چال دیکھنا ہی کافی ہے
انتخابات جمہوری ممالک میں معمول کا ایک سنگ میل ہے لیکن ہمارے ہاں الیکشن شیڈول بجائے خود مذاق بن کر رہ گیا
کہانی کچھ یوں سنی تھی۔اجنبی مسافر نے سامنے آتے ہوئے شخص سے پوچھا: فلاں گاؤں تک پہنچنے میں کتنی دیر لگے گی؟ مسافر نے کچھ توقف کے بعد جواب دیا : معلوم نہیں۔
یہ سن کر مسافر نے دوبارہ سفر شروع کر دیا۔ چند ہی قدم اٹھائے ہوں گے کہ پیچھے سے آواز آئی: تقریبا ایک گھنٹہ لگ جائے گا۔ مسافر کے قدم وہیں رک گئے، واپس مڑ کر قدرے غصے سے بولا : جب میں نے پوچھا تھا اس وقت جواب کیوں نہیں دیا؟ وہ ہنس کر بولا: اس وقت تک میں نے تمہاری چال نہیں دیکھی تھی۔ اب رک کر تمہاری چال دیکھی تو اندازہ لگا کر بتایا۔
پاکستان کے سیاسی اور معاشی سفر میں یہ اگر کوئی یہ جاننا چاہے کہ پاکستان میں معتبر جمہوریت اور مستحکم معیشت کب تک بن پائے گی؟ جواب کے لیے اس کی موجودہ چال دیکھنا ضروری ہے۔
سفر کتنا طویل اور بے یقینی کی الجھنوں سے اٹا ہوا ہے، اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ملک میں ایک آئین ہے، ملک میں کہنے کی حد تک جمہوری نظام قائم ہے، سیاسی پارٹیاں ہیں، ادارے موجود ہیں، ماضی میں بار بار الیکشن ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر نئے الیکشن کے موقع پر پورے ملک اور نظام کی جان حلق میں اٹک جاتی ہے، آخر کیوں؟ہر سال یوم آزادی کے موقع پر کچھ من چلے یہ میم بڑے زور شور سے طنزیہ شیئر کرتے ہیں، جس میں تقسیم کے وقت چند مفلوک الحال مہاجرین تھکے ماندے سفر پر رواں ہیں اور اس پر کیپشن؛ 75 سال ہو گئے۔
اللہ جانے منزل کب آئے گی؟ یا چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی!گزشتہ 40/ 45 سالوں میں دنیا میں بے تحاشہ سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بہت سے ممالک نے جمہوریت کی طرف سفر اختیار کیا۔ کچھ اس سفر میں کامیاب ٹھہرے ، کچھ ابھی تک دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور کچھ آمریت کے نئے شکنجے میں الجھ کر رہ گئے۔
پاکستان کا سیاسی سفر بھی مد و جزر کا شکار رہا۔ سیاسی پارٹیوں کی آپس میں رقابت اور غیر سول قوتوں کی مبینہ سیاسی مداخلت نے سیاسی منظر کو دھندلائے رکھا جس کے نتیجے میں وقت کے ساتھ ساتھ کرپشن، بد حال گورننس، اقربا پروری اور امن و امان کے مسائل نے سیاسی معاملات کو مشکل سے مشکل تر الجھاؤ کا شکار کیا۔ نتیجتاً آج عوام میں موجودہ نظام اور اپنے مستقبل کے بارے میں بہت حد تک بد دلی اور مایوسی ہے۔
رائے عامہ میں پولرائزیشن نئی حدوں کو چھو رہی ہے۔ سیاسی رقابتوں کا جو عالم 90 کی دہائی میں تھا اس سے کہیں زیادہ شدید اور مختلف انداز میں آج بھی موجود ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا کے ظہور نے خبر اور خواہش ، پروپیگنڈا اور حقیقت کے درمیان فرق کو بہت مدہم کر دیا ہے۔
پاکستان ہی کیا دنیا بھر میں سوشل میڈیا نے سیاسی رائے سازی اور سیاسی رائے کو الٹ پلٹ کرنے میں تہلکہ خیز کردار ادا کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے الیکشن کے بعد امریکا میں اس پر باقاعدہ انکوائری ہوئی کہ روس سوشل میڈیا کے ذریعے امریکی الیکشن پر کس حد تک اثر انداز ہوا؟
یورپ اور دیگر بہت سے ممالک میں بھی سوشل میڈیا کے کردار پر بحث چھڑی۔ نامور سوشل پلیٹ فارمز کو کئی ممالک کی پارلیمنٹ کمیٹیوں میں بیان دینے اور پوزیشن کلیئر کرنے کے لیے طلب کیا گیا۔اس سب کچھ کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ سائبر ورلڈ میں خبر، پروپیگنڈا، فیک،ڈیپ فیک سب کچھ اس قدر رچ بس گئے ہیں کہ اب سیاسی پارٹیوں کا اپنا اپنا سچ ہے، عوام کا اپنا اپنا سچ ہے۔ فکری انتشار اور مغالطے نئی حدوں کو چھو رہے ہیں۔
سوشل میڈیا کے نمایاں پلیٹ فارمز کا سرسری جائزہ لیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان میں سیاسی جنگ جاری ہے، جس کے جو منہ میں آتا ہے کہے چلے جاتا ہے۔ ہزاروں لوگوں کے پاس " اندر" کی خبر ہے۔الیکشن 2024ہی کو لیجیے ،گزشتہ ڈیڑھ سال کی سیاسی زور آزمائی میں مختلف سیاسی پارٹیوں نے اپنی اپنی چالیں چلیں، زور آزمائی کی مہم جوئیوں کا بازار گرم رکھا۔ نتیجے میں جو اتھل پتھل ہوئی وہ ہمارے سامنے ہے۔
لشٹم پشٹم پانچ سال مکمل ہونے کے بعد انتخابات ایک آئینی تقاضہ تھے۔ تاہم اس آئینی تقاضے کو ٹالنے کے لیے لیت و لعل کے جو اطوار اور انداز اپنائے گئے وہ قابل دید تھے۔ آئین میں نگران حکومتوں کی مدت واضح ہونے کے باوجود نگران حکومتیں دوگنا مدت سے بھی زائد قائم و دائم ہیں، اہم فیصلے بھی کر رہی ہیں لیکن ان کی زائد از مدت قیام کے قانونی جواز کے بارے میں مکمل سکوت ہے۔
انتخابات جمہوری ممالک میں معمول کا ایک سنگ میل ہے لیکن ہمارے ہاں الیکشن شیڈول بجائے خود مذاق بن کر رہ گیا۔ خدا خدا کر کے انتخابات کا شیڈول آیا تو اس کے بعد سیاسی منظر پر ایک سیاسی جماعت کو نو مئی کے واقعات کی بنیاد پر اپنی بقاء کے لالے پڑ گئے۔نو مئی کے المناک واقعات میں جو لوگ ملوث ہیں انھیں قرار واقعی سزا ملنی چاہیے اور اس ذہن کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے جس کے سبب نو مئی کے واقعات رونما ہوئے۔
سیاست اور جمہوریت کا ہمارے ہاں مستقبل کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے بھی اپنی موجودہ سیاسی اور جمہوری چالوں کو دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ جمہوریت کی بنیاد سیاسی عمل کی اجتماعیت پر ہے۔ سیاسی جماعتوں میں عوامی سطح پر شرکت، ممبرشپ اور قیادت کے انتخاب اور تبدیلی میں عوامی دسترس بنیادی عوامل ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں خاندانی اور شخصیات کے سحر کے تابع ہیں۔
عوامی شرکت کا منظم اہتمام کسی بھی سیاسی جماعت میں نہیں۔ قانونی ضرورت کے مطابق جماعتوں میں انٹرا پارٹی انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ نامزدگیوں اور بلا مقابلہ انتخاب کے ساتھ یہ رسمی مشق انجام دے کر الیکشن کمیشن کی ضرورت پوری کر دی جاتی ہے۔اس سیاسی قبیلہ بندی کا نتیجہ ہے کہ مقامی سطح سے ملکی سطح تک سیاست خاندانی اور شخصیات کی باندی بن کر رہ گئی۔ اس انتظام کو مزید فول پروف بنانے میں سیاست میں خطیر سرمائے کے عمل دخل اور لوکل گورنمنٹ کے قیام سے مسلسل گریز نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
انتخابی انجینئرنگ اور قانون موشگافیوں کے سہارے اس پر مستزاد ہیں۔ اب منشور کی کوئی اہمیت ہے نہ کارکردگی کا کوئی کام، الزامات اور دشنام طرازی، بیانیوں کی دھول اور مخالفین کے لتے اب انتخابی عمل کا امتیاز ہیں۔ یہ رسم گزشتہ کئی انتخابات بھی بھی رائج تھی اور اب بھی ہے۔
ایسے میں انتخابات کی کوکھ سے مختلف نتیجہ کیونکر برآمد ہوگا۔ بے دلی کا یہ عالم بقول فیض احمد فیض کچھ یوں ہے:
ہم اب اس عمر کو آ پہنچے ہیں جب ہم بھی یونہی
دل سے مل آتے ہیں بس رسم نبھانے کے لیے
یہ سن کر مسافر نے دوبارہ سفر شروع کر دیا۔ چند ہی قدم اٹھائے ہوں گے کہ پیچھے سے آواز آئی: تقریبا ایک گھنٹہ لگ جائے گا۔ مسافر کے قدم وہیں رک گئے، واپس مڑ کر قدرے غصے سے بولا : جب میں نے پوچھا تھا اس وقت جواب کیوں نہیں دیا؟ وہ ہنس کر بولا: اس وقت تک میں نے تمہاری چال نہیں دیکھی تھی۔ اب رک کر تمہاری چال دیکھی تو اندازہ لگا کر بتایا۔
پاکستان کے سیاسی اور معاشی سفر میں یہ اگر کوئی یہ جاننا چاہے کہ پاکستان میں معتبر جمہوریت اور مستحکم معیشت کب تک بن پائے گی؟ جواب کے لیے اس کی موجودہ چال دیکھنا ضروری ہے۔
سفر کتنا طویل اور بے یقینی کی الجھنوں سے اٹا ہوا ہے، اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ملک میں ایک آئین ہے، ملک میں کہنے کی حد تک جمہوری نظام قائم ہے، سیاسی پارٹیاں ہیں، ادارے موجود ہیں، ماضی میں بار بار الیکشن ہو چکے ہیں لیکن اس کے باوجود ہر نئے الیکشن کے موقع پر پورے ملک اور نظام کی جان حلق میں اٹک جاتی ہے، آخر کیوں؟ہر سال یوم آزادی کے موقع پر کچھ من چلے یہ میم بڑے زور شور سے طنزیہ شیئر کرتے ہیں، جس میں تقسیم کے وقت چند مفلوک الحال مہاجرین تھکے ماندے سفر پر رواں ہیں اور اس پر کیپشن؛ 75 سال ہو گئے۔
اللہ جانے منزل کب آئے گی؟ یا چلے چلو کہ منزل ابھی نہیں آئی!گزشتہ 40/ 45 سالوں میں دنیا میں بے تحاشہ سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بہت سے ممالک نے جمہوریت کی طرف سفر اختیار کیا۔ کچھ اس سفر میں کامیاب ٹھہرے ، کچھ ابھی تک دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور کچھ آمریت کے نئے شکنجے میں الجھ کر رہ گئے۔
پاکستان کا سیاسی سفر بھی مد و جزر کا شکار رہا۔ سیاسی پارٹیوں کی آپس میں رقابت اور غیر سول قوتوں کی مبینہ سیاسی مداخلت نے سیاسی منظر کو دھندلائے رکھا جس کے نتیجے میں وقت کے ساتھ ساتھ کرپشن، بد حال گورننس، اقربا پروری اور امن و امان کے مسائل نے سیاسی معاملات کو مشکل سے مشکل تر الجھاؤ کا شکار کیا۔ نتیجتاً آج عوام میں موجودہ نظام اور اپنے مستقبل کے بارے میں بہت حد تک بد دلی اور مایوسی ہے۔
رائے عامہ میں پولرائزیشن نئی حدوں کو چھو رہی ہے۔ سیاسی رقابتوں کا جو عالم 90 کی دہائی میں تھا اس سے کہیں زیادہ شدید اور مختلف انداز میں آج بھی موجود ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ڈیجیٹل میڈیا اور سوشل میڈیا کے ظہور نے خبر اور خواہش ، پروپیگنڈا اور حقیقت کے درمیان فرق کو بہت مدہم کر دیا ہے۔
پاکستان ہی کیا دنیا بھر میں سوشل میڈیا نے سیاسی رائے سازی اور سیاسی رائے کو الٹ پلٹ کرنے میں تہلکہ خیز کردار ادا کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے الیکشن کے بعد امریکا میں اس پر باقاعدہ انکوائری ہوئی کہ روس سوشل میڈیا کے ذریعے امریکی الیکشن پر کس حد تک اثر انداز ہوا؟
یورپ اور دیگر بہت سے ممالک میں بھی سوشل میڈیا کے کردار پر بحث چھڑی۔ نامور سوشل پلیٹ فارمز کو کئی ممالک کی پارلیمنٹ کمیٹیوں میں بیان دینے اور پوزیشن کلیئر کرنے کے لیے طلب کیا گیا۔اس سب کچھ کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ سائبر ورلڈ میں خبر، پروپیگنڈا، فیک،ڈیپ فیک سب کچھ اس قدر رچ بس گئے ہیں کہ اب سیاسی پارٹیوں کا اپنا اپنا سچ ہے، عوام کا اپنا اپنا سچ ہے۔ فکری انتشار اور مغالطے نئی حدوں کو چھو رہے ہیں۔
سوشل میڈیا کے نمایاں پلیٹ فارمز کا سرسری جائزہ لیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے پاکستان میں سیاسی جنگ جاری ہے، جس کے جو منہ میں آتا ہے کہے چلے جاتا ہے۔ ہزاروں لوگوں کے پاس " اندر" کی خبر ہے۔الیکشن 2024ہی کو لیجیے ،گزشتہ ڈیڑھ سال کی سیاسی زور آزمائی میں مختلف سیاسی پارٹیوں نے اپنی اپنی چالیں چلیں، زور آزمائی کی مہم جوئیوں کا بازار گرم رکھا۔ نتیجے میں جو اتھل پتھل ہوئی وہ ہمارے سامنے ہے۔
لشٹم پشٹم پانچ سال مکمل ہونے کے بعد انتخابات ایک آئینی تقاضہ تھے۔ تاہم اس آئینی تقاضے کو ٹالنے کے لیے لیت و لعل کے جو اطوار اور انداز اپنائے گئے وہ قابل دید تھے۔ آئین میں نگران حکومتوں کی مدت واضح ہونے کے باوجود نگران حکومتیں دوگنا مدت سے بھی زائد قائم و دائم ہیں، اہم فیصلے بھی کر رہی ہیں لیکن ان کی زائد از مدت قیام کے قانونی جواز کے بارے میں مکمل سکوت ہے۔
انتخابات جمہوری ممالک میں معمول کا ایک سنگ میل ہے لیکن ہمارے ہاں الیکشن شیڈول بجائے خود مذاق بن کر رہ گیا۔ خدا خدا کر کے انتخابات کا شیڈول آیا تو اس کے بعد سیاسی منظر پر ایک سیاسی جماعت کو نو مئی کے واقعات کی بنیاد پر اپنی بقاء کے لالے پڑ گئے۔نو مئی کے المناک واقعات میں جو لوگ ملوث ہیں انھیں قرار واقعی سزا ملنی چاہیے اور اس ذہن کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے جس کے سبب نو مئی کے واقعات رونما ہوئے۔
سیاست اور جمہوریت کا ہمارے ہاں مستقبل کیا ہے ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے بھی اپنی موجودہ سیاسی اور جمہوری چالوں کو دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ جمہوریت کی بنیاد سیاسی عمل کی اجتماعیت پر ہے۔ سیاسی جماعتوں میں عوامی سطح پر شرکت، ممبرشپ اور قیادت کے انتخاب اور تبدیلی میں عوامی دسترس بنیادی عوامل ہیں۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں خاندانی اور شخصیات کے سحر کے تابع ہیں۔
عوامی شرکت کا منظم اہتمام کسی بھی سیاسی جماعت میں نہیں۔ قانونی ضرورت کے مطابق جماعتوں میں انٹرا پارٹی انتخابات منعقد ہوتے ہیں۔ نامزدگیوں اور بلا مقابلہ انتخاب کے ساتھ یہ رسمی مشق انجام دے کر الیکشن کمیشن کی ضرورت پوری کر دی جاتی ہے۔اس سیاسی قبیلہ بندی کا نتیجہ ہے کہ مقامی سطح سے ملکی سطح تک سیاست خاندانی اور شخصیات کی باندی بن کر رہ گئی۔ اس انتظام کو مزید فول پروف بنانے میں سیاست میں خطیر سرمائے کے عمل دخل اور لوکل گورنمنٹ کے قیام سے مسلسل گریز نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
انتخابی انجینئرنگ اور قانون موشگافیوں کے سہارے اس پر مستزاد ہیں۔ اب منشور کی کوئی اہمیت ہے نہ کارکردگی کا کوئی کام، الزامات اور دشنام طرازی، بیانیوں کی دھول اور مخالفین کے لتے اب انتخابی عمل کا امتیاز ہیں۔ یہ رسم گزشتہ کئی انتخابات بھی بھی رائج تھی اور اب بھی ہے۔
ایسے میں انتخابات کی کوکھ سے مختلف نتیجہ کیونکر برآمد ہوگا۔ بے دلی کا یہ عالم بقول فیض احمد فیض کچھ یوں ہے:
ہم اب اس عمر کو آ پہنچے ہیں جب ہم بھی یونہی
دل سے مل آتے ہیں بس رسم نبھانے کے لیے