امن کی شہنائی
میڈیا نفرت کی دیوار کھڑی کر کے ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ برقرار رکھنے کی خواہش کرنے والوں کی تسکین کرتا ہے ۔۔۔
وزیر اعظم نواز شریف،نریندر مودی سے کامیاب مذاکرات کے بعد واپس آ گئے۔ دونوں وزرائے اعظم نے امن مذاکرات کی بحالی اور تجارتی روابط بڑھانے پر اتفاق کیا۔ وزیر اعظم مودی نے دہشت گردی کے خاتمے پر زور دیا ۔ میاں صاحب نے واضح کیا کہ وہ 1999ء جیسے تعلقات کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ دونوں وزرائے اعظم کی یہ مثبت ملاقات انتہا پسندوں کو پسند نہیں آئی۔
وزیر اعظم نریندر مودی کا سیاسی ارتقاء ہندوتوا کے نفاذ اور پاکستان دشمنی پر ہوا ہے ان کے مؤقف میں تبدیلی کی حقیقی وجوہات ہیں مگر بھارت کے کارپوریٹ سیکٹر نے مودی کی حمایت شفاف طرز حکومت اور نئی منڈیوں کی تلاش کے لیے کی ہے، بھارت کے کارپوریٹ سیکٹر کو اپنے مال اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں کھپت کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش میں ہے یہ منڈیاں پاکستان سمیت سارک ممالک کے علاوہ مشرق بعید، افریقہ، یورپ اور امریکا تک میں پھیلی ہوئی ہے مگر بھارتی اشیاء اور ٹیکنالوجی کو پاکستان اور سارک ممالک میں محدود مقابلے کا سامنا ہے۔ یورپ اور امریکا اور خلیجی ممالک میں چین جرمنی، جاپان جیسے ممالک کی اشیاء مقابلے میں دستیاب ہیں۔
اگرچہ چین پاکستان کی منڈیوں پر چھایا ہوا ہے اور مہنگی سے لے کر سستی اشیاء ہر طرف فروخت ہوتی نظر آتی ہیں مگر بھارت کی سرحدیں پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال سے ملی ہوئی ہیں اور پھر پاکستان کے راستے افغانستان، ایران، وسطی ایشیائی ممالک کی منڈیوں تک سڑک ریل کے ذریعے رابطے کے امکانات روشن ہیں، کارپوریٹ سیکٹر کی ترقی کے لیے سرحدوں پر امن ہونا ضروری ہے۔ اس صورتحال میں وزیر اعظم مودی کے پاس اپنے پیشرو اٹل بہاری واجپائی کی پیروی کرنے سے اچھا کوئی اور راستہ نہیں ہے، اس طرح وزیر اعظم نواز شریف پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں ترقی کے خواہاں ہیں وہ صنعتی اور زرعی ترقی کے لیے توانائی کے بحران کے خاتمے سڑکوں اور ریلوے کی ترقی پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں ۔
پاکستان کی اشیاء کے لیے بھارت کی بہت بڑی منڈی کھلی ہوتی ہے، ترقی کے لیے امن کی ضرورت ہے اور امن بھارت سے دوستی کر کے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے مخصوص سیاسی ڈھانچے میں سول حکومت کو مضبوط کرنے اور عسکری اسٹیبلشمنٹ پر آئین کے تحت جمہوری حکومت کی بالادستی ضروری ہے۔ میاں نواز شریف جب 1991ء میں پہلی دفعہ ملک کے وزیر اعظم بنے تھے تو ان حقائق کی بناء پر بھارت سے دوستی کے حامی ہو گئے تھے مگر طالع آزما قوتوں کے مضبوط ہونے کی بناء پر وہ اپنے پہلے دور حکومت میں کوئی خاطر خواہ اقدام نہ کر سکے ۔ لیکن دوسرے دور حکومت میں وزیر اعظم واجپائی کو دوستی بس میں بٹھا کر اور مینار پاکستان پران سے پاکستان کو تسلیم کرنے کا اعلان کر کے تاریخی کامیابی حاصل کی تھی مگر جنرل مشرف کی کارگل میں فوج کشی نے دوستی کے زیر تعمیر پل کے پلروں کو ڈھا دیا تھا ۔
اب سیاسی و جغرافیائی صورتحال میں کافی تبدیلی رونما ہوچکی ہے، نائن الیون کے سانحے کے بعد امریکا کے تھنک ٹینک اس نکتے پر متفق ہیں کہ انتہا پسند غیر ریاستی کرداروں کے خاتمے کے لیے بھارت اور پاکستان کے تعلقات خوشگوار ہونا ضروری ہیں۔ اندرونی سیاسی منظر نامے میں حزب اختلاف کی بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی، جمیعت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ بھارت سے دوستی کے حامی ہیں، صرف تحریک انصاف تضادات سے بھر پور پالیسی اختیا ر کیے ہوئے تھے، عمران خان بھارت جا کر دوستی کی نوید دیتے ہیں مگر ملک میں طالع آزما قوتوں کی ڈاکٹرائن بیان کرتے ہیں۔
یوں بھارت سے دوستی کے معاملے میں میاں نواز شریف کو 1999ء سے زیادہ حمایت حاصل ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے نریندر مودی کی بحیثیت وزیر اعظم حلف برداری کی تقریب میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا تو انتہا پسند اس دورے کو منفی نتائج کا خوف دلا رہے تھے۔ کچھ مبصرین کا کہنا تھا کہ بھارتی جنتا پارٹی کے وزراء میاں صاحب کو ان کے شایان شان پروٹوکول نہیں دیں گے یوں پاکستانی وزیر اعظم بے عزتی کا شکار ہونگے، کچھ یہ کہہ کر شور مچا رہے تھے کشمیر اور پانی کے مسئلے پر بات چیت نہیں ہو گی یوں یہ دورہ ناکام ہو گا۔ اس طرح کچھ دہشت گردوں کے الزامات کا خطرہ ہے مگر وزیر اعظم نواز شریف کے شاندار استقبال سے ثابت ہوا کہ مودی کو میاں نواز شریف کے ذریعے دوستی کی اہمیت کا اندازہ ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نے ممبئی دہشت گردی میں ملوث ملزمان کے خلاف مقدمات چلانے کا معاملہ اٹھایا مگر جب انھیں بتایا گیا کہ طویل عدالتی نظام کی بناء پر فیصلوں میں دیر ہو رہی ہے تو بھارتی وزیر اعظم مطمئن ہوئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نے بھارتی وزیر اعظم پر واضح کیا کہ الزامات لگانے سے صورتحال بہتر نہیں ہو گی، بھارتی انتہا پسند جماعت کے رہنماؤں سے امن اور مربوط ڈائیلاگ پر اتفاق اس دورے کی کامیابی ہے۔ اس موقعے پر پاکستانی میڈیا کے کردار کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ بعض ٹی وی چینلز نے میاں نواز شریف کے اس پہلے دورے کو تمام مسائل کے حل سے منسلک کر دیا ہے۔ پھر یہ کہا جانے لگا کہ کشمیر جیسے مسئلے پر بات چیت نہیں ہوئی یہ مسئلہ 65 سال سے التواء کا شکار ہے اس کا حل اگلے 65 سالوں میں ممکن ہے۔
میڈیا نفرت کی دیوار کھڑی کر کے ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ برقرار رکھنے کی خواہش کرنے والوں کی تسکین کرتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ نیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ ہمیشہ تضادات اور خطرات کا شکار رہی ہے ۔ ملک کی 65 سالہ تاریخ اس کی گواہ ہے، دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے رشتے کو مضبوط کر کے فلاحی ریاست قائم ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم کو سرحد پار دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام پر خصوصی توجہ دینی ہو گی انتہا پسندوں کو تنہا کرنے کے لیے مسلم لیگی حکومت کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی ہو گی۔ مگر نریندر مودی اور میاں نواز شریف ایک مثبت انڈر اسٹینڈنگ کے ذریعے حالات کو بہتر بنا سکتے ہیں ۔
دونوں ممالک کو چاہیے کہ عوام سے عوام کے رشتوں کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی اقدامات کریں ۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور صنعتی تعلقات کی راہ میں رکاوٹوں کو دور ہونا چاہیے ۔ وزیر اعظم نواز شریف کو سب سے پہلے بھارت کو پسندیدہ تجارتی ممالک کی فہرست میں شامل کرنا چاہیے ۔ بھارت کو پاکستانی اشیاء کی بھارت میں برآمد او ان کی کھپت کے لیے ضروری اقدامات کرنے چاہیے اس کے ساتھ پاکستان میں توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہیے اور دونوں ممالک کے درمیان سفری رکاوٹوں کو غیر موثر ہونا چاہیے ۔ پاکستانی حکومت نے گذشتہ ماہ دو بھارتی صحافیوں کے ویزے میں توسیع نہ کر کے ایک منفی کارروائی کی تھی مگر اب صحافیوں، اساتذہ ، وکلاء سیاسی اور سماجی کارکنوں کے ویزے کے طریقہ کار کو آسان بنانا چاہیے اور ایسے اقدامات ہونے چاہیے کہ ایئر پورٹ یا واہگہ یا تھر پارکر کے آخری اسٹیشن پر ویزے ملنے کی سہولت مہیا ہو جائے۔
اس طرح کتابوں اخبارات کی تجارت پر تمام ٹیکس ختم ہونے چاہیے اور اخبارات اور کتابیں دونوں ممالک میں آسانی سے دستیاب ہونی چاہیے، عام شہریوں کے ویزے کے طریقے کار کو زیادہ آسان ہونا چاہیے۔ ممبئی اور کراچی میں قونصل خانوں کے قیام کے مسئلے کو حل ہونا چاہیے بلکہ مدراس، گجرات لکھنؤ، کوئٹہ، پشاور، لاہور میں قونصل خانے قائم ہونے چاہیے اس طرح بہاولنگر اور قصور کے دہلی جانے والے قدیم راستوں کی بحالی پر غور کرنا چاہیے مگر اس تمام صورتحال میں مودی سرکار کو پاکستان کو زیادہ مراعات دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
پاکستان مین طالع آزما قوتیں اپنے مخصوص مفادات کے لیے دہشت گردی کو اپنا ہتھیار سمجھتی ہیں ۔ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ اس معاملات میں سول حکومتوں کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ کارگل اور ممبئی میں ہونے والے واقعات سے حقائق کی تصدیق ہوچکی ہیں یوں کسی ممکنہ واقعے کی بنیاد پر دونوں ممالک کے تعلقات پھر خراب نہیں ہونے چاہیے ۔ عوام کے عوام کے رابطوں تجارتی ، ثقافتی ، سماجی تعلقات سے دہشت گردی کے عزائم کو ناکام بنا سکتے ہیں ۔
مودی وسیع القلبی کا ثبوت دے تو ترقی کا عمل تیز ہوسکتا ہے۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ تنازعات کا حل بھی نکل سکتا ہے۔ نریندر مودی کے دوررس اقدامات سے ڈیڑھ ارب انسانوں کا مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے اور دونوں ممالک غربت کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کر سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان امن کی شہنائی کی گونج جاری رہنی چاہیے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کا سیاسی ارتقاء ہندوتوا کے نفاذ اور پاکستان دشمنی پر ہوا ہے ان کے مؤقف میں تبدیلی کی حقیقی وجوہات ہیں مگر بھارت کے کارپوریٹ سیکٹر نے مودی کی حمایت شفاف طرز حکومت اور نئی منڈیوں کی تلاش کے لیے کی ہے، بھارت کے کارپوریٹ سیکٹر کو اپنے مال اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں کھپت کے لیے نئی منڈیوں کی تلاش میں ہے یہ منڈیاں پاکستان سمیت سارک ممالک کے علاوہ مشرق بعید، افریقہ، یورپ اور امریکا تک میں پھیلی ہوئی ہے مگر بھارتی اشیاء اور ٹیکنالوجی کو پاکستان اور سارک ممالک میں محدود مقابلے کا سامنا ہے۔ یورپ اور امریکا اور خلیجی ممالک میں چین جرمنی، جاپان جیسے ممالک کی اشیاء مقابلے میں دستیاب ہیں۔
اگرچہ چین پاکستان کی منڈیوں پر چھایا ہوا ہے اور مہنگی سے لے کر سستی اشیاء ہر طرف فروخت ہوتی نظر آتی ہیں مگر بھارت کی سرحدیں پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال سے ملی ہوئی ہیں اور پھر پاکستان کے راستے افغانستان، ایران، وسطی ایشیائی ممالک کی منڈیوں تک سڑک ریل کے ذریعے رابطے کے امکانات روشن ہیں، کارپوریٹ سیکٹر کی ترقی کے لیے سرحدوں پر امن ہونا ضروری ہے۔ اس صورتحال میں وزیر اعظم مودی کے پاس اپنے پیشرو اٹل بہاری واجپائی کی پیروی کرنے سے اچھا کوئی اور راستہ نہیں ہے، اس طرح وزیر اعظم نواز شریف پاکستان اور خاص طور پر پنجاب میں ترقی کے خواہاں ہیں وہ صنعتی اور زرعی ترقی کے لیے توانائی کے بحران کے خاتمے سڑکوں اور ریلوے کی ترقی پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں ۔
پاکستان کی اشیاء کے لیے بھارت کی بہت بڑی منڈی کھلی ہوتی ہے، ترقی کے لیے امن کی ضرورت ہے اور امن بھارت سے دوستی کر کے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے مخصوص سیاسی ڈھانچے میں سول حکومت کو مضبوط کرنے اور عسکری اسٹیبلشمنٹ پر آئین کے تحت جمہوری حکومت کی بالادستی ضروری ہے۔ میاں نواز شریف جب 1991ء میں پہلی دفعہ ملک کے وزیر اعظم بنے تھے تو ان حقائق کی بناء پر بھارت سے دوستی کے حامی ہو گئے تھے مگر طالع آزما قوتوں کے مضبوط ہونے کی بناء پر وہ اپنے پہلے دور حکومت میں کوئی خاطر خواہ اقدام نہ کر سکے ۔ لیکن دوسرے دور حکومت میں وزیر اعظم واجپائی کو دوستی بس میں بٹھا کر اور مینار پاکستان پران سے پاکستان کو تسلیم کرنے کا اعلان کر کے تاریخی کامیابی حاصل کی تھی مگر جنرل مشرف کی کارگل میں فوج کشی نے دوستی کے زیر تعمیر پل کے پلروں کو ڈھا دیا تھا ۔
اب سیاسی و جغرافیائی صورتحال میں کافی تبدیلی رونما ہوچکی ہے، نائن الیون کے سانحے کے بعد امریکا کے تھنک ٹینک اس نکتے پر متفق ہیں کہ انتہا پسند غیر ریاستی کرداروں کے خاتمے کے لیے بھارت اور پاکستان کے تعلقات خوشگوار ہونا ضروری ہیں۔ اندرونی سیاسی منظر نامے میں حزب اختلاف کی بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی، جمیعت علمائے اسلام (ف)، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ بھارت سے دوستی کے حامی ہیں، صرف تحریک انصاف تضادات سے بھر پور پالیسی اختیا ر کیے ہوئے تھے، عمران خان بھارت جا کر دوستی کی نوید دیتے ہیں مگر ملک میں طالع آزما قوتوں کی ڈاکٹرائن بیان کرتے ہیں۔
یوں بھارت سے دوستی کے معاملے میں میاں نواز شریف کو 1999ء سے زیادہ حمایت حاصل ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف نے نریندر مودی کی بحیثیت وزیر اعظم حلف برداری کی تقریب میں شرکت کا فیصلہ کیا تھا تو انتہا پسند اس دورے کو منفی نتائج کا خوف دلا رہے تھے۔ کچھ مبصرین کا کہنا تھا کہ بھارتی جنتا پارٹی کے وزراء میاں صاحب کو ان کے شایان شان پروٹوکول نہیں دیں گے یوں پاکستانی وزیر اعظم بے عزتی کا شکار ہونگے، کچھ یہ کہہ کر شور مچا رہے تھے کشمیر اور پانی کے مسئلے پر بات چیت نہیں ہو گی یوں یہ دورہ ناکام ہو گا۔ اس طرح کچھ دہشت گردوں کے الزامات کا خطرہ ہے مگر وزیر اعظم نواز شریف کے شاندار استقبال سے ثابت ہوا کہ مودی کو میاں نواز شریف کے ذریعے دوستی کی اہمیت کا اندازہ ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نے ممبئی دہشت گردی میں ملوث ملزمان کے خلاف مقدمات چلانے کا معاملہ اٹھایا مگر جب انھیں بتایا گیا کہ طویل عدالتی نظام کی بناء پر فیصلوں میں دیر ہو رہی ہے تو بھارتی وزیر اعظم مطمئن ہوئے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نے بھارتی وزیر اعظم پر واضح کیا کہ الزامات لگانے سے صورتحال بہتر نہیں ہو گی، بھارتی انتہا پسند جماعت کے رہنماؤں سے امن اور مربوط ڈائیلاگ پر اتفاق اس دورے کی کامیابی ہے۔ اس موقعے پر پاکستانی میڈیا کے کردار کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ بعض ٹی وی چینلز نے میاں نواز شریف کے اس پہلے دورے کو تمام مسائل کے حل سے منسلک کر دیا ہے۔ پھر یہ کہا جانے لگا کہ کشمیر جیسے مسئلے پر بات چیت نہیں ہوئی یہ مسئلہ 65 سال سے التواء کا شکار ہے اس کا حل اگلے 65 سالوں میں ممکن ہے۔
میڈیا نفرت کی دیوار کھڑی کر کے ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ برقرار رکھنے کی خواہش کرنے والوں کی تسکین کرتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ نیشنل سیکیورٹی اسٹیٹ ہمیشہ تضادات اور خطرات کا شکار رہی ہے ۔ ملک کی 65 سالہ تاریخ اس کی گواہ ہے، دونوں ممالک کے درمیان دوستی کے رشتے کو مضبوط کر کے فلاحی ریاست قائم ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم کو سرحد پار دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام پر خصوصی توجہ دینی ہو گی انتہا پسندوں کو تنہا کرنے کے لیے مسلم لیگی حکومت کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی ہو گی۔ مگر نریندر مودی اور میاں نواز شریف ایک مثبت انڈر اسٹینڈنگ کے ذریعے حالات کو بہتر بنا سکتے ہیں ۔
دونوں ممالک کو چاہیے کہ عوام سے عوام کے رشتوں کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی اقدامات کریں ۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی اور صنعتی تعلقات کی راہ میں رکاوٹوں کو دور ہونا چاہیے ۔ وزیر اعظم نواز شریف کو سب سے پہلے بھارت کو پسندیدہ تجارتی ممالک کی فہرست میں شامل کرنا چاہیے ۔ بھارت کو پاکستانی اشیاء کی بھارت میں برآمد او ان کی کھپت کے لیے ضروری اقدامات کرنے چاہیے اس کے ساتھ پاکستان میں توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہیے اور دونوں ممالک کے درمیان سفری رکاوٹوں کو غیر موثر ہونا چاہیے ۔ پاکستانی حکومت نے گذشتہ ماہ دو بھارتی صحافیوں کے ویزے میں توسیع نہ کر کے ایک منفی کارروائی کی تھی مگر اب صحافیوں، اساتذہ ، وکلاء سیاسی اور سماجی کارکنوں کے ویزے کے طریقہ کار کو آسان بنانا چاہیے اور ایسے اقدامات ہونے چاہیے کہ ایئر پورٹ یا واہگہ یا تھر پارکر کے آخری اسٹیشن پر ویزے ملنے کی سہولت مہیا ہو جائے۔
اس طرح کتابوں اخبارات کی تجارت پر تمام ٹیکس ختم ہونے چاہیے اور اخبارات اور کتابیں دونوں ممالک میں آسانی سے دستیاب ہونی چاہیے، عام شہریوں کے ویزے کے طریقے کار کو زیادہ آسان ہونا چاہیے۔ ممبئی اور کراچی میں قونصل خانوں کے قیام کے مسئلے کو حل ہونا چاہیے بلکہ مدراس، گجرات لکھنؤ، کوئٹہ، پشاور، لاہور میں قونصل خانے قائم ہونے چاہیے اس طرح بہاولنگر اور قصور کے دہلی جانے والے قدیم راستوں کی بحالی پر غور کرنا چاہیے مگر اس تمام صورتحال میں مودی سرکار کو پاکستان کو زیادہ مراعات دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
پاکستان مین طالع آزما قوتیں اپنے مخصوص مفادات کے لیے دہشت گردی کو اپنا ہتھیار سمجھتی ہیں ۔ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ اس معاملات میں سول حکومتوں کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔ کارگل اور ممبئی میں ہونے والے واقعات سے حقائق کی تصدیق ہوچکی ہیں یوں کسی ممکنہ واقعے کی بنیاد پر دونوں ممالک کے تعلقات پھر خراب نہیں ہونے چاہیے ۔ عوام کے عوام کے رابطوں تجارتی ، ثقافتی ، سماجی تعلقات سے دہشت گردی کے عزائم کو ناکام بنا سکتے ہیں ۔
مودی وسیع القلبی کا ثبوت دے تو ترقی کا عمل تیز ہوسکتا ہے۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ تنازعات کا حل بھی نکل سکتا ہے۔ نریندر مودی کے دوررس اقدامات سے ڈیڑھ ارب انسانوں کا مستقبل محفوظ ہو سکتا ہے اور دونوں ممالک غربت کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کر سکتے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان امن کی شہنائی کی گونج جاری رہنی چاہیے۔