غزہ پر اسرائیلی حملے کے 90 روز
جب تک فلسطینی قیادت اپنا احتساب خود نہیں کرے گی، فلسطین کی جدوجہد آزادی منزل سے دور ہوتی جائے گی
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کو شروع ہوئے تین ماہ ہو گئے ہیں، غزہ کی پٹی میں اسرائیلی حملے جمعے کو بھی جاری رہے، غزہ کا جنگ سے محفوظ علاقہ رفح بھی اسرائیلی بمباری کی زد میں آ گیا، میڈیا کی اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ ایک گھر پر بمباری سے پورا فلسطینی خاندان شہید ہوگیا۔
تازہ حملوں میں مزید 162 فلسطینی شہید ہونے کی اطلاعات ہیں جب کہ 296 زخمی ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی کشتیوں نے وسطی غزہ کے ساحلی علاقوں کو بھی نشانہ بنایا ہے، اسرائیلی فوج نے اسلامی جہاد کے آپریشنل کمانڈر ممدوح لولو کو شہید کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ حماس نے اس لڑائی کے 90 روز مکمل ہونے پر ایک رپورٹ جاری کی ہے۔
حماس میڈیا آفس کے مطابق 90 روز کے دوران اسرائیل نے غزہ پر 1876 حملے کیے، ان حملوں کے نتیجے میں شہید ہونے والے اور لاپتا فلسطینیوں کی تعداد 30 ہزار کے قریب ہے، شہداء میں 10 ہزار کے لگ بھگ بچے اور 7ہزار کے قریب خواتین شامل ہیں، ساڑھے 6 سو کے قریب ڈاکٹرز اور میڈیکل ورکرز، سول ڈیفنس کے 42 ارکان اور 106 صحافی بھی اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہوئے ہیں۔
حماس کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ غزہ میں7 ہزار فلسطینی لاپتا ہیں جن میں 70 فیصد بچے اور خواتین ہیں۔ 60 ہزار کے قریب زخمی افراد کے لیے علاج ومعالجے کی سہولتوں کی شدید کمی ہے، 19 لاکھ فلسطینی بے گھر ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی بمباری کی وجہ سے عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے، حماس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 130 سرکاری عمارتیں، یونیورسٹیاں اور اسکول تباہ کیے گئے ہیں۔
مساجد اور چرچز کو بھی بمباری کا نشانہ بنایا گیا ہے، 65 ہزار گھر مکمل تباہ ہوئے ہیں جب کہ تین لاکھ کے لگ بھگ گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے، غزہ میں اسپتال غیرفعال ہیں، غزہ میں 53 صحت مراکز مکمل تباہ ہوئے جب کہ 150 مراکز کو جزوی طور پر نقصان پہنچا، 121 ایمبولینسیں بمباری کی زد میں آ کر تباہ ہوئی ہیں اور 200 آثار قدیمہ اور ثقافتی ورثے کے مقامات کو بھی کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں اور تباہی کی یہ ایک جھلک ہے جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان عام فلسطینی شہریوں کو ہوا ہے۔ ان کی جانیں گئی ہیں، ان کے گھر تباہ ہوئے ہیں، ان کے پیارے لاپتہ ہیں، غزہ کا انفرااسٹرکچر تباہ ہے، اسپتال اور درس گاہیں تقریباً بند ہیں جب کہ کاروبار بھی ٹھپ پڑے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل کے حملے مسلسل جاری ہیں۔ اب حماس صرف فلسطینیوں کو ہونے والے نقصانات کی رپورٹیں شایع کرنے تک محدود نظر آ رہی ہے جب کہ اسرائیلی بغیر کسی مزاحمت کے اپنے اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی 7 اکتوبر 2023کو شروع ہوئی، اسی روز سے اسرائیلی فورسز کے زمینی اور فضائی حملے جاری ہیں۔ اس لڑائی میں ہزاروں فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں، جب کہ اسرائیلی جانی نقصان اس کی نسبت بہت کم ہے۔ اسرائیلی فوج نے تو فلسطینی پناہ گزین کیمپوں پر بھی بمباری کر کے اپنا غصہ اتارا ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے محض غزہ ہی نہیں بلکہ فلسطینی اتھارٹی کے تمام فلسطینیوں کا کاروبار اور روزگار متاثر ہوا ہے۔
یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے لیے تو کوئی روز گار ہی نہیں ہے۔ اس تنازع میں عالمی حمایت اسرائیل کے حق میں زیادہ ہے، جب کہ حماس کے حق میں عرب ممالک بھی کھل کر سامنے نہیں آئے۔ عرب ممالک جو مؤقف اختیار کرتے ہیں، اس میں فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان ہوتا ہے، حماس کی کارروائیوں کی حمایت نہیں ہوتی۔
امریکا نے تو اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کو امدادی سامان کی فراہمی سے متعلق قرار داد پر بھی ویٹو کر دیا تھا، آخری بار پیش ہونے والی قرارداد پر ووٹنگ کئی بار مرتبہ ملتوی کی گئی کیونکہ خدشہ تھا کہ امریکا کہیں قرارداد کو ویٹو نہ کردے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی مؤقف کے ساتھ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کتنی مضبوطی سے کھڑے ہیں۔ غزہ میں فلسطینیوں تک امداد پہنچانا بھی انتہائی مشکل کام بن گیا ہے، اقوام متحدہ بھی بے بس ہو جاتی ہے۔
امریکا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو کا حق استعمال کرکے اسرائیل کا حوصلہ بلند رکھے ہوئے ہے۔ چند روزہ عارضی جنگ بندی بھی ایک مذاق سے کم نہیں، کیونکہ سب ممالک' کو پتہ تھا کہ جنگ دوبارہ شروع ہو جائے گی کیونکہ جنگ بندی کو مستقل کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہوا تھا۔ اسرائیل اس جنگ کا فائدہ اٹھا کر حماس کا مکمل خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔
ادھر امریکا اور یورپی یونین کی پالیسی بھی یہی لگتی ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے اسرائیل اپنے اہداف حاصل کر لے تاکہ بعد میں مستقل جنگ بندی کرا دی جائے۔ جس روز عارضی جنگ بندی ہوئی، اسی روز اسرائیل کے وزیر دفاع نے واضح کر دیا تھا کہ یہ جنگ بندی محض ایک وقفہ ہے، لڑائی دوبارہ شروع ہو جائے گی اور اس کی شدت پہلے سے بھی زیادہ ہو گی اور یہ جنگ مزید 2 ماہ اور جاری رہ سکتی ہے، اب ایسا ہی ہو رہا ہے۔ بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہی ہیں اور عام فلسطینی مارے جا رہے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جب بھی لڑائی ہوئی، اس میں عام فلسطینی شہریوں کا نقصان ہوا ہے ۔ فلسطینیوں کا امیر اور مراعات یافتہ طبقہ امریکا، یورپ، بیروت، امان اور قطر میں رہائش پذیر ہے' ان کے خاندان خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہیں جب کہ غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں رہنے والے عام فلسطینی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، جو بے گھر ہو چکے ہیں، وہ پناہ گزین کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ تنازع فلسطین کے سب سے پہلے اسٹیک ہولڈر عام فلسطینی باشندے ہیں۔ عام فلسطینی اپنے جان ومال اور چادر وچاردیواری کا تحفظ چاہتا ہے، اس کے لیے ہی وہ ایک آزاد اور خودمختار وطن کا مطالبہ کرتا ہے جو ہر فلسطینی کا حق ہے۔ اس حق کے لیے فلسطین کے لوگ برسوں سے جدوجہد کرتے آ رہے ہیں لیکن وہ جنگ کے متحمل نہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس عسکری وسائل ہی نہیں ہیں، فلسطینی باقاعدہ فوج رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس فضائی قوت موجود ہے۔
ایسی صورت میں اسرائیل جیسی عسکری طاقت کے ساتھ باقاعدہ جنگ کیسے ہو سکتی ہے۔ گوریلا کارروائیاں کرنا ایک الگ بحث ہے جب کہ باقاعدہ جنگ ایک الگ چیز ہے۔ فلسطینی قیادت کو بھی ان معاملات کا ادراک ضرور ہے لیکن سیاسی قیادت کے باہمی نظریاتی اختلافات نے فلسطینیوں کی وحدت اور متفقہ مؤقف کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
فلسطینی قیادت کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے اور جائزہ لینا چاہیے کہ ان کی حکمت عملی میں کہاں خرابی ہے؟ ان کی نظریاتی تقسیم آزادی فلسطین کی جدوجہد اور عام فلسطینیوں کے مفادات پر کتنی بھاری پڑ رہی ہے' اس کا اندازہ شاید انھیں نہیں ہو پا رہا، فلسطینی قیادت کو اپنے نظریات اور گروہی مفادات کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ فلسطینیوں کی تحریک صحیح معنوں میں متفقہ قومی آزادی کی تحریک بن سکے۔
فلسطینی قیادت کے درمیان نظریاتی تقسیم نے فلسطین کی آزادی کی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک آزاد فلسطین ریاست قائم ہو چکی ہوتی۔
غزہ تباہ و برباد ہوچکا، دیگر فلسطینی علاقے بھی تباہ ہو رہے ہیں۔ ان علاقوں کے فلسطینی ترکِ وطن پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جب جنگ بند ہو گی اور امن قائم ہو گا، تو ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بے گھر ہونے والے فلسطینی اپنے گھروں میں واپس ہی نہ آ پائیں اور اسرائیل کے زیرقبضہ فلسطینی علاقوں میں فلسطینیوں کی آبادی مزید کم ہو جائے گی۔ فلسطین کا تنازع کیسے حل ہوگا'اس کے بارے میں فی الحال تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ہر جنگ کے بعد فلسطینیوں کی تعداد اپنے ہی علاقوں میں کم ہوتی جا رہی ہے۔
فلسطینی قیادت کا ایک حصہ اور کئی مسلم ممالک تنازع فلسطین کے حل کے لیے صرف ایک بات کرتے ہیں، یعنی اسرائیل کا مکمل خاتمہ ہواورپورا فلسطین آزاد ہو جب کہ فلسطینی قیادت کا ایک حصہ اور کئی اسلامی ممالک فلسطین کے تنازع کے حل کے لیے دو ریاستی فارمولے کے حامی ہیں۔ یعنی اس خطے میں اسرائیل اورفلسطین دوالگ الگ آزاد اور خودمختار ریاستیں ہوں' جس نقطہ نظر کی حامی حماس ہے ' اس میں اسرائیلی ریاست کی گنجائش نہیں ہے۔
ان متحارب نظریات کے ہوتے ہوئے تنازع فلسطین کا حل کیسے ممکن ہو گا، فی الحال اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ ایک حقیقت اٹل ہے کہ جب تک فلسطینی قیادت اپنا احتساب خود نہیں کرے گی، فلسطین کی جدوجہد آزادی منزل سے دور ہوتی جائے گی۔
تازہ حملوں میں مزید 162 فلسطینی شہید ہونے کی اطلاعات ہیں جب کہ 296 زخمی ہوگئے ہیں۔ اسرائیلی کشتیوں نے وسطی غزہ کے ساحلی علاقوں کو بھی نشانہ بنایا ہے، اسرائیلی فوج نے اسلامی جہاد کے آپریشنل کمانڈر ممدوح لولو کو شہید کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ حماس نے اس لڑائی کے 90 روز مکمل ہونے پر ایک رپورٹ جاری کی ہے۔
حماس میڈیا آفس کے مطابق 90 روز کے دوران اسرائیل نے غزہ پر 1876 حملے کیے، ان حملوں کے نتیجے میں شہید ہونے والے اور لاپتا فلسطینیوں کی تعداد 30 ہزار کے قریب ہے، شہداء میں 10 ہزار کے لگ بھگ بچے اور 7ہزار کے قریب خواتین شامل ہیں، ساڑھے 6 سو کے قریب ڈاکٹرز اور میڈیکل ورکرز، سول ڈیفنس کے 42 ارکان اور 106 صحافی بھی اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہوئے ہیں۔
حماس کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ غزہ میں7 ہزار فلسطینی لاپتا ہیں جن میں 70 فیصد بچے اور خواتین ہیں۔ 60 ہزار کے قریب زخمی افراد کے لیے علاج ومعالجے کی سہولتوں کی شدید کمی ہے، 19 لاکھ فلسطینی بے گھر ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی بمباری کی وجہ سے عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے، حماس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 130 سرکاری عمارتیں، یونیورسٹیاں اور اسکول تباہ کیے گئے ہیں۔
مساجد اور چرچز کو بھی بمباری کا نشانہ بنایا گیا ہے، 65 ہزار گھر مکمل تباہ ہوئے ہیں جب کہ تین لاکھ کے لگ بھگ گھروں کو جزوی نقصان پہنچا ہے، غزہ میں اسپتال غیرفعال ہیں، غزہ میں 53 صحت مراکز مکمل تباہ ہوئے جب کہ 150 مراکز کو جزوی طور پر نقصان پہنچا، 121 ایمبولینسیں بمباری کی زد میں آ کر تباہ ہوئی ہیں اور 200 آثار قدیمہ اور ثقافتی ورثے کے مقامات کو بھی کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں اور تباہی کی یہ ایک جھلک ہے جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس جنگ میں سب سے زیادہ نقصان عام فلسطینی شہریوں کو ہوا ہے۔ ان کی جانیں گئی ہیں، ان کے گھر تباہ ہوئے ہیں، ان کے پیارے لاپتہ ہیں، غزہ کا انفرااسٹرکچر تباہ ہے، اسپتال اور درس گاہیں تقریباً بند ہیں جب کہ کاروبار بھی ٹھپ پڑے ہیں۔
دوسری جانب اسرائیل کے حملے مسلسل جاری ہیں۔ اب حماس صرف فلسطینیوں کو ہونے والے نقصانات کی رپورٹیں شایع کرنے تک محدود نظر آ رہی ہے جب کہ اسرائیلی بغیر کسی مزاحمت کے اپنے اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی 7 اکتوبر 2023کو شروع ہوئی، اسی روز سے اسرائیلی فورسز کے زمینی اور فضائی حملے جاری ہیں۔ اس لڑائی میں ہزاروں فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں، جب کہ اسرائیلی جانی نقصان اس کی نسبت بہت کم ہے۔ اسرائیلی فوج نے تو فلسطینی پناہ گزین کیمپوں پر بھی بمباری کر کے اپنا غصہ اتارا ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے محض غزہ ہی نہیں بلکہ فلسطینی اتھارٹی کے تمام فلسطینیوں کا کاروبار اور روزگار متاثر ہوا ہے۔
یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے لیے تو کوئی روز گار ہی نہیں ہے۔ اس تنازع میں عالمی حمایت اسرائیل کے حق میں زیادہ ہے، جب کہ حماس کے حق میں عرب ممالک بھی کھل کر سامنے نہیں آئے۔ عرب ممالک جو مؤقف اختیار کرتے ہیں، اس میں فلسطینیوں کی حمایت کا اعلان ہوتا ہے، حماس کی کارروائیوں کی حمایت نہیں ہوتی۔
امریکا نے تو اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کو امدادی سامان کی فراہمی سے متعلق قرار داد پر بھی ویٹو کر دیا تھا، آخری بار پیش ہونے والی قرارداد پر ووٹنگ کئی بار مرتبہ ملتوی کی گئی کیونکہ خدشہ تھا کہ امریکا کہیں قرارداد کو ویٹو نہ کردے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی مؤقف کے ساتھ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کتنی مضبوطی سے کھڑے ہیں۔ غزہ میں فلسطینیوں تک امداد پہنچانا بھی انتہائی مشکل کام بن گیا ہے، اقوام متحدہ بھی بے بس ہو جاتی ہے۔
امریکا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنے ویٹو کا حق استعمال کرکے اسرائیل کا حوصلہ بلند رکھے ہوئے ہے۔ چند روزہ عارضی جنگ بندی بھی ایک مذاق سے کم نہیں، کیونکہ سب ممالک' کو پتہ تھا کہ جنگ دوبارہ شروع ہو جائے گی کیونکہ جنگ بندی کو مستقل کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہوا تھا۔ اسرائیل اس جنگ کا فائدہ اٹھا کر حماس کا مکمل خاتمہ کرنا چاہتا ہے۔
ادھر امریکا اور یورپی یونین کی پالیسی بھی یہی لگتی ہے کہ جتنا جلد ممکن ہو سکے اسرائیل اپنے اہداف حاصل کر لے تاکہ بعد میں مستقل جنگ بندی کرا دی جائے۔ جس روز عارضی جنگ بندی ہوئی، اسی روز اسرائیل کے وزیر دفاع نے واضح کر دیا تھا کہ یہ جنگ بندی محض ایک وقفہ ہے، لڑائی دوبارہ شروع ہو جائے گی اور اس کی شدت پہلے سے بھی زیادہ ہو گی اور یہ جنگ مزید 2 ماہ اور جاری رہ سکتی ہے، اب ایسا ہی ہو رہا ہے۔ بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہی ہیں اور عام فلسطینی مارے جا رہے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جب بھی لڑائی ہوئی، اس میں عام فلسطینی شہریوں کا نقصان ہوا ہے ۔ فلسطینیوں کا امیر اور مراعات یافتہ طبقہ امریکا، یورپ، بیروت، امان اور قطر میں رہائش پذیر ہے' ان کے خاندان خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہیں جب کہ غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں رہنے والے عام فلسطینی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، جو بے گھر ہو چکے ہیں، وہ پناہ گزین کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ تنازع فلسطین کے سب سے پہلے اسٹیک ہولڈر عام فلسطینی باشندے ہیں۔ عام فلسطینی اپنے جان ومال اور چادر وچاردیواری کا تحفظ چاہتا ہے، اس کے لیے ہی وہ ایک آزاد اور خودمختار وطن کا مطالبہ کرتا ہے جو ہر فلسطینی کا حق ہے۔ اس حق کے لیے فلسطین کے لوگ برسوں سے جدوجہد کرتے آ رہے ہیں لیکن وہ جنگ کے متحمل نہیں ہیں کیونکہ ان کے پاس عسکری وسائل ہی نہیں ہیں، فلسطینی باقاعدہ فوج رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس فضائی قوت موجود ہے۔
ایسی صورت میں اسرائیل جیسی عسکری طاقت کے ساتھ باقاعدہ جنگ کیسے ہو سکتی ہے۔ گوریلا کارروائیاں کرنا ایک الگ بحث ہے جب کہ باقاعدہ جنگ ایک الگ چیز ہے۔ فلسطینی قیادت کو بھی ان معاملات کا ادراک ضرور ہے لیکن سیاسی قیادت کے باہمی نظریاتی اختلافات نے فلسطینیوں کی وحدت اور متفقہ مؤقف کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
فلسطینی قیادت کو خود احتسابی کے عمل سے گزرنا چاہیے اور جائزہ لینا چاہیے کہ ان کی حکمت عملی میں کہاں خرابی ہے؟ ان کی نظریاتی تقسیم آزادی فلسطین کی جدوجہد اور عام فلسطینیوں کے مفادات پر کتنی بھاری پڑ رہی ہے' اس کا اندازہ شاید انھیں نہیں ہو پا رہا، فلسطینی قیادت کو اپنے نظریات اور گروہی مفادات کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ فلسطینیوں کی تحریک صحیح معنوں میں متفقہ قومی آزادی کی تحریک بن سکے۔
فلسطینی قیادت کے درمیان نظریاتی تقسیم نے فلسطین کی آزادی کی تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اب تک آزاد فلسطین ریاست قائم ہو چکی ہوتی۔
غزہ تباہ و برباد ہوچکا، دیگر فلسطینی علاقے بھی تباہ ہو رہے ہیں۔ ان علاقوں کے فلسطینی ترکِ وطن پر مجبور ہو گئے ہیں۔ جب جنگ بند ہو گی اور امن قائم ہو گا، تو ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بے گھر ہونے والے فلسطینی اپنے گھروں میں واپس ہی نہ آ پائیں اور اسرائیل کے زیرقبضہ فلسطینی علاقوں میں فلسطینیوں کی آبادی مزید کم ہو جائے گی۔ فلسطین کا تنازع کیسے حل ہوگا'اس کے بارے میں فی الحال تو کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ہر جنگ کے بعد فلسطینیوں کی تعداد اپنے ہی علاقوں میں کم ہوتی جا رہی ہے۔
فلسطینی قیادت کا ایک حصہ اور کئی مسلم ممالک تنازع فلسطین کے حل کے لیے صرف ایک بات کرتے ہیں، یعنی اسرائیل کا مکمل خاتمہ ہواورپورا فلسطین آزاد ہو جب کہ فلسطینی قیادت کا ایک حصہ اور کئی اسلامی ممالک فلسطین کے تنازع کے حل کے لیے دو ریاستی فارمولے کے حامی ہیں۔ یعنی اس خطے میں اسرائیل اورفلسطین دوالگ الگ آزاد اور خودمختار ریاستیں ہوں' جس نقطہ نظر کی حامی حماس ہے ' اس میں اسرائیلی ریاست کی گنجائش نہیں ہے۔
ان متحارب نظریات کے ہوتے ہوئے تنازع فلسطین کا حل کیسے ممکن ہو گا، فی الحال اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا البتہ ایک حقیقت اٹل ہے کہ جب تک فلسطینی قیادت اپنا احتساب خود نہیں کرے گی، فلسطین کی جدوجہد آزادی منزل سے دور ہوتی جائے گی۔