموں کے نشاں باقی ہیں ۔
سب جانتے ہیں اوریہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ سبزآنکھوں اورسفید چمڑی والے جاتے جاتے اپنی آنکھوں کاسبز رنگ یہاں کے سبزقدموں کو دے گئے اوراپنی جلد کی سفیدی یہاں کی پندرہ فی صد اشرافیہ کی رگ رگ میں اتارگئے۔
رحمان بابا کے کلام میں ایک بڑا مشہورقلعہ غزل ہے کہ
دمجنون چہ زنکدن شو ، زہ ئے پریخومہ نائب نصیحت ئے راتہ اوکڑو، پہ سورنگہ عجابت ووئیل روزی دے شہ رحمانہ ، زما واڑہ مراتب
ترجمہ۔مجنوں پر جب جانکنی کاعالم طاری ہواتو اس نے مجھے اپنا نائب بنا کر چھوڑا اورمجھے بہت ہی عجیب بضایع کرتے ہوئے کہا کہ اے رحمان ۔ خدا میرے تمام ''مراتب'' تجھے نصیب کرے ۔
یہی کام انگریزوں نے بھی جاتے جاتے کیا انھوں نے اپنے پالے ہوئے لوگوں پر مشتمل اشرافیہ یاسیلکٹڈوں کو جمع کرکے وہ تمام اسرار اور رازورموز ازبر کرائے جس کے ذریعے اقلیت، اکثریت کو لوٹتی ہے اورجب یہ طے ہے اورپچھتر سال سے اس پر عمل ہورہاہے کہ حکمران اشرافیہ ہی باری باری انٹری دے کر آئے گی لوٹے گی اوردوسروں کو موقع دے گی، مطلب یہ کہ چند منتخب لوگ ہی سب کچھ ہیں
ہم کوزہ وہم کوزہ گروں ہم گل کوزہ
تو پھر یہ جمہوریت انتخابات اورہلاگلا کی کیا ضرورت ہے، بڑے آرام سے اشراف کے یہ منتخب اور حکمرانی کے لیے ہمیشہ سیلیکٹ لوگ آپس میں بیٹھ کر اورمنرل واٹر کی بوتلیں سامنے رکھ کر آپس میں طے کر لیں اورشکار کی تقسیم کا ایک اچھا سا فارمولا بنالیں اور روز روز کے انتخابی ڈھونگ، فضول قسم کی جمہوریت کا سلسلہ ہی ختم کرڈالیں اس سے کم ازکم یہ تو ممکن ہوجائے گا کہ شاید ان کا پیٹ بھر جائے اوریہ ایک بار دیکھا ہے اور دوسری بار بلکہ سو بار دیکھنے کی ہوس تو ختم ہوجائے گی، یہ گاؤ آمدورفت کاسلسلہ تو ختم ہوجائے گا ۔
رہے کالانعام تو ان کو توہرحال میں لٹنا ہے چاہے یہ لوٹے یا وہ لوٹے ، کم سے کم یہ روزروز جو ملک میں دنگل ہوتے ہیں وہ تو ختم ہوجائیں گے ۔
یہ کیا کہ کبھی کفن کش کبھی کفن کش کابیٹا مطللب یہ کہ یہ بات چار سو بیس فی صد درست اورپکے وٹے سچ ہے کہ آئے دن وزیراعظم بدلیں تو ملک کیسے چلے گا اوراس کاعلاج یہی ہے کہ مستقل وزیراعظم کاسلسلہ شروع کیا جائے ، اب یہ مستقل وزیراعظم کون ہوگا اورکیسے بنایا جائے گا یہ مسئلہ تھوڑا سا گھمیبر ہے لیکن اتنا بھی گھمبیر نہیں ہے کہ حل نہ ہوسکے۔
ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ان سب کو اصیل مرغوں کی طرح ایک اکھاڑے میں اتار کر ایک دوسرے پر چھوڑ دیا جائے اورآخرمیں جو بچے وہی سکندر ، ایک جاپانی پہلوانوں کاطریقہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کو کندھے مارمارکردائرے سے باہرنکالا جاتا ہے اوردائرے میں جو رہ جائے وہی منتخب ہوجائے ۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ ایسے کسی بھی طریقے پر راضی نہیں ہوں گے کیوں کہ یہ لڑنے کے نہیں لڑوانے کے چیمپئن ہوتے ہیں۔
ایسے میں صرف وہی طریقہ رہ جاتا ہے جو پرانے زمانے کی کہانیوں میں بیان کیا گیا ہے کہ شہر یا ملک والے ایک خاص قسم کا پرندہ پالتے تھے اور جب کوئی بادشاہ مرجاتا تھا تو اس پرندے کو چھوڑ دیتے تھے اورجس کے سر پروہ پرندہ بیٹھ جاتا تھا اسی کو بادشاہ بنادیاجاتا ہے، غالباً وہ پرندہ جانتا ہوگا کہ کونسا سر اندر سے خالی ہے۔
اورہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس وہ سپریم پاوربھی ہے جو ایسے پرندے پال سکتی ہے اورپالتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ اس پرانے پرندے کو ہما کہتے تھے اوراس ماڈرن پرندے کو آئی ایم ایف کہا جاتا ہے ۔
دیکھنا تقریرکی لذت کہ اس نے جو کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل ہے
بلکہ ہم نے تو جانا کہ یہ ''ہی'' ہمارے دل میں تھا اورہے بلکہ الفاظ کے کچھ ردوبدل کے ساتھ ہم ہمیشہ یہی کہتے بھی رہے ہیں کہ فرماتے ہیں کہ آئے دن وزیراعظم بدلیں تو ملک کیسے چلے گا ؟ بالکل کم سے کم چار سو بیس فی صد درست۔ یہ تو ایک بچہ بلکہ گڈرئیے اورچرواہے کابچہ بھی جانتا ہے کہ اگر ایک کھیت پر روزانہ نئے نئے چرندوں کے ''دل'' چھوے جانے لگیں تو بیچارے کھیت کا تو پاکستان ہوجائے گا اس سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ کھیت کو ایک ہی چرواہے کے حوالے کیاجائے کہ
سپر دم بتو مایہ خویش را
تو دانی حساب کم وبیش را
کھیت ایک ہی شخص کے حوالے ہوتو وہ اس کے پانی کھاد کابھی خیال رکھے، پرانے اور اجنبی جانوروں سے رکھوالی بھی کرے گا اورگھاس بھی اس خیال سے احتیاط کرکے کاٹے گا کہ گھاس جلدی جلدی بڑھ جائے، جڑوں تک نہیں کاٹے گا، چوروں کاخیال بھی رکھے گا اورمینڈوں میں سوراخ ہوں تو ان کو بھی بند کرے گا کہ پانی ضایع ہوکر دوسرے کھیتوں میں نہ جائے۔مرشد نے بھی کہا ہے کہ
فراغت کس قدر رہتی مجھے تشویش مرہم سے
بہم گر صلح کرتے یارہ ہائے دل نمکدان پر
لیکن روزروزکے نئے نئے ڈنگروں، گینگوں اور ٹڈی دلوں نے ہمارے اس کھیت کو ''کعصف ماکول'' بنا دیا ہے ۔ لیکن روزروزاگر نئے نئے ''دل'' ریوڑ ، گلے ، اورغول کسی کھیت میں اگر چرے بغیر صرف گزرنا بھی شروع کردیں تو کھیت میں ککھ بھی نہیں رہے گا۔
بجز پرواز ناز شوق کیا باقی رہا ہوگا
قیامت اک ہوائے تند گورغریباں پر
بلکہ ہم تو صرف ایک مستقل وزیراعظم ہی کے حق میں نہیں کچھ آگے بڑ ھ کر ایک بادشاہ کے حوالے کرنے کے حق میں ہیں ۔ ویسے بھی حالت تقریباً عملاً اورحقیقتاً ایسی ہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ بادشاہوں ، شہزادوں اورملکاؤں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
اس لیے باری باری کا بخاربن کرآتے ہیں چرتے ہیں روندتے ہیں اور اپنے پیچھے صرف گوبر یا کاغذی اخراجات چھوڑ جاتے ہیں ، جانے والے ترے قدموں کے نشاں باقی ہیں ۔
سب جانتے ہیں اوریہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ سبزآنکھوں اورسفید چمڑی والے جاتے جاتے اپنی آنکھوں کاسبز رنگ یہاں کے سبزقدموں کو دے گئے اوراپنی جلد کی سفیدی یہاں کی پندرہ فی صد اشرافیہ کی رگ رگ میں اتارگئے۔
رحمان بابا کے کلام میں ایک بڑا مشہورقلعہ غزل ہے کہ
دمجنون چہ زنکدن شو ، زہ ئے پریخومہ نائب نصیحت ئے راتہ اوکڑو، پہ سورنگہ عجابت ووئیل روزی دے شہ رحمانہ ، زما واڑہ مراتب
ترجمہ۔مجنوں پر جب جانکنی کاعالم طاری ہواتو اس نے مجھے اپنا نائب بنا کر چھوڑا اورمجھے بہت ہی عجیب بضایع کرتے ہوئے کہا کہ اے رحمان ۔ خدا میرے تمام ''مراتب'' تجھے نصیب کرے ۔
یہی کام انگریزوں نے بھی جاتے جاتے کیا انھوں نے اپنے پالے ہوئے لوگوں پر مشتمل اشرافیہ یاسیلکٹڈوں کو جمع کرکے وہ تمام اسرار اور رازورموز ازبر کرائے جس کے ذریعے اقلیت، اکثریت کو لوٹتی ہے اورجب یہ طے ہے اورپچھتر سال سے اس پر عمل ہورہاہے کہ حکمران اشرافیہ ہی باری باری انٹری دے کر آئے گی لوٹے گی اوردوسروں کو موقع دے گی، مطلب یہ کہ چند منتخب لوگ ہی سب کچھ ہیں
ہم کوزہ وہم کوزہ گروں ہم گل کوزہ
تو پھر یہ جمہوریت انتخابات اورہلاگلا کی کیا ضرورت ہے، بڑے آرام سے اشراف کے یہ منتخب اور حکمرانی کے لیے ہمیشہ سیلیکٹ لوگ آپس میں بیٹھ کر اورمنرل واٹر کی بوتلیں سامنے رکھ کر آپس میں طے کر لیں اورشکار کی تقسیم کا ایک اچھا سا فارمولا بنالیں اور روز روز کے انتخابی ڈھونگ، فضول قسم کی جمہوریت کا سلسلہ ہی ختم کرڈالیں اس سے کم ازکم یہ تو ممکن ہوجائے گا کہ شاید ان کا پیٹ بھر جائے اوریہ ایک بار دیکھا ہے اور دوسری بار بلکہ سو بار دیکھنے کی ہوس تو ختم ہوجائے گی، یہ گاؤ آمدورفت کاسلسلہ تو ختم ہوجائے گا ۔
رہے کالانعام تو ان کو توہرحال میں لٹنا ہے چاہے یہ لوٹے یا وہ لوٹے ، کم سے کم یہ روزروز جو ملک میں دنگل ہوتے ہیں وہ تو ختم ہوجائیں گے ۔
یہ کیا کہ کبھی کفن کش کبھی کفن کش کابیٹا مطللب یہ کہ یہ بات چار سو بیس فی صد درست اورپکے وٹے سچ ہے کہ آئے دن وزیراعظم بدلیں تو ملک کیسے چلے گا اوراس کاعلاج یہی ہے کہ مستقل وزیراعظم کاسلسلہ شروع کیا جائے ، اب یہ مستقل وزیراعظم کون ہوگا اورکیسے بنایا جائے گا یہ مسئلہ تھوڑا سا گھمیبر ہے لیکن اتنا بھی گھمبیر نہیں ہے کہ حل نہ ہوسکے۔
ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ان سب کو اصیل مرغوں کی طرح ایک اکھاڑے میں اتار کر ایک دوسرے پر چھوڑ دیا جائے اورآخرمیں جو بچے وہی سکندر ، ایک جاپانی پہلوانوں کاطریقہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کو کندھے مارمارکردائرے سے باہرنکالا جاتا ہے اوردائرے میں جو رہ جائے وہی منتخب ہوجائے ۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ یہ لوگ ایسے کسی بھی طریقے پر راضی نہیں ہوں گے کیوں کہ یہ لڑنے کے نہیں لڑوانے کے چیمپئن ہوتے ہیں۔
ایسے میں صرف وہی طریقہ رہ جاتا ہے جو پرانے زمانے کی کہانیوں میں بیان کیا گیا ہے کہ شہر یا ملک والے ایک خاص قسم کا پرندہ پالتے تھے اور جب کوئی بادشاہ مرجاتا تھا تو اس پرندے کو چھوڑ دیتے تھے اورجس کے سر پروہ پرندہ بیٹھ جاتا تھا اسی کو بادشاہ بنادیاجاتا ہے، غالباً وہ پرندہ جانتا ہوگا کہ کونسا سر اندر سے خالی ہے۔
اورہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے پاس وہ سپریم پاوربھی ہے جو ایسے پرندے پال سکتی ہے اورپالتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ اس پرانے پرندے کو ہما کہتے تھے اوراس ماڈرن پرندے کو آئی ایم ایف کہا جاتا ہے ۔