پنجاب میں ورکنگ ویمن ہاسٹل اتھارٹی تاحال فعال نہ ہوسکی

نگران صوبائی حکومت میں ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کا کوئی وزیر ہی موجود نہیں


آصف محمود January 06, 2024
فوٹو: فائل

سابق پنجاب حکومت کے دور میں منظور کی گئی ورکنگ ویمن ہاسٹل اتھارٹی تاحال فعال نہ ہوسکی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق پنجاب میں ملازمت پیشہ خواتین کی رہائشی مشکلات کو حل کرنے کیلئے بنائی گئی ورکنگ ویمن ہاسٹل اتھارٹی تا حال فعال نہیں ہوسکی۔ نگران صوبائی حکومت میں ویمن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کا کوئی وزیر ہی موجود نہیں ہے۔

نگران وزیراطلاعات عامرمیرکا کہنا ہے کہ پنجاب ویمن ہاسٹلزاتھارٹی ایکٹ 2023 کے مطابق اتھارٹی میں تین خواتین اراکین اسمبلی کا ہونا ضروری ہے جن میں ایک کا تعلق اپوزیشن سے ہونا چاہئے جبکہ دو خواتین کی نامزدگی اسپیکراسمبلی نے کرنی ہے۔ اس وقت چونکہ نگران حکومت ہے تو اس قانونی اور تکنیکی معاملے کی وجہ سے اتھارتی فعال نہیں ہوسکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہاسٹلز کو قانونی دائرہ کارمیں لانے اوران کے لئے قواعد وضوابط بنانے کے لئے اتھارٹی کا قیام ضروری ہے۔ امید ہے انتخابات کے بعد جو بھی منتخب حکومت آئیگی وہ یقینا اس اتھارٹی کو فعال کرے گی۔

خیال رہے کہ گھروں سے دور شہروں میں ملازمت کرنیوالی خواتین کے لئے سب سے بڑا مسئلہ رہائش کا ہوتا ہے۔ خاندان سے دور ان خواتین کو سرکار ی یا پرائیویٹ ہاسٹل میں رہنا پڑتا ہے جس پر پنجاب حکومت نے ہاسٹلز کی رجسٹریشن، مانیٹرنگ اور ریگولرائز کرنے کیلئے ورکنگ ویمن ہاسٹلز اتھارٹی ایکٹ کی منظوری فروری 2023 میں دی تھی۔

لاہورسمیت پنجاب میں اس وقت پرائیویٹ ہاسٹلز کی تعداد کا کسی بھی حکومتی ادارے کے پا س کوئی ریکارڈ نہیں، سیکڑوں ہاسٹلز رہائشی عمارتیں کرایہ پرلیکر بنائے گئے ہیں، ہاسٹلزمالکان اپنے حساب سے کرائے اور اصول وضوابط طے کرتے ہیں۔

لاہور میں ایک پرائیویٹ ہاسٹل چلانے والے مظاہرشگری نے بتایا کہ وہ لوگ خود ہی ہاسٹل میں مقیم خواتین کا ریکارڈ جس میں ان کے قومی شناختی کارڈ کی کاپی، ایک تصویر، خاتون کے والد یا شوہرکے شناختی کارڈ کی کاپی اور وہ جس ادارے میں پڑھتی یا جاب کرتی ہیں وہاں سے ایک تصدیقی لیٹر لیکر اس ریکارڈ کی ایک کاپی مقامی تھانے میں جمع کرواتے ہیں۔

انہوں نے کہا حالات یہ ہیں تھانے میں ریکارڈ جمع کروانے کے لئے عملے کی مٹھی گرم کرنا پڑتی ہے، اس کے علاوہ جب سے دہشتگردی کے کچھ واقعات ہوئے یا کسی ہاسٹل میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجائے تو پھر مختلف ایجنسیز کے لوگ بھی چیک کرنے آتے ہیں اور ان میں سے اکثر پیسے لیکرجاتے ہیں۔

محکمہ بہبود خواتین کی سیکرٹری سمیرا صمد نے بتایا کہ محکمہ بہبود خواتین کے زیر انتظام اس وقت پنجاب کے 12 اضلاع میں 16 ورکنگ ویمن ہاسٹل ہیں جن میں مجموعی طور پر 625 بیڈ ہیں۔ لاہور میں چار، راولپنڈی میں دو، جبکہ گوجرانوالہ، فیصل آباد، ساہیوال، وہاڑی، ملتان، بہاولپور، مظفرگڑھ، ڈیرہ غازیخان، رحیم یارخان اور سرگودھا میں ایک ایک ہاسٹل ہے۔ ان میں سے بعض ہاسٹل سرکاری عمارتوں جبکہ کچھ کرائے کی عمارتوں میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت بنائے گئے ہیں۔

سمیرا صمد کے مطابق ان ہاسٹلز میں رہائش کی بہترین سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں جبکہ سیکیورٹی کا بھی خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صوبے کے تمام اضلاع میں ہاسٹل بنائے جائیں گے جبکہ بڑے شہروں میں ایک سے زیادہ ہاسٹلز بنانے کا منصوبہ ہے، آئندہ مالی سال میں اس ویمن ہاسٹلز اتھارٹی کیلئے بجٹ مختص کیا جائیگا جس کے بعد اتھارٹی کے لئے اسٹاف کی بھرتی ہوگی۔

سیکرٹری محکمہ بہبود خواتین کا کہنا تھا کہ ہاسٹل میں کوئی بھی ملازمت پیشہ خاتون قیام کرسکتی ہے اس کے لئے گورنمنٹ ملازم ہونا ضروری نہیں۔ ہاسٹلز کے کرائے انتہائی کم ہیں جن کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت 2014 میں مقرر کئے گئے کرائے لئے جارہے ہیں۔

محکمہ بہبود خواتین سے حاصل ہونیوالی معلومات کے مطابق لاہور، فیصل آباد، راولپنڈی اور ملتان میں ہاسٹل کے سنگل روم کا رینٹ 1500 روپے، ڈبل کا رینٹ ایک ہزار روپے فی کس، تین اورچار بیڈ روم کا رینٹ 800 روپے فی کس ہے جبکہ باقی شہروں میں موجود ورکنگ ویمن ہاسٹلز میں سنگل روم کا رینٹ ایک ہزار اور ڈبل، تھری اورفور بیڈ روم والے کمرے کا رینٹ 800 روپے فی کس ہے۔ بجلی اورگیس کا بل تمام رہائشی الگ ادا کرتے ہیں۔

بڑے شہروں میں رہائشی خواتین سے پانچ ہزار جبکہ چھوٹے شہروں میں چار ہزار روپے قابل واپسی سیکیورٹی لی جاتی ہے۔ بعض ہاسٹلز میں ہر کمرے کا الگ سے سب میٹر ہے جبکہ باقی ہاسٹلز میں بل تمام رہائشی مل کر ادا کرتے ہیں۔ ہاسٹلزمیں انتطامیہ کی طرف سے لانڈری ایریا اور آئرین ایریا بھی مختص ہے جبکہ تمام ہاسٹلز میں کچن بھی بنائے گئے ہیں لیکن زیادہ تر ہاسٹلز میں رہائشی کھانا باہر سے ہی منگواتی ہیں۔ چند ہاسٹلز میں میس کمیٹیاں موجود ہیں جو رہائشی خواتین کو تین وقت کا کھانا فراہم کرتی ہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں