تیمور کے گھر کی غیرت
آتش بازی کے ساتھ خودکار ہتھیاروں کی فائرنگ سے کانوں کے پردے پھٹے جاتے ہیں
ہم اپنی دینی روایات کے برخلاف ہر سال انگریزی سال کی ابتدا ہر یکم جنوری کی شب میں خوشیاں مناتے، آتش بازی اور فائرنگ کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں یہ تو متوسط درجے کے شہریوں کی سرگرمیاں ہیں ہمارا طبقہ اعلیٰ اس رات کو اعلیٰ درجے کے ہوٹلوں کا رخ کرتا ہے اور رنگا رنگ پروگرام ہوتے ہیں، رقص و موسیقی کی محافل سجتی ہیں اور اسی محویت میں رات کی صبح ہو جاتی ہے۔
ہر بار سرکاری طور پر اعلان کیا جاتا ہے کہ بعض مخصوص مقامات کی طرف جانا منع ہے اور وہ ہے ساحلی علاقہ، مگر سب سے زیادہ رش انھی جگہوں پر ہوتا ہے۔ پولیس کی طرف سے جن سڑکوں کو اس دن ٹریفک کے لیے بند کر دیا جاتا ہے، انھی سڑکوں اور ساحلوں پر سب سے زیادہ رش ہوتا ہے۔
آتش بازی کے ساتھ خودکار ہتھیاروں کی فائرنگ سے کانوں کے پردے پھٹے جاتے ہیں۔ عورتیں اور بچے سہم کر رہ جاتے اور اپنے بستروں میں دبک جاتے ہیں اور اب ہم اس شغل کو اپنا قومی معمول بنا چکے ہیں، اس لیے اس کی روک تھام کے لیے کیے گئے اقدام بھی بے دلی سے کیے جاتے ہیں اس لیے ان سرگرمیوں کے لیے مواقع خود بہ خود فراہم ہو جاتے ہیں۔
مگر اس سال بات ذرا مختلف تھی۔ گزشتہ تین ماہ سے فلسطین میں مسلمانوں پر جو بربریت کی جا رہی ہے اور اسرائیل جس بے رحمانہ طریقے سے ان کے جان، مال، عزت، آبرو، غیرت و حمیت پر حملہ آور ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ارد گرد کے مسلم ممالک خصوصاً اور دور دراز کے ممالک اس پر نتیجہ خیز احتجاج کرتے مگر بدقسمتی دیکھیے کہ کسی مسلم ملک کے حکمرانوں کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ یہودی دہشت گردوں کے خلاف آواز اٹھاتے۔ ترکی جیسے دو ایک ممالک نے آواز اٹھائی مگر وہ بھی مدھم رہی۔
یہ بے حسی قوموں کا مقدر ہوتی ہے۔ یہ سنت الٰہی ہے کہ جب کوئی قوم راہ راست کو چھوڑ کر گمراہی کا ازخود انتخاب کر لیتی ہے تو قدرت اس کے اعضا کو شل کر دیتی ہے اور اس کی غیرت و حمیت رخصت ہو جاتی ہے اور اس کے دشمن اس قوم کے جسد خاکی کو گِدھوں کی طرح نوچ نوچ کر کھانے لگتے ہیں۔ اب ہم وہ بے حس قوم ہیں اور یہود تو ہمیشہ سے مردار خور گِدھ رہے ہی ہیں۔
برصغیر میں مغلوں کے عہد اواخر میں ان کی صلاحیتوں کا یہ عالم رہ گیا تھا کہ دلی کے نواح کے جاٹ اور گوجر کبھی دہلی پر حملہ آور ہوتے اور جو ہاتھ آتا وہ لوٹ کر لے جاتے۔ اسی زمانے میں غلام قادر روہیلہ نے دہلی پر حملہ کیا اور قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ قلعہ میں داخل ہو کر اس نے مغل شہزادیوں کو ایک جگہ جمع کیا خود صوفے پر دراز ہو گیا۔ زرہ اتاری، مغفر سے سر کو آزاد کیا اور سستانے کے لیے لیٹ گیا۔
اس نے عظیم مغلیہ سلطنت کی شہزادیوں کو حکم دیا کہ جب تک میں آرام کروں تم لوگ یوں ہی برہنہ رقص کرتی رہو۔ وہ کرتی رہیں، چند منٹ بعد ہی روہیلہ اٹھ بیٹھا اور اس نے کہا میں نے اپنے تحفظ کی ہر چیز اتار دی تھی۔ شمشیر بے نیام میز پر رکھ دی تھی اور سوتا بن گیا تھا، اگر کسی مغل شہزادی میں غیرت ہوتی تو میری تلوار سے میرا سر اُڑا دیتی مگر جسے غیرت کہتے ہیں وہ مغلوں سے رخصت ہوئی۔
وہ تو صرف ایک ملک کی حکمرانی تھی اب تقریباً 57 ممالک کے حکمرانوں کی غیرت متاثر ہوئی ہے ابھی کسی طرف سے کوئی آواز، کوئی نعرہ، کوئی گھرکی سنائی نہیں دے رہی۔ حکمران اس کو اپنی مجبوری اور رعایا حکمرانوں کو ذمے دار قرار دے کر اپنے آپ کو عافیت میں رکھنا چاہتے ہیں۔
ان ناگفتہ بہ حالات میں ہماری خوش خیالی یہ تھی کہ اس سال ہماری قوم کو نئے سال کی خوشی کا دورہ نہیں پڑے گا۔ نگراں حکومت نے بھی اس بار خصوصی ہدایت فرمائی تھی کہ فلسطین میں ''خونِ مسلم کی ارزانی'' کے پیش نظر اس سال نئے سال کی خوشیوں کو بالائے طاق نہ رکھ سکیں تو محدود ضرور کردیں۔
پولیس نے بھی حسب معمول سی ویو کو جانے والے راستے بند کردیے تھے اور جگہ جگہ پولیس تعینات تھی مگر بارہ بجتے ہی قومی غیرت جاگ اٹھی، آتش بازی شروع ہوئی اور پٹاخوں کی آڑ میں فائرنگ کے دھماکے بھی ہوتے رہے۔ جب قومیں مردہ ہو جاتی ہیں تو ان کی حس مر جاتی ہے۔ غلام قادر روہیلہ کی ہڈیاں کہیں کسی قبر میں پڑی سلگ رہی ہوں گی کہ اس قوم کی حمیت پر ماتم کرنے کے لیے اب کوئی غلام قادر روہیلہ بھی نہیں۔
یکم جنوری کے اخبارات نے اطلاع دی کہ رات کی آتش بازی سے 29 شہری زخمی ہوئے۔ آتش بازی سے جلنے جلانے کا امکان تو ہوتا ہے یہ زخمی کیسے تھے جو اسپتال لائے گئے۔ 38 افراد کو بظاہر دفعہ 144 کی خلاف ورزی یا ''آتشیں ہتھیار'' استعمال کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔
اب ان زخمیوں کے علاج معالجے کی تمام ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے یا وہ یہ ثابت کرے کہ یہ لوگ ان 38 افراد کی کسی سرگرمی کے باعث زخمی ہوئے تو ان سے انھیں معاوضہ دلایا جائے مگر ہمارے خیال میں نہ یہ اقدام ہوگا نہ وہ بس رات گئی بات گئی۔
شکر ہے کہ اس سال کوئی جان ضایع نہیں ہوئی ورنہ ہر سال کچھ میتیں بھی اٹھانا پڑتی ہیں۔ مگر ہم نے کبھی نہیں سنا کہ اس قسم کی سرگرمی میں ملوث کسی شخص کو سزا ہوئی ہو اور کیوں ہو؟ کبھی کبھی خوشیاں منانے کا حق تو سب کو ہے۔
ہر بار سرکاری طور پر اعلان کیا جاتا ہے کہ بعض مخصوص مقامات کی طرف جانا منع ہے اور وہ ہے ساحلی علاقہ، مگر سب سے زیادہ رش انھی جگہوں پر ہوتا ہے۔ پولیس کی طرف سے جن سڑکوں کو اس دن ٹریفک کے لیے بند کر دیا جاتا ہے، انھی سڑکوں اور ساحلوں پر سب سے زیادہ رش ہوتا ہے۔
آتش بازی کے ساتھ خودکار ہتھیاروں کی فائرنگ سے کانوں کے پردے پھٹے جاتے ہیں۔ عورتیں اور بچے سہم کر رہ جاتے اور اپنے بستروں میں دبک جاتے ہیں اور اب ہم اس شغل کو اپنا قومی معمول بنا چکے ہیں، اس لیے اس کی روک تھام کے لیے کیے گئے اقدام بھی بے دلی سے کیے جاتے ہیں اس لیے ان سرگرمیوں کے لیے مواقع خود بہ خود فراہم ہو جاتے ہیں۔
مگر اس سال بات ذرا مختلف تھی۔ گزشتہ تین ماہ سے فلسطین میں مسلمانوں پر جو بربریت کی جا رہی ہے اور اسرائیل جس بے رحمانہ طریقے سے ان کے جان، مال، عزت، آبرو، غیرت و حمیت پر حملہ آور ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ارد گرد کے مسلم ممالک خصوصاً اور دور دراز کے ممالک اس پر نتیجہ خیز احتجاج کرتے مگر بدقسمتی دیکھیے کہ کسی مسلم ملک کے حکمرانوں کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ یہودی دہشت گردوں کے خلاف آواز اٹھاتے۔ ترکی جیسے دو ایک ممالک نے آواز اٹھائی مگر وہ بھی مدھم رہی۔
یہ بے حسی قوموں کا مقدر ہوتی ہے۔ یہ سنت الٰہی ہے کہ جب کوئی قوم راہ راست کو چھوڑ کر گمراہی کا ازخود انتخاب کر لیتی ہے تو قدرت اس کے اعضا کو شل کر دیتی ہے اور اس کی غیرت و حمیت رخصت ہو جاتی ہے اور اس کے دشمن اس قوم کے جسد خاکی کو گِدھوں کی طرح نوچ نوچ کر کھانے لگتے ہیں۔ اب ہم وہ بے حس قوم ہیں اور یہود تو ہمیشہ سے مردار خور گِدھ رہے ہی ہیں۔
برصغیر میں مغلوں کے عہد اواخر میں ان کی صلاحیتوں کا یہ عالم رہ گیا تھا کہ دلی کے نواح کے جاٹ اور گوجر کبھی دہلی پر حملہ آور ہوتے اور جو ہاتھ آتا وہ لوٹ کر لے جاتے۔ اسی زمانے میں غلام قادر روہیلہ نے دہلی پر حملہ کیا اور قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ قلعہ میں داخل ہو کر اس نے مغل شہزادیوں کو ایک جگہ جمع کیا خود صوفے پر دراز ہو گیا۔ زرہ اتاری، مغفر سے سر کو آزاد کیا اور سستانے کے لیے لیٹ گیا۔
اس نے عظیم مغلیہ سلطنت کی شہزادیوں کو حکم دیا کہ جب تک میں آرام کروں تم لوگ یوں ہی برہنہ رقص کرتی رہو۔ وہ کرتی رہیں، چند منٹ بعد ہی روہیلہ اٹھ بیٹھا اور اس نے کہا میں نے اپنے تحفظ کی ہر چیز اتار دی تھی۔ شمشیر بے نیام میز پر رکھ دی تھی اور سوتا بن گیا تھا، اگر کسی مغل شہزادی میں غیرت ہوتی تو میری تلوار سے میرا سر اُڑا دیتی مگر جسے غیرت کہتے ہیں وہ مغلوں سے رخصت ہوئی۔
وہ تو صرف ایک ملک کی حکمرانی تھی اب تقریباً 57 ممالک کے حکمرانوں کی غیرت متاثر ہوئی ہے ابھی کسی طرف سے کوئی آواز، کوئی نعرہ، کوئی گھرکی سنائی نہیں دے رہی۔ حکمران اس کو اپنی مجبوری اور رعایا حکمرانوں کو ذمے دار قرار دے کر اپنے آپ کو عافیت میں رکھنا چاہتے ہیں۔
ان ناگفتہ بہ حالات میں ہماری خوش خیالی یہ تھی کہ اس سال ہماری قوم کو نئے سال کی خوشی کا دورہ نہیں پڑے گا۔ نگراں حکومت نے بھی اس بار خصوصی ہدایت فرمائی تھی کہ فلسطین میں ''خونِ مسلم کی ارزانی'' کے پیش نظر اس سال نئے سال کی خوشیوں کو بالائے طاق نہ رکھ سکیں تو محدود ضرور کردیں۔
پولیس نے بھی حسب معمول سی ویو کو جانے والے راستے بند کردیے تھے اور جگہ جگہ پولیس تعینات تھی مگر بارہ بجتے ہی قومی غیرت جاگ اٹھی، آتش بازی شروع ہوئی اور پٹاخوں کی آڑ میں فائرنگ کے دھماکے بھی ہوتے رہے۔ جب قومیں مردہ ہو جاتی ہیں تو ان کی حس مر جاتی ہے۔ غلام قادر روہیلہ کی ہڈیاں کہیں کسی قبر میں پڑی سلگ رہی ہوں گی کہ اس قوم کی حمیت پر ماتم کرنے کے لیے اب کوئی غلام قادر روہیلہ بھی نہیں۔
یکم جنوری کے اخبارات نے اطلاع دی کہ رات کی آتش بازی سے 29 شہری زخمی ہوئے۔ آتش بازی سے جلنے جلانے کا امکان تو ہوتا ہے یہ زخمی کیسے تھے جو اسپتال لائے گئے۔ 38 افراد کو بظاہر دفعہ 144 کی خلاف ورزی یا ''آتشیں ہتھیار'' استعمال کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔
اب ان زخمیوں کے علاج معالجے کی تمام ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے یا وہ یہ ثابت کرے کہ یہ لوگ ان 38 افراد کی کسی سرگرمی کے باعث زخمی ہوئے تو ان سے انھیں معاوضہ دلایا جائے مگر ہمارے خیال میں نہ یہ اقدام ہوگا نہ وہ بس رات گئی بات گئی۔
شکر ہے کہ اس سال کوئی جان ضایع نہیں ہوئی ورنہ ہر سال کچھ میتیں بھی اٹھانا پڑتی ہیں۔ مگر ہم نے کبھی نہیں سنا کہ اس قسم کی سرگرمی میں ملوث کسی شخص کو سزا ہوئی ہو اور کیوں ہو؟ کبھی کبھی خوشیاں منانے کا حق تو سب کو ہے۔