جہنم کے طالب

جو اسلام نے مرتبہ دیا ہے وہ عورت کی اہمیت اور مرتبے کو اجاگر کرتا ہے

nasim.anjum27@gmail.com

ماؤں کی عزت وتکریم کا تذکرہ ہر مذہب میں موجود ہے لیکن جو اسلام نے مرتبہ دیا ہے وہ عورت کی اہمیت اور مرتبے کو اجاگر کرتا ہے۔

عورت عظیم رشتوں کے تقدس میں بندھی ہوئی ہے وہ ماں ہے ، بہن ہے، بیٹی ہے اور بیوی ہے، وہ تمام رشتوں میں گھر کی عزت ہے، اس کے دم سے موسم ِ بہار ہے، ہر رنگ میں اس کے پیار کی خوشبو پورے گھرانے کو معطر رکھتی ہے ، وہ اولاد کے لیے جنت بھی ہے اور جہنم بھی ، اولاد اپنے عمل کی اور اپنے والدین سے حسن سلوک کی بناء پر ہی جنت یا دوزخ میں ڈالے جانے کے مستحق ہیں، لیکن افسوس اس بات کاہے کہ آج کی نافرمان اولاد نے اپنے کرتوتوں کی بدولت اپنے آپ کو دوزخ کا حقدار بنالیا ہے ۔

اولاد کے رویے اور عورت کی بے گھری اور سہارا دینے کے جذبے نے محتاج خانوں ، فلاحی اداروں کو وجود بخشا ہے، غمزدہ ماؤں کاآخری ٹھکانہ اور ناخلف اولاد کی آخری خدمت بس یہ ہی ہے کہ وہ اپنے والدین کو بوجھ سمجھتے ہوئے انھیں ایسے ہی اداروں میں داخل کرادیتے ہیں اور خود اپنی جان چھڑالیتے ہیں ، لیکن اللہ جان چھوڑنے والا ہرگز نہیں ہے وہ سزا دے کر رہے گا، اس کے ہی حکم کے مطابق اپنے والدین سے اونچی آواز یا جھٹرک کر بات نہ کرو ان سے کسی بھی معاملے میں اف بھی نہیں کرنا ورنہ ذلت و رسوائی مقدر بنے گی۔

والدین کی نافرمانی گناہ کبیر ہے، قرآن کریم میں والدین اور خصوصا ''ماں'' کا تذکرہ بارہا آیا ہے ، اولا د کا فرض ہے کہ وہ اپنی ماں کو اس ہی طرح عزیز جانیں جس طرح اس نے پیدائش سے جوانی تک اس کا خیال رکھا ، یہ ہی نہیں بلکہ وہ جب تک زندہ سلامت رہی اپنی اولاد کی خدمت اور ہر پل دعاؤں میں مصرو ف تھی اپنے رب سے اس کی سلامتی و صحت کے لیے گڑگڑا کر دعائیں مانگتی رہی۔

لیکن نافرمان اور بد نصیب اولاد ایک معمولی سی بات پر کبھی بیوی کو ساس سے نجات دلانے کے لیے محتاج خانے کا رخ کرتی ہے، جو گھر گرہستی اس نے تنکا تنکا جمع کرکے اکٹھا کی تھی وہ سب کچھ مع گھر سمیت چھین لیا جاتا ہے ۔


کل ہی کی بات ہے جب ایک خاتون کا فون آیا وہ رو رو کر فریاد کر رہی تھیں کہ میرے بیٹے نے جائیداد پر قبضہ کرلیا ، گھر بیچ کر لاکھوں اور کروڑوں کی رقم ہتھیالی، مجھ پر اس نے اور اس کی بیوی نے بے شمار پابندیاں عائد کردیں، کچن کا رخ نہیں کرنا، کمرے سے باہر نہیں آنا ہے ، بچوں سے بات تو دور کی بات ، جی بھر کے دیکھنا بھی نہیں ہے مکمل پابندی ہے ، رشتے داروں اور عزیزوں سے ملاقات پر بھی پابندیوں کی لسٹ میں شامل ہے، موبائل بھی چھین لیا ہے، دو ، دو دن بعد باسی کھانا ملتا ہے کئی بیماریوں میں مبتلا ہوں، دواؤں سے بھی محروم کردی گئی ہوں ، میری زندگی کو خطرہ ہے ، بس آپ اتنا کردیں کسی فلاحی ادارے کو فون کرکے مجھے یہاں سے نکلوادیں، یا پھر آپ خود آکر مجھے لے جائیں ، ایدھی، چھیپا، انصار برنی ٹرسٹ میں جمع کرادیں ، وہ دھاڑیں مار رہی تھی، انھوں نے بتایا یہ میرا ہی نمبر ہے ، آج غلطی سے اپنا کمرہ کھلا چھوڑ گئے ہیں ، میرا موبائل بھی بیڈ کی دراز میں تھا ۔انھوں نے اللہ اور رسول کے واسطے دیے کہ انسانیت کے ناتے مجھے یہاں سے نجات دلائیں ، میں نے ان کا نمبر فلاحی ادارے کو دے تو دیا ہے ، انھوں نے وعدہ بھی کیا ہے کہ وہ آج اور ابھی یہ فریضہ انجام دیں گے چاہے انھیں اس مقصد کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے ۔

ایک تنہا رہنے والے میاں بیوی کی زندگی بھی اذیت ناک ہے ، بیٹا باہر رہتا ہے اعلیٰ عہد ے پر فائز اور والدین چھوٹے سے کوارٹر میں زندگی بسر کر رہے ہیں، ماں باپ نے بڑی چاہت اور محبت کے ساتھ پڑھایا، شادی کی ، لیکن نتیجے کی شکل میں بیٹا ایک دن اچانک آن دھمکا ، میاں بیوی کا خوشی سے برا حال ہوا ، گلے لگانے اور چومنے کی کوشش کرتے رہے ، لیکن اس نے اپنی امیری اور قیمتی زیب تن سوٹ کے قریب بھی نہ آنے دیا ، دو چار باتیں کیں ، کچھ کپڑے اور فروٹ کا تھیلا تھمایا اور پھر ذرا دھیمے لہجے میں باپ سے مخاطب ہوا ، ابا ایک خاص با ت کرنے آیا ہوں ، ہاں بول میرے بیٹے ، باپ نے پیار سے کہا ، پھر دھیمے سے لاڈ کرتے ہوئے بولے جو میرے سرکار کا حکم! بیٹا مسکرایا ، دو منٹ خاموش رہا ، جیسے بات کرنے لیے الفاظ کی تلاش میں ہو، کوئی موزوں جملہ مل جائے، جس سے معاملہ آسانی سے نمٹ جائے ، ماں زمین پر مونڈھے پر بیٹھی تھی اور اس کی شکل ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی ، اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ اپنے دل کے تمام پھپولے پھوڑ لے، پھر نہ جانے وقت ملے نہ ملے، وہ بھی یہ ہی سوچ رہی تھی کہ کس طرح بیٹے کی غفلت، کوتاہی کا رونا روئے ، اسے عذاب الٰہی اور گناہ کا احساس دلائے ،اسی اثنا میں ایک طرف ماں نے کہنا چاہا کہ میرے بیٹے طاہر! جس ماں نے تیرے لیے زندگی کا سکھ چین کھویا، تجھے اچھا کھلایا، اچھا پہنایا اور ہم بھوکے رہے ، بوسیدہ کپڑوں میں زندگی گذاری، تمہاری تعلیم اور ملازمت کے لیے جمع پونجی بھی خرچ کردی اور تونے بیٹا یہ صلہ دیا بوڑھے ماں باپ کو، پہلے فون کرنا چھوڑدیا اور پھر خرچہ بھی کئی سالوں سے نہیں بھیجا، ہم کس طرح زندگی بسر کر رہے ہیں کاش تو سمجھتا۔

اپنے شناختی کارڈ سے اپنے باپ کا نام ہٹادے جو تجھے اپنی گود میں لے کر گھنٹوں پارکوں اور چڑیا گھرلیے گھوما کرتا تھا،اس کے بڑے ارمان تھے، اب اس کی خوشیوں اور تمناؤں کے چراغ بجھ گئے ہیں ، اور تو ، تو اپنی ماں کی شناخت بھی بھلا چکا ہے، کیسی ماں، کونسی ماں ؟ کیا نام تھا،بھلااس کا ؟ وہ عورت کون تھی جس کی آغوش میں پیدائش سے لے کر جوانی تک اپنا سر رکھ کر لیٹ جایا کرتا تھا، کیا باہر کی دنیا میں اتنی کشش ہے ؟ جو والدین کو بھی بھلادیتی ہے اور ہوسکتا ہے مذہب کو بھی بھول بیٹھا ہو ، جسے مذہبی تعلیم یاد رہتی ہے وہ کبھی نہیں بھٹکتا ہے، دیکھ مشین چلاتے چلاتے میرے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں اور پیروں میں زخم، سیٹھ ہر ماہ راشن بجھوادیتا ہے ۔

ماں تو سوچ کر ہی رہ گئی کچھ نہیں کہہ سکی ، مہمان تھا وہ بھی اپنا خون، اپنا بیٹا ، جس کا خمیر اس کے وجود سے اٹھا تھا ، لیکن بیٹے نے بات کرنے میں پہل کر لی، دھیمے سے بولا بات یہ ہے ابا !میںچاہتاہوں آپ یہ گھر بیچ دیں اور ہم کہاں جائیں گے ؟

باپ کو طیش آگیا ، ابا میں نے اماں اور آپ کا ٹھکانہ سوچ لیا ہے ، بلکہ بات بھی کرلی ہے وہاں آپ زیادہ سکون سے رہیں گے، مجھے دراصل پیسوں کی ضرورت ہے ، فیکٹری میں کافی نقصان ہوگیا ہے ، اس لیے سوچا کہ اپنا گھر موجود ہے ، اس سے کام چلالوں گا ، ابا میں نے اسٹیٹ ایجنسی میں فون کیا تھا ، وہ بتار ہے تھے کہ اس کوارٹر کی قیمت کم از کم پچاس لاکھ سے زیادہ ہی ہوگی ، بس آ پ دستخط کردیں ، اس نے کاغذات ابا کے سامنے رکھ دیے، اماں کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا ۔

باپ نے ایک آہ بھری اور بولے قربانی کے جانور کو ذبح کرنے سے پہلے پانی پلایاجاتا ہے ، ٹہرو میں پانی پی کر آتا ہوں ، ماں نے دھائی مچائی ہم کیوں کردیں تیر ے نام گھر ، تیرے ہوتے ہوئے ہم محتاج خانے میں جائیں گے، شرم نہیں آئے گی تجھے، جس وقت بیٹے کے ہاتھ ماں کی گردن تک پہنچے ، عین اس ہی وقت پولیس اندر داخل ہوگئی تھی ، پاکستان کے نئے قانون کے مطابق کوئی اولاد والدین کو بے دخل نہیں کرسکتی ہے ، پھر وہ قانونی کارروائی کرنے لگے ۔
Load Next Story