سیرت رسولؐ کے عملی پہلو
یدخلون فی دین اللہ افواج کا ایک منظر وہ تھا جس نے رسول اللہؐ کی ذات بابرکات کے مبعوث ہونے کی ضرورت پوری کردی
مولانا ابوالکلام آزاد ''قرآن اور سنت'' کے عنوان سے لکھتے ہیں۔''حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف اس عہد میں بلکہ جب تک دنیا باقی ہے، صاحبِ قرآن کی سیرت اور حیاتِ مقدس کے مطالعے سے بڑھ کر نوع انسانی کے تمام امراضِ قلوب و علل ارواح کا اور کوئی علاج نہیں۔ اسلام کا دائمی معجزہ اور ہمیشگی کی حجۃاللہ البالغہ قرآن کے بعد اگر کوئی چیز ہے تو وہ صاحب قرآن کی سیرت ہے اور دراصل قرآن اور حیات نبوت معناً ایک ہی ہیں۔ قرآن متن ہے اور سیرت اس کی تشریح، قرآن علم ہے اور سیرت اس کا عمل۔ قرآن کا کھلا کھلا دعویٰ ہے کہ ہر نبی کی زندگی جس طرح شروع ہوئی اور جس طرح ختم ہوئی، جو کچھ اس پر گزرا اور قولاً و فعلاً جو کچھ اس سے تعلق رکھتا ہے، ان میں سے ہر بات بجائے خود ایک دلیل اور برہان حق ہے، قرآن حکیم میں یا وعظ و حکم میں ہو یا شرحِ قوانین ہدایت و ضلالت یا قصص الاولین میں۔ تو معلوم ہوا کہ اگر احکام ہیں تو اسی شریعت کے جس کے حامل سیدالمرسلین ہیں، مواعظ ہیں تو وہی ہیں جن کی عملی تصویر سیدالمرسلین ہیں۔''
مولانا ابوالکلام آزاد رسول اللہؐ کا حلیہ مبارک بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ''آپؐ میانہ قد اور موزوں اندام تھے۔ آپؐ کی بناوٹ بدرجہ نہایت خوبصورت تھی۔ رنگ چمکتا ہوا سرخی مائل نہ زیادہ سفید نہ زیادہ گندم گوں، پیشانی چوڑی، ابرو پیوستہ، آنکھیں سیاہ اور سرمگیں۔ جب آپؐ خوش ہوتے تو چہرہ مبارک میں ایک خاص چمک دمک رونما ہو جاتی تھی۔ معلوم ہوتا کہ وہ چاند کا ٹکڑا ہے۔ گفتگو نہایت شیریں اور دل آویز تھی۔ بہت ٹھہر ٹھہر کر بات کرتے، ایک ایک فقرہ الگ ہوتا۔''
فضائل اخلاق کا ذکر کرتے ہوئے مولانا آزاد لکھتے ہیں ''رسول اللہؐ عالم انسانیت کے لیے فضائل و مکارم اخلاق کا بہترین نمونہ تھے۔ جس وجود مبارک کو پوری اولادِ آدم کے لیے قیامت تک اسوۂ حسنہ قرار دیا گیا اس کی حیثیت اس کے سوا ہو بھی کیا سکتی تھی؟ اس کا پہلا شاہد قرآن پاک ہے۔
ارشاد ہوتا ہے: ''(اے پیغمبر) تم اعلیٰ اخلاق پر پیدا ہوئے۔'' (سورہ قلم۔4)۔ رسول اللہؐ نرم مزاج اور خوش اخلاق تھے۔ چہرہ مبارک پر اس قسم کی کیفیت چھائی رہتی تھی جس سے دیکھنے والے پر لطف اور شفقت کا اثر پڑتا۔ آپؐ نے حسن معاملہ، عدل و انصاف، مہمان نوازی کے معیار قائم کیے۔ آپؐ شرم و حیا، عزم و استقلال اور شجاعت کے پیکر تھے۔ عائلی زندگی کا بہترین نمونہ حضورؐ نے پیش کیا۔
قرآن میں آپؐ کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں ان میں سب سے زیادہ اہم اور نمایاں وصف یہ ہے کہ آپؐ رحمۃاللعالمینؐ ہیں۔ آپؐ کو کسی ایک ملک، کسی ایک قوم، کسی ایک نسل ہی کے لیے نہیں ساری دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ پھر وحی الٰہی نے آپؐ کو ایسے مقام تک پہنچنے کی خبر دی جو نوع انسانی کے لیے عظمت و ارتفاع کی سب سے آخری بلندی ہے یعنی مقام محمود۔ یہ مقام وہ ہے جس سے بڑھ کر انسانی رفعت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔''
مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں ''مذہب کی قوتِ احتساب تمام چیزوں سے بالاتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر رسول اللہؐ کا اتباع فرض کرکے ہم کو پوری دنیا کی مادی و اخلاقی غلامی سے آزاد کر دیا ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے۔ ''یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسول کی پیروی و اتباع کا بہترین نمونہ رکھا گیا ہے۔''
اس طرز بیان سے نہ صرف جناب رسول اللہ ﷺ کا اتباع لازم کر دیا گیا، بلکہ ساتھ ہی دوسرے تمام بڑے بڑے انسانوں کے اتباع کی نفی بھی کردی گئی۔ اس لیے کہ صرف ایک ہی آفتاب ہے جس کی روشنی ظلمت زار دنیا کی ہر اندھیری اور تیرہ و تاریک راہ میں ہماری رہنمائی کر سکتی ہے۔''
مولانا آزاد لکھتے ہیں ''حضرت علیؓ نے فرمایا کہ حضورؐ نے حیاتِ طیبہ کے تین حصے کر لیے تھے۔ ایک عبادت الٰہی کے لیے، دوسرا عام خلق کے لیے اور تیسرا اپنی ذات کے لیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو حصہ عام خلق کے لیے تھا، وہ بھی عین عبادتِ الٰہی تھا اور جو حصہ ذات کے لیے تھا، وہ غالباً سب سے کم تھا، اسے بھی عبادت الٰہی سمجھنا چاہیے، اس لیے کہ اس سے بھی یہی دیکھنا مقصود تھا کہ خدا کے نیک بندوں کا طریقِ زندگی کیا ہونا چاہیے اور اسے کیونکر پورا کیا جا سکتا ہے۔''
''حضورؐ کی زندگی اعمالِ انسانیت کی ہر شاخ پر حاوی تھی۔ اس میں حق و صداقت کے آغاز کی غربت و مظلومی بھی تھی اور تمام کی فتح مندی اور کامرانی کا جاہ و جلال اور سطوت و جبروت بھی تھا۔ آپؐ نے امن اور صلح کے ایام بھی کاٹے اور امن اور صلح کے لیے تلوار باندھنے کا حکم بھی دیا۔ اس لیے عہد و میثاق اور ان کے نتائج و عواقب کے واقعات عہد نبوت کی تاریخ میں بے شمار نظر آتے ہیں اور ان کے اندر اخلاقِ قرآنی کی عملی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔''
مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں ''یہ پاک دین تھا جس کی دعوت کے لیے رسول اکرمؐ مبعوث ہوئے۔ اسلام کا خدا رؤف و رحیم، اسلام کا رسولؐ رؤف و رحیم۔ اسلام کے پیروؤں کو زیادہ سے زیادہ رحمت و محبت، شفقت اور عفو و درگزر کی تعلیم دی گئی تھی۔ عالمِ انسانیت کی اصلاح اور درستی کا کار اہم اسی طرح احسن طریقے سے پورا ہو سکتا تھا۔ بلاشبہ بدلے کی گنجائش رکھی گئی کیونکہ تمام انسان عزم الامور کی ترازو میں پورے نہیں اتر سکتے، لیکن ترجیح عزم الامور ہی کو حاصل ہے اور مقاصدِ اصلاح اور درستی کو جلد سے جلد پایہ تکمیل پر پہنچانا بھی عزم الاموری کے ذریعے ممکن ہے۔
اصلاح کے سلسلے میں بنیادی امر یہ ہے کہ جن کی اصلاح مقصود ہو، انھیں سب سے پہلے یہ یقین ہو جائے کہ ان کے ساتھ داعی اصلاح کو دلی ہمدردی ہے۔ یہ یقین داعی کے بلند طرزِ عمل ہی سے پیدا ہو سکتا ہے۔ جیسے جیسے دائرہ اصلاح پھیلتا جائے گا فتنہ و فساد کا ازالہ ہوتا جائے گا۔ نئے نئے داعی بروئے کار آ سکیں گے۔ اس طرح رحمت ِ خداوندی سے کیا بعید ہے کہ کروڑوں انسان تھوڑے ہی عرصے میں راہِ حق پر لگ جائیں۔
یدخلون فی دین اللہ افواج کا ایک منظر وہ تھا جس نے رسول اللہؐ کی ذات بابرکات کے مبعوث ہونے کی ضرورت پوری کردی، یدخلون فی دین اللہ افواجا کا آخری منظر ابھی باقی ہے جب شش جہت سے اعتراف رحمۃ اللعالمین کی صدائے حق بلند ہوگی اور کائناتِ انسانیت کے لبوں پر اللھم صلی علی کا ورد ہوگا۔